انٹرویو محترم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب – دل کی بیماریوں سے بچیں
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جولائی 1999ء میں پاکستان کے معروف ماہر امراض قلب محترم ڈاکٹر محمد مسعود الحسن نوری صاحب کا ایک انٹرویو شامل اشاعت ہے جسے ایک پینل نے قلمبند کیا ہے جس میں مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب، مکرم فخرالحق شمس صاحب اور مکرم انیس احمد ندیم صاحب شامل تھے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے محترم ڈاکٹر صاحب کا نام مسعودالحسن رکھا تھا اور آپ کے دادا مکرم ڈاکٹر نورالحسن صاحب (جنہوں نے آپ کے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی تھی) کے نام کے حوالہ سے آپ کے نام میں نوری کا اضافہ کردیا گیا اور پھر حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کے نام کی وجہ سے محمد کے نام کا بھی اضافہ ہوگیا۔ آپ کے والد مکرم میجر منظورالحسن صاحب نے اکنامکس اور انگریزی میں ایم۔اے کیا اور فوج کے مختلف تدریسی اداروں میں پڑھاتے رہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کا تعلق بنیادی طور پر گجرات سے ہے۔ آپ کی اہلیہ محترم کرنل صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحب کی بیٹی اور حضرت مسیح موعودؑ کی پڑپوتی ہیں۔ آپ کی والدہ کا تعلق کابل سے ہے اس لئے آپ کی مادری زبان فارسی ہے۔ آپ کے نانا بھی ڈاکٹر تھے اور امان اللہ امیرافغانستان (جن کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے کتاب ’’دعوۃالامیر‘‘ تحریر فرمائی) کی والدہ کے ذاتی معالج تھے۔
محترم ڈاکٹر صاحب تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ملٹری کالج سرائے عالمگیر سے حاصل کی اور میٹرک اور F.Sc میں ٹاپ کرنے کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ میڈیکل کے پانچویں سال اپنی زندگی وقف کردی۔ M.B.B.S میں ٹاپ کرنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی تحریک پر فوج میں شامل ہوگئے جہاں آپ کو میڈیسن میں سپیشلائزیشن کروائی گئی اور کالج آف فزیشن کراچی سے میڈیکل میں پاکستان کی اعلیٰ ترین ڈگری FCPS حاصل کی۔ پھر فوج کی طرف سے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے بھجوائے گئے اور سینٹ تھامز ہاسپیٹل لندن سے آٹھ دس مہینوں میں MRCP کرکے واپس چلے گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے فرمانے پر ہی آپ نے کارڈیالوجی یعنی امراض قلب کی تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں اس میدان میں آپ کو حضورؒ کے علاوہ جماعت کے بے شمار بزرگوں کے علاج کی توفیق ملی اور مل رہی ہے۔
1981ء کے بعد آپ نے دنیا کے مختلف ممالک میں بہت سے تحقیقی مقالے پڑھے۔ 1988ء میں امریکن کالج آف کارڈیالوجی نے آپ کو فیلوشپ دی۔ 1993ء میں رائل کالج آف فزیشنز ایڈنبرا نے اور 1994ء میں رائل کالج آف فزیشنز لندن نے بھی فیلوشپ دی۔ آپ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی کے بانی ممبران میں شمار ہوتے ہیں اور آج کل انسٹیوٹ کے شعبہ کارڈیالوجی کے صدر ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے انٹرویو میں دل کی بیماریوں کے بارہ میں تفصیلی بات چیت کی۔ دل کی عام بیماریوں میں دل کی خون کی نالیوں میں رکاوٹ ہے جو آج کل موت کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ پہلی دو وجوہات کینسر اور سڑکوں پر حادثات ہیں۔ اس کے علاوہ دل کی بیماری بلڈپریشر سے بھی ہوتی ہے اور گٹھیا سے بھی دل کے والوز متاثر ہوتے ہیں۔ پھر دل کے پٹھوں کی کمزوری سے بھی دل کی بیماری ہو جاتی ہے جس کی ایک وجہ وائرل انفیکشن ہے۔
ایسی مائیں جو بے وجہ ادویات استعمال کرتی ہیں تو بچے کے دوسرے اعضاء کے علاوہ دل پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ماں کی وائرل انفیکشن بھی بچے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ایک بڑی وجہ تابکاری بھی ہے۔ ایکس ریز کا بھی بچے پر اثر ہوتا ہے اور اسی طرح اگر ماں اعصابی کھچاؤ اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو یہ بھی بچے میں دل کی بیماری پیدا کرسکتی ہے۔
اگر خاندان میں کسی کو دل کی تکلیف ہوئی ہو تو خاندان کے دیگر افراد کو احتیاط کرنی چاہئے۔ خوراک میں گھی کا زیادہ اور سبزیوں کا کم استعمال بلڈپریشر ہائی کرتا ہے جس سے دل پر اثر پڑتا ہے۔ شوگر کی بیماری بھی دل کی بیماری پیدا کرسکتی ہے۔ سگریٹ نوشی بہت خطرناک عادت ہے جس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
بچے کی پیدائش سے پہلے دل ٹیوب کی شکل میں ہوتا ہے اور پھر چار حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ان حصوں کے درمیان والوز ہوتے ہیں۔ اگر اس تقسیم میں کوئی خرابی رہ جائے تو سوراخ بن جاتا ہے جس کی علامتوں میں سانس پھولنا، بچے کی نشونما میں کمی، بار بار کھانسی، نزلہ اور بخار کی شکایت نیز دودھ صحیح طریقہ سے نہ پی سکنا شامل ہیں۔ یہ سوراخ پچاس فیصد بچوں میں گیارہ بارہ سال کی عمر تک بند ہو جاتا ہے۔ اگر سوراخ بہت بڑا ہو تو آپریشن سے بند کرنا پڑتا ہے۔
دل کی بیماریوں پر قابو پانے کے لئے متوازن غذا کا استعمال کریں، نماز فجر کے بعد ورزش اور تیز چلنے والی سیر سب سے زیادہ مفید ہے، نیز سگریٹ بالکل ترک کردیں۔ موٹاپا سے بچنا اور ذہنی دباؤ سے دور رہنا چاہئے۔ ٹی۔وی زیادہ دیکھنے سے بھی ذہنی دباؤ ہو جاتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک رہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر اس میں خرابی پیدا ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، یہ لوتھڑا دل ہے۔
اگر دل کا حملہ ہو جائے تو عموماً سرجری کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تاہم بیلون اینجوپلاسٹی بھی ایک کامیاب طریق کار ہے جس سے خون کی شریان میں نوے فیصد رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں ران کے قریب خون کی بڑی شریان میں جاکر دل تک پہنچتے ہیں اور رکاوٹ والے حصہ میں پہنچ کر ایک غبارہ پھلایا جاتا ہے جو رکاوٹ کھول دیتا ہے۔ بعض اوقات ایک خاص قسم کی کوائل (Stent) ڈال دی جاتی ہے تاکہ اُس کے دوبارہ بند ہونے کا اندیشہ کم ہوجائے۔ اگر کسی شخص میں دل کی رفتار کم ہو جائے تو ایک مصنوعی آلہ ’’پیس میکر‘‘ (Pace Maker) لگایا جاتا ہے جو دراصل ماچس کی ڈبیا کے برابر ایک بیٹری ہوتی ہے اور اس کی عمر عموماً بارہ سال ہوتی ہے۔ جدید ’’پیس میکر‘‘ میں دل کی رفتار کو کنٹرول کرنے کا نظام بھی آگیا ہے۔
دل اور دماغ کا تعلق بہت گہرا ہے اور ایک کا اثر دوسرے پر ضرور ہوتا ہے۔
بہترین ورزش صبح فجر کے بعد خالی پیٹ سیر کی ہے جو پینتیس چالیس منٹ تیز چلتے ہوئے کی جائے۔ یہی عمل ہمیں آنحضورﷺ کا چودہ سو سال پہلے دکھائی دیتا ہے۔ تیز چلنے کی ورزش دوڑنے سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے۔
پھر قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر سے دل تسکین پاتے ہیں۔ چنانچہ نماز ادا کرنے سے ثواب بھی ملتا ہے لیکن یہ انسانی دل کی صحت کیلئے بھی بہت ضروری ہیں اور اگر اس کے ساتھ تہجد کو بھی شامل کرلیا جائے تو پھر یہ سونے پر سہاگہ ہوگا۔ اور مَیں نے اپنے ذاتی تجربات اور ہزاروں لاکھوں مریضوں پر تحقیق کرنے کے بعد تہجد کو دل کی بیماریوںسے بچنے کا ایک عمدہ نسخہ پایا ہے۔