انٹرویو مکرم عبداللہ ناصر بوٹنگ صاحب
ماہنامہ ’’گائیڈنس‘‘ جولائی 1999ء میں مکرم عبداللہ ناصر بوٹنگ صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے جو مکرم الحاج آدم داؤد صاحب نے قلمبند کیا ہے۔
مکرم بوٹنگ صاحب حال ہی میں غانا کے محکمہ تعلیم سے بحیثیت ڈائریکٹر ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ وہ احمدیہ مسلم مشن غانا کے ٹرسٹی، جماعت احمدیہ غانا کے سیکرٹری تعلیم اور اشانٹی ریجن کے صدر ہیں۔ آپ کا نام پہلے تھامس عبداللہ بوٹنگ تھا جس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اپنے دورہ افریقہ 1970ء کے دوران ناصر کا اضافہ فرمادیا۔ تاہم بعض لوگوں کا اصرار تھا کہ انہیں اپنے نام ’’تھامس‘‘ کو بدل لینا چاہئے۔
1988ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ غانا کے دورہ پر تشریف لائے تو سالٹ پانڈ کی مجلس عرفان میں ایک احمدی نے سوال کیا کہ کیا ایک احمدی مسلمان کا نام تھامس عبداللہ بوٹنگ ہو سکتا ہے؟۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کسی احمدی کا نام کیا ہے بلکہ اہمیت اس امر کی ہے کہ اُس احمدی کا کردار کیا ہے۔
آپ اپنے پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ آپ کی پیدائش 26؍دسمبر 1937ء کو اشانٹی کے ایک قصبہ میں ہوئی۔ آپ کے والد آپ کی پیدائش سے چار ماہ پہلے وفات پاچکے تھے جبکہ آپ کی والدہ بھی اُس وقت وفات پاگئیں جب آپ کی عمر صرف ایک سال تھی۔ آپ کی پرورش آپ کے ماموں نے کی جو ایک روایتی مذہب کے پیروکار تھے۔ 1944ء میں آپ کو سکول میں داخل کردیا گیا۔ 1955ء میں آپ نے ’’او۔لیول‘‘ اور 1957ء میں ’’اے۔ لیول‘‘ کیا اور پھر بطور ٹیچر ملازمت اختیار کرلی۔ مئی 1958ء میں آپ کی تبدیلی تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کماسی میں کردی گئی جہاں آپ نے جنرل سائنس کے مضمون کی تعلیم کا اجراء کیا۔ ستمبر 1958ء میں آپ نے مزید تعلیم کے لئے یونیورسٹی کالج آف غانا میں داخلہ لیا اور 1961ء میں گریجوایشن کرکے دوبارہ سکول میں پڑھانا شروع کیا لیکن جلد ہی تعلیم کے مضمون میں ڈپلومہ کرنے کے بعد کیمسٹری میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور پھر سکول میں پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1981ء میں آپ کو Winneba کے ڈائریکٹر کے طور پر ترقی دیدی گئی۔ آپ کو احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول کے ہیڈماسٹر کے طور پر بھی خدمت کا موقع ملا۔ محکمہ تعلیم میں بطور ڈائریکٹر اور ریجنل ڈائریکٹر لمبی خدمت کے علاوہ غانا کے سائنس کے اساتذہ کی ایسوسی ایشن کے مختلف عہدوں پر بھی کام کا موقعہ ملا۔ غانا کیمیکل سوسائٹی کے فیلو اور WAEC کے چیف ایگزیمنر بھی رہے۔
آپ کی پسندیدہ شخصیت حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کی تھی۔ جب 1969ء میں حضرت چودھری صاحب غانا تشریف لائے تو آپ کو کماسی میں اُن کے ترجمان کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ ایک سوال کے جواب میں آپ نے بتایا کہ اگر آپ کو زندگی گزارنے کے لئے میدان عمل کے انتخاب کا موقعہ دیا جائے تو آپ ایک عالم اور مبلغ کے طور پر زندگی گزارنا پسند کریں گے۔
مکرم ناصر بوٹنگ صاحب نے کیمسٹری کی پانچ کتب تحریر کی ہیں جو محکمہ تعلیم کے نصاب میں شامل ہیں۔ نیز Twi زبان میں متعدد دینی کتب بھی رقم کی ہیں اور انگریزی میں بہت سے مضامین شائع کئے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی میں بھی آپ کا نام ایک ایماندار افسر کے طور پر کیسے لیا جاتا ہے؟ آپ نے بتایا کہ لوگ اپنے مشاہدہ کے مطابق زندگی گزارتے ہیں جبکہ مَیں بچپن سے اس بات پر عمل پیرا رہا ہوں کہ اگر میرا تنہائی میں کیا ہوا کوئی عمل ظاہر ہونے پر مجھے شرمندہ کردے تو وہ عمل مجھے کرنا ہی نہیں چاہئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے پروگرام کے بارہ میں آپ نے بتایا کہ آپ کی خواہش ہے کہ غانا میں تبلیغ کیلئے اپنی طاقت صرف کریں خصوصاً اکان (Akan) بولنے والی قوم میں۔ نیز عام لوگوں کے دیگر مسائل بھی حل کئے جائیں مثلاً مزید سکول کھولے جائیں اور خدام الاحمدیہ کے تحت ایسے چھوٹے موٹل (Motel) قائم کئے جائیں جہاں حلال گوشت دستیاب ہو تو اس کا بہت اچھا اثر ہوگا۔
خدام کے نام آپ نے اپنے پیغام میں کہا کہ دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم حاصل کرنا اور اسے اپنے اوپر لاگو کرنا ضروری ہے یعنی اپنے کردار کی حفاظت سب سے زیادہ مقدم ہے۔ کوئی شخص اپنے خالق کے ساتھ صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہی تعلق قائم کرسکتا ہے اور یہی زندگی کا مقصد ہے۔ شریعت ایک اخلاقی اور روحانی لائحہ عمل ہے جبکہ قوانین قدرت بھی دنیا میں لاگو ہیں۔ بھرپور کامیابی کے لئے دونوں سے استفادہ کرنا ضروری ہے اور استفادہ کرنے کے لئے دونوں کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور دونوں قوانین کے مطابق زندگی گزارنا ہی تقویٰ ہے۔