انٹرویو: مکرم محمد بدر بادو صاحب
مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے رسالہ ’’طارق‘‘ فروری 2010ء میں مکرم محمد بدر بادو صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے۔ آپ کا تعلق گھانا سے ہے اور اپنی فیملی کے ہمراہ لمبے عرصہ سے کرائیڈن (لندن) میں مقیم ہیں۔
مکرم محمد بدر بادو صاحب اپنی قبولِ احمدیت کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1991ء میں جب میری عمر 14 سال تھی تو مجھے یہ خیال آیا کہ زندگی میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا دارومدار خدا تعالیٰ کی عطاکردہ طاقتوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ مَیں نے اپنی زندگی کا نصب العین دو امور کو قرار دے لیا۔ اوّل یہ کہ دوسروں کے لئے ہمدردی اور رحمدلی کا جذبہ اور دوم سچائی پر قائم ہوجانا۔
1995ء میں مَیں نے اپنے نصب العین کو ساتھ لے کر یونیورسٹی میں قدم رکھا تو میرا خیال تھا وہاں اپنے چند ہم خیال دوستوں کو اکٹھا کرلوں گا لیکن عملاً یہ ہوا کہ مَیں ہی دوسروں سے الگ تھلگ نظر آنے لگا اور ان حالات میں مجھے ڈپریشن ہونے لگا۔ جھوٹ اور خودغرضی کی شکار دنیا نے مجھے زندگی گزارنے کی امنگ سے ہی محروم کردیا۔ چنانچہ ایک دو سال میں مَیں نے عوام میں مساوات کی دعویدار ’سوشلسٹ ورکر پارٹی‘ میں شمولیت کرلی ۔ لیکن عملاً جب پارٹی کارکنان کے باہمی حسد اور عداوت کو دیکھا تو جلد ہی اس پارٹی سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
اس عرصہ میں میرے ایک احمدی دوست عمران نے میری ناگوار ذہنی حالت کو قریب سے دیکھا تو مجھے احمدیت سے بھی متعارف کروایا۔ ایک عیسائی ہونے کے ناطے میرے لئے احمدیت میں دلچسپی اسی بات نے پیدا کردی کہ اس کے بانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوسری بعثت کا دعویٰ کیا تھا۔ عمران کے پروگرام بنالینے پر مَیں نے مجبوراً جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کی اور اس دوران عمران کی فیملی سے بھی ملاقات ہوئی۔ جلسہ کے دوسرے روز عمران کی والدہ نے (عمران کے منع کرنے کے باوجود) مجھے گزشتہ رات کی اپنی ایک خواب سنائی جس میں وہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھارہی ہیں اور احمدیت کے بارہ میں کچھ باتیں بتا رہی ہیں۔ عمران کی والدہ نے بتایا کہ خواب کے مطابق مَیں احمدیت قبول کرلوں گا۔ یہ سن کر مَیں نے اُن کا شکریہ ادا کیا تو اُن کے اس جواب نے مجھے حیران کردیا کہ میرا شکریہ نہ ادا کرو کیونکہ یہ خبر تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے۔ بہرحال جلسہ سالانہ کے موقع پر دنیا کے مختلف خطّوں سے تعلق رکھنے والے احمدیوں سے میری ملاقات ہوئی تو اُن کے دلائل سن کر مَیں نے بھی اگلے ہی روز احمدیت قبول کرلی۔
احمدیت قبول کرنے سے بہت سال قبل مَیں نے غیراحمدی مُلّاؤں کو اُن یہودی علماء کے مماثل محسوس کیا تھا جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت دکھ دیئے تھے۔ احمدی ہونے کے بعد مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنی شروع کیں تو میرا خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہونے لگا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے دل میں پیداہونا شروع ہوگئی۔ احمدیت کے طفیل خدا تعالیٰ نے مجھ پر دنیاوی افضال بھی کئے۔ چنانچہ مَیں نے بھی شرطِ بیعت کے مطابق ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھا اور کبھی دنیاوی فوائد کی پرواہ نہیں کی۔ خدا تعالیٰ کے انعامات کے حوالہ سے مجھے کسی آیت کی تفسیر میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے اُس ارشاد کا خیال آتا ہے کہ ’’اگر تم خدا تعالیٰ کے کاموں کی پرواہ کروگے تو وہ تمہاری ضروریات کا خیال اس طرح رکھے گا کہ تم اس کا ادراک بھی نہ کرسکوگے‘‘۔
میرے والدین غانین ہونے کی وجہ سے احمدیت کے بارہ میں پہلے سے جانتے تھے لیکن میرے قبول احمدیت کے بعد انہوں نے میری مخالفت کی جس میں اُس وقت شدّت آگئی جب مَیں نے کرائیڈن ٹاؤن سینٹر میں تبلیغ کرنا شروع کی۔ پھر خوابوں کے نتیجہ میں جب مَیں نے پاکستان جاکر شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ بات بھی میرے والدین کو بہت ناگوار گزری۔ تاہم اس سارے عرصہ میں میرے احمدی بھائیوں نے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا۔ میرے خاندان اور میرے دوستوں نے بھی ابتدا میں میرے احمدی ہونے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا لیکن جب انہوں نے مجھ میں مثبت تبدیلیاں دیکھیں تو میرا احمدی ہونا قبول کرلیا۔ تاہم میری اصل طاقت وہ تھی جو خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی اور یہ اُس سے تعلق مضبوط ہونے سے ہی حاصل ہوئی تھی جو قبول احمدیت کے بعد نیک نیّتی سے کی جانے والی طویل عملی جدوجہد کا نتیجہ بھی ہے۔ نومبائعین کے اجتماعات بھی اس کا اہم ذریعہ ہیں۔
نواحمدیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنے ایمان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی بنیاد بنالیں اور دوسروں کے عمل سے کبھی نہ جوڑیں۔ دعا کرنا، قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنا اس کے لئے بہت مفید ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو سچائی کی تلاش میں ہیں اگر وہ اپنے ساتھ دیانتدار ہیں تو یقینا کامیاب ہوجائیں گے۔ ایک خاتون سے میری ملاقات ہوئی جو اپنے بیٹے کے قبولِ اسلام پر بہت دل گرفتہ تھی۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ اُسے اسلام کے بارہ میں تمام معلومات عیسائیوں نے ہی دی ہیں۔ مَیں نے اُسے خود مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا تو اُس کا جواب تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہونا چاہتی۔ گویا اُس کے لئے صداقت کی تلاش کی نسبت اُس کی اپنی خواہشات زیادہ مقدّم تھیں۔ بلاشبہ سچائی بہت قیمتی چیز ہے اور بڑی قربانی پیش کئے بغیر اِسے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔