انڈونیشیا میں اسلام کی آمد
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23اپریل 2005ء میں محترم حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مربی انڈونیشیا کے قلم سے انڈونیشیا میں اسلام کی آمد سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
انڈونیشیا میں اسلام کی ابتداء یہاں کے ساحلی علاقوں میں مسلمان تاجروں کے ذریعہ ہوئی۔ مگر اسلام کو یہاں پھیلانے کا سہرا بعد میں ہندوستانی گجراتی تاجروں کے سر ہے جو تجارت کی غرض سے یہاں آئے تھے مگر انہوں نے اسلام کی اشاعت کو ہی اپنا اولین مقصود قرار دے لیا۔ اسلام کی انڈونیشیا میں ترقی چونکہ سراسر تبلیغی مساعی کا نتیجہ تھی اس لئے یہاں اسلام کی آمد اور پھر ترقی کا زمانہ کئی سو سالوں پر حاوی ہے۔ مگر اسلام کی اشاعت اور ترقی سولہویں صدی عیسوی میں عروج کو پہنچی جب یہاں 1576ء میں ہندو رواج کا خاتمہ ہوا۔ اس وقت متعدد راجے اور حکمران مسلمان تھے۔ 1568ء میں بھی ایک حکمران حسن الدین کا ذکر خصوصیت سے ملتا ہے جس کے ذریعہ مغربی جاوا میں اسلام کو کافی ترقی ہوئی۔
مشرقی جاوا کی ایک بندرگاہ گریسک کے علاقہ میں 1523ء میں تیس ہزار مسلمان تھے۔ اسی طرح شمالی سماٹرا کے ایک مسلمان حکمران Ali Mugajat Shah (1514-28ء) کی جھڑپیں اکثر پرتگالیوں کے ساتھ ہوتی رہتی تھیں جو اس وقت ملاکاؔ (ملایا) پر قابض تھے۔ پرتگالیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ یہاں کی تجارت پر قبضہ کرلیں۔ پرتگالیوں کی آمد اس علاقہ میں 1509ء میں ہوئی اور 1511ء میں وہ ملاکا پر قابض ہوگئے جو اُس وقت بین الاقوامی تجارت کا مرکز اور مسلمان تاجروں کی آماجگاہ تھا۔ چین کو جانے والے عرب اور ہندی قافلوں کی گزرگاہ یہی تھی۔ 1409ء میں ملاکاؔ کا بیشتر حصہ مسلمان ہوچکا تھا۔ پرتگالی قبضہ کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے یہاں حالات سخت ناساز گار ہوگئے چنانچہ جو مسلمان تاجر مشرقی جاوا سے جاکر وہاں آباد ہوئے تھے انہیں مجبوراً اپنے وطن کو واپس لوٹنا پڑا۔ یہ تاجر جب واپس لوٹے تو ان کے ساتھ اسلام بھی جاوا اور سماٹرا میں آیا اور فروغ پاگیا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں یہاں کے 9ولی مشہور ہوئے جنہوں نے ڈمک (وسطی جاوا) میں مرکز بناکر وہاں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی۔ اُن میں ایک ملک ابراہیم المعروف مولانا المغربی ہیں۔ جن کی وفات 1419ء میں ہوئی اور آپ مشرقی جاوا کے مقام گریسکؔ میں مدفون ہوئے۔ ابن بطوطہ بھی قریباً 1350ء میں شمالی سماٹرا میں آیا۔ اس نے اپنے سفر نامہ میں یہاں کے مسلمان حکمران کی تعریف کی ہے جس نے اسلام کی کافی خدمت کی ہے۔ اُس نے یہ بھی لکھا کہ اس وقت بعض اچھے عہدوں پر ایرانی متعین تھے۔
چودہویں صدی عیسوی میں گجرات (انڈیا) مسلمانوں کا ایک اہم مرکز بن چکا تھا اور وہاں کے مسلمان تاجروں کی راہ رسم کثرت کے ساتھ جاوا کے تاجروں کے ساتھ تھی۔ مشرقی جاوا کی بندرگاہ توبانؔ اور گریسکؔ کو عروج حاصل تھا۔ ملاکاؔ کی تجارت بھی کافی زوروں پر تھی۔ اور ان تجارتی مراکز کا آپس میں گہرا رابطہ تھا۔ پرانی قبروں کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان ملک الصالح (وفات 1297ء) نے سَمُدْرا کی مشہور اسلامی بندرگاہ آباد کی تھی۔
اطالوی سیاح مارکو پولو نے چین سے ایران جاتے ہوئے 1292ء میں سَمُدْرا (شمالی سماٹرا) کی بندرگاہ میں 5ماہ قیام کیا۔ اس لمبے قیام کا سبب دراصل ہوائی رخ کا انتظار تھا جو اس کے سفر کے لئے ضروری تھا۔ اس وقت سمدرا کے لوگ تو مسلمان نہ تھے مگر وہاں کی ایک اور بندرگاہ Perlokمسلمان تھی۔ ایک ڈچ مورخ ستوترہیم (Stuter Heim) لکھتا ہے کہ شمالی سماٹرا میں اسلام کی ابتداء 1196ء میں ہوچکی تھی۔
ایک انڈونیشین مؤرخ حاجی آگو سالم کی تحقیق کے مطابق 758ء میں چین کی بندرگاہ کینٹین میں عربوں کی تجارت کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے کچھ وقت بعد ملک چین میں گڑ بڑ ہوئی تو یہ تجارت بند ہوگئی اور مسلمان بھی وہاں سے غائب ہوگئے۔ یہ علم نہیں ہوسکا کہ وہ مسلمان کہاں چلے گئے۔ اس کے بعد 9ویں صدی میں پھر تجارت شروع ہوگئی۔ اور اس دفعہ پہلے سے زیادہ منظم رنگ میں تھی۔ایک امام الصلوٰۃ اور قاضی کا تقرر بھی ثابت ہے۔ لیکن 880ء میں حالات کچھ ایسے پیداہوئے کہ مسلمانوں کی یہ تجارت منقطع ہوگئی اور وہ تجارتی قافلے جو عرب سے چین آیا کرتے تھے وہ ملایا کی ایک بندرگاہ Kedahrتک ہی رہ جانے لگے۔ قریباً یکصد سال تک یہی حالت رہی۔
دسویں صدی میں (971ء) چین کے بادشاہ نے پھر غیر ملکی تاجروں کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی اور بعض نئی مراعات کا وعدہ بھی کیا چنانچہ پھر مسلمانوں نے تجارت شروع کی۔ اس دَور میں مسلمانوں کو بادشاہ کے دربار میں بھی رسائی ہوئی۔ یہ دور پھر کافی لمبا چلا۔ 1178ء میں چین کی تجارت سب سے زیادہ عرب ممالک کے ساتھ تھی اور دوسرے نمبر پر جاوا اور پھر سماٹرا تھے۔ اس زمانہ کے تجارتی قافلے لمبے سفر میں انڈونیشیا کی بندرگاہوں میں ضرور ٹھہرتے تاکہ اشیائے خورونوش اکٹھی کرلیں اور ہوا کے رُخ کے انتظار میں بھی بعض دفعہ انہیں کسی قدر لمبا عرصہ ٹھہرنا پڑجاتا۔
سیاح المسعودی نے بھی جاوا کے بعض حکمرانوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ سیاح 957ء میں فوت ہوئے۔
آثار قدیمہ کی تلاش کے نتیجہ میں مشرقی جاوا میں ایک مسلمان عورت مسماۃ فاطمہ بنت مامون کی قبر کا کتبہ ملا ہے جس پر 1082ء کا سن تحریر ہے۔ مورخین کے نزدیک یہ اس علاقہ میں مسلمانوں کی آمد کا قدیم ترین ثبوت ہے۔