اونٹ
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اگست 2008ء میں مکرم راشد احمد باجوہ صاحب کا اونٹ کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔
اونٹ کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی ایک کوہان والا اور دو کوہانوں والا۔ اس کی اوسط عمر 50 سے 60 سال تک ہوتی ہے۔ بار برداری،گوشت اور دودھ کے حصول کی وجہ سے اس کی اہمیت برقرار ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں گائے کے دودھ کی نسبت زیادہ توانائی ہوتی ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں چکنائی اور پروٹین زیادہ ہوتے ہیں نیز اس دودھ سے روایتی طریقے کے مطابق مکھن بھی نہیں بنتا جب کہ دہی بنانا آسان ہے اور اس کے دہی یا مکھن کا رنگ ہلکا سبزی مائل ہوتا ہے۔ یہودی اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام سمجھتے ہیں۔
اونٹ کے جسم میں دوہری جلد ہوتی ہے۔ ایک اندورنی تہہ اور ایک بیرونی تہہ۔اندورنی تہہ گرم ہوتی ہے جبکہ بیرونی تہہ بالوں سے بھری ہوتی ہے۔ایک اونٹ ایک سال میں قریباََ 7 کلو تک اون پیدا کرتا ہے۔اونٹ 40 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک دوڑ سکتا ہے۔ اس کے پاؤں ہموار اور چوڑے ہوتے ہیں۔ ایک پاؤں میں دو انگوٹھے ہوتے ہیں۔ جب اونٹ اپنا پاؤں زمین پر رکھتا ہے تو پاؤں پھیل جاتا ہے اور یہی پھیلاؤ اس کے پاؤں کو ریت میں دھنسنے سے روکتا ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اونٹ کوہان میں پانی جمع رکھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر استعمال کرتا ہے جو کہ غلط ہے۔کوہان چربی تہوں سے بنی ہوتی ہے۔ خوراک نہ ملنے کی صورت میں اونٹ اسی چربی کو استعمال کرتا ہے۔ جب اونٹ اپنی کوہان میں موجود چربی سے توانائی حاصل کرنا شروع کردے تو وہ چھوٹی ہوجاتی ہے اور ایک طرف کو ڈھلک جاتی ہے لیکن کچھ ہی دنوں کے آرام اور اچھی خوراک سے کوہان اپنی پہلی حالت میں پھر سے واپس آجاتی ہے۔
اونٹ کا منہ کافی بڑا ہوتا ہے اور اس میں 34 دانت ہوتے ہیں۔ نیز منہ کی اندرونی سطح بھی نسبتاً سخت ہوتی ہے جس کی وجہ سے باآسانی کانٹے دار جھاڑیاں کھا جاتا ہے۔ یہ خوراک کو فوراََ نہیں چباتا بلکہ فارغ اوقات میں معدہ سے نکال کر جگالی کرتا رہتا ہے۔ لمبی پلکیں، کانوں کے بال اور سیل بند ہوجانے والے نتھنے سب ایسی خصوصیات ہیں جو اونٹ کو ریت کے طوفانوں میں بھی بچائے رکھتی ہیں۔
اونٹ کے جسم میں نمی بہت حد تک محفوظ رہتی ہے اور انتہائی ضرورت میں ہی استعمال ہوتی ہے۔ توانائی کے حصول کیلئے جب خوراک کی توڑپھوڑ کا عمل ہوتا ہے تو نہایت ہی کم مقدار پسینے کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ اونٹ کے خون کے سرخ خلیے بیضوی شکل کے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے جانداروں میں یہ گول ہوتے ہیں۔ خلیوں کی یہ شکل پانی کی کمی میں بھی خون کے بہاؤ میں سہولت پیدا کرتی ہے۔نیز اونٹ جب پانی پیتا ہے تو ایک ہی بار میں 20 سے 25 گیلن تک پانی پی جاتا ہے۔ جو اس کے جسم کی گذشتہ کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کیلئے بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ جسم کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پسینہ جلد کی اندرونی تہہ تک ہی رہتا ہے اور ریڈی ایٹر کے اصول پر جسم کا درجہ حرارت کم کرتا ہے اور پسینے کی بہت کم مقدار نکلتی ہے۔ نیز اونٹ کے گردے بہت فعال ہوتے ہیں اور پیشاب میں بھی پانی کی بہت کم مقدار ضائع ہوتی ہے۔
سانس لینے کے دوران ہوا میں موجود نمی بھی اونٹ کا جسم محفوظ رکھتا ہے اور سبز گھاس اور جڑی بوٹیاں کھاتے وقت ان میں موجود نمی بھی جسم میں محفوظ رہ جاتی ہے۔ اونٹ جسم کا 25% پانی ختم ہونے تک برداشت کرلیتا ہے جبکہ دوسرے جانوروں میں 3 سے 4 فیصد پانی ختم ہونے پر دل بند ہوجاتا ہے۔