اُور (UR)
بصرہ سے 120 میل شمال میں طل المقیر نامی سرخی مائل رنگ کا ایک بڑا ٹیلا تھا جس کے اطراف میں کچھ زینے بنے ہوئے تھے اور علاقہ کے بدو طوفانی موسم میں ٹیلے کی اوٹ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ 1854ء میں بصرہ میں برٹش قونصل کے ایک غیر تجربہ کار افسر G.E.Taylorنے برٹش میوزیم کی درخواست پر اس علاقہ میں آثار قدیمہ کی تلاش شروع کی لیکن چونکہ وہ یہ کام ذاتی دلچسپی کی بجائے وزارتِ خارجہ کی ہدایت پر کر رہے تھے اس لئے مناسب حکمت عملی کا استعمال نہ ہونے سے ہزاروں سال سے محفوظ ان کھنڈرات کی غیرضروری توڑ پھوڑ شروع ہوگئی ۔پہلے مٹی ہٹانے پر چند دیواریں نمودار ہوئیں اور پکی ہوئی مٹی سے بنائی گئی دو مہریں برآمد ہوئیں جن سے علم ہوا کہ اس عمارت کوڈھائی ھزار سال قبل اس وقت دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا جب پرانی ہونے کے باعث یہ ٹوٹ پھوٹ چکی تھی اورپہلی بار اسے بادشاہ UR-Nammu نے تعمیر کروایاتھا۔
اُور (UR) کا لفظ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کی ابتدائی زندگی اسی بستی میں بسر ہوئی تھی اور مؤرخین کے مطابق بھی اُور کو اسی علاقہ میں ہونا چاہئے تھا۔ قرآن کریم کے مطابق اس بستی کے باسی بتوں اور اجرام فلکی کی عبادت کیاکرتے تھے۔
اُور کے مقام پر موسم کی شدت، لٹیروں کا خوف اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے کھدائی کا کام آسان نہ تھا چنانچہ دو سال بعد ٹیلر کی کوششیں ختم ہوگئیں اور یہ جگہ بدؤں کی توجہ کا مرکز بن گئی جنہوں نے ہر دستیاب چیز حتّٰی کہ پختہ اینٹیں بھی گدھوں کے ذریعے اپنے گھروں میں منتقل کرلیں۔ 1915ء میں برطانوی فوج کا ایک دستہ یہاں سے گزرا جس کا افسر کیمبل تھامپسن برٹش میوزیم سے متعلق رہ چکا تھا۔ اس نے یہاں کا ماہرانہ جائزہ لے کر اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ کھدائی کا کام بہت غیرپیشہ وارانہ انداز میں کیا گیا تھا اور یہ تحقیقی کام جاری رہنا چاہئے۔ چنانچہ 1922ء میں طویل تحقیقی کام کا آغاز ہوا جس سے کئی دریافتیں سامنے آئیں مثلاً اس شہر کا نام اُور تھا جہاں حضرت ابراہیمؑ نے پرورش پائی تھی۔ یہاں کے باشندے چاند کی پرستش کرتے تھے ۔ ایک چاند مندر تھا جو پورے علاقہ کے لئے اہمیت رکھتا تھا۔ مندر کے احاطہ کے مغربی جانب ایک چار منزلہ مینار تھا جس کی اونچائی 70 فٹ، لمبائی 200 فٹ اور چوڑائی 150 فٹ تھی۔ ہر منزل کی اوپر کی سطح پر باغیچہ لگایا گیا تھا۔ مختلف ادوار میں جن بادشاہوں نے مندر اور مینار میں تبدیلیاں کیں ان کے نام عمارت پر کندہ ہیں۔ مندر مذہبی رسومات اور معاشرتی تقریبات کا مرکز تھا ، یہاں ٹیکس جمع کیا جاتا جو اجناس، مویشی، اون، سونا، لکڑی اور تیل جیسی اشیاء کی صورت میں ہوتا اور اس کا ریکارڈ مٹی کی تختیوں پر رکھا جاتا تھا۔ یہاں اون سے کپڑا بھی تیار ہوتا اور کام کرنے والی عورتوں کے نام اور ان کی تنخواہوں کا حساب بھی ریکارڈ میں درج ہوتا تھا۔
حضرت ابراہیمؑ کے زمانے کی دریافتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ مؤرخین کی توقع سے زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ مکانات عام طور پردو منزلہ ہوتے تھے، دیواروں کا نچلا حصہ پختہ اور اوپر کا کچی اینٹوں کا بنایاجاتا۔ دیواروں پر پلستر اور پھر سفیدی کی جاتی۔ ہر گھر میں کئی کمرے ہوتے اور کمروں کے درمیان روشنی اور ہوا کیلئے بغیر چھت کا احاطہ ہوتا۔ بہت سے گھروں سے مٹی کی مورتیاں ملی ہیں۔ بعض گھروں کی نچلی منزل میں مندر ہوتا تھااور بعض صورتوں میں گھر کے افراد کو مرنے کے بعد اسی مندر کے فرش تلے دفن کردیا جاتا تھا۔ اس دور میں بادشاہ کو بھی دیوتا کی حیثیت حاصل تھی اور اسے دیوتاؤں کا ہدایت یافتہ خیال کیا جاتا تھا۔ شاہی خاندان کے افراد کو شان و شوکت سے دفن کیا جاتا، قیمتی زیور، برتن ، آلات ِموسیقی اور ہتھیاروں کے علاوہ بادشاہ یا ملکہ کے ساتھ قیمتی کپڑوں میں ملبوس کچھ مصاحب اور کنیزیں بھی دفن ہوتیں۔ ان قربان ہونے والوں کے ڈھانچوں پر تشدد کے نشان نہیں ملے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دفن کرنے سے قبل انہیں کوئی نشہ آور دوا پلا دی جاتی تھی۔ ایک صورت میں رتھ بمع گدھوں کے دفن کردی گئی تھی۔ یہ سب سامان مرنے والے کی بجائے چوروں کے کام آتا تھا کیونکہ اکثر شاہی مقبرے اس حالت میں ملے ہیں کہ ہزاروں سال قبل ہی وہ اپنے خزانوں سے محروم کیے جاچکے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں اُور پر ہاموربی بادشاہ کی حکومت تھی جس نے سلطنت کے لئے 300 قوانین پتھر پرکندہ کراکے نصب کئے تھے۔ یہ پتھر 1901ء میں دریافت ہوا جو اب پیرس کے میوزیم میں موجود ہے۔ اس کے شروع میں سورج دیوتا کی تعریف کی گئی ہے پھر شادی بیاہ، قتل کی سزا، لین دین، غلاموں کے قوانین درج ہیں۔ ایک دلچسپ قانون ڈاکٹروں کے بارے میں ہے کہ اگر کوئی طبیب کسی کی ٹوٹی ہوئی ہڈی درست کرے تو اسے مخصوص فیس دی جائیگی لیکن اگر علاج سے مریض مر جائے اور وہ آزاد انسان ہو تو سزا کے طور پر طبیب کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
اس تہذیب کے خاتمہ کی ایک وجہ یہ ہے کہ دریائے اُورجو پہلے بستی کے قریب سے گزرتا تھا اور نہری نظام کے ذریعہ زمینوں کی سیرابی کے علاوہ آمد و رفت کا ذریعہ بھی تھا ،اس نے حضرت عیسیٰؑ کے ظہورسے چند سو سال پہلے اپنا راستہ تبدیل کرلیا جس سے علاقہ کی خوشحالی ختم ہوگئی اور یہاں کے باسی رفتہ رفتہ ہجرت کر گئے۔
محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا یہ دلچسپ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 14؍ اپریل 1997ء کی زینت ہے۔