اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْرُ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 29؍مئی 2023ء)
حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان میں ربوہ میں پیدا ہونے والے پہلے بچے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ہیں جو۱۵؍ستمبر۱۹۵۰ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ حضور علیہ السلام کے پڑپوتے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے پوتے اور حضرت مصلح موعودؓ کے نواسے ہیں۔ آپ کا اسم گرامی ’مسرور احمد‘ حضرت مسیح موعودؑ کا الہامی نام ہے۔ چنانچہ دسمبر ۱۹۰۷ء کا الہام ہے: اِنّیِْ مَعَکَ یَا مسْرُوْرُ (یعنی اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں)۔
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ عطیہ کریم عارف صاحبہ نے اپنے مضمون میں سیدنا حضر ت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پاکیزہ زندگی کی چند ایمان افروز جھلکیاں پیش کی ہیں۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے میٹرک تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بی اے تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے کیا۔ ۱۹۷۶ء میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایگریکلچرل اکنامکس میں M.Sc کی۔ ۳۱؍جنوری ۱۹۷۷ءکو مکرمہ سیدہ امۃالسبوح بیگم صاحبہ بنت مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب اورمحترمہ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ سے شادی ہوئی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی مکرمہ صاحبزادی امۃ الوارث فاتح صاحبہ اور ایک بیٹے مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب سے نوازا۔
۱۹۷۷ء میں حضورانور نے زندگی وقف کی اور نصرت جہاں سکیم کے تحت اگست ۱۹۷۷ء میں غانا تشریف لے گئے جہاں ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک بطور پرنسپل احمدیہ سیکنڈری سکول سلاگا دو سال، ایسارچر چار سال اور پھر دو سال احمدیہ زرعی فارم ٹمالے شمالی غانا کے مینیجر رہے۔ آپ نے غانا میں پہلی بار گندم اگانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ ۱۹۸۵ء میں پاکستان واپسی ہوئی اور ۱۷؍مارچ ۱۹۸۵ء سے نائب وکیل المال ثانی کے طور پر تقرر ہوا۔ ۱۸؍جون ۱۹۹۴ء کو ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ اور ۱۰؍دسمبر۱۹۹۷ء کو ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے۔ اگست ۱۹۹۸ء میں صدر مجلس کارپرداز بھی مقرر ہوئے۔ بحیثیت ناظر اعلیٰ آپ ناظر ضیافت اور ناظر زراعت بھی خدمات بجا لاتے رہے۔ ۱۹۹۴ء تا ۱۹۹۷ء چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے۔ اسی عرصہ میں صدر تزئین ربوہ کمیٹی بھی تھے۔ ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۵ء تک ممبر قضاء بورڈ بھی رہے۔
خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں سال ۷۷-۷۶ء میں مہتمم صحت جسمانی، ۸۵-۸۴ء میں مہتمم تجنید، ۸۶-۸۵ء سے۸۹-۸۸ء تک مہتمم مجالس بیرون اور ۹۰-۸۹ء میں مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے نائب صدر رہے۔ مجلس انصاراللہ پاکستان میں قائد ذہانت و صحت جسمانی ۱۹۹۵ء میں اور قائد تعلیم القرآن وقف عارضی ۱۹۹۵ء تا ۱۹۹۷ء رہے۔
۳۰؍اپریل ۱۹۹۹ء کو آپ ایک جھوٹے مقدمے میں اسیر راہِ مولیٰ بنائے گئے اور ۱۰؍مئی کو رہا ہوئے۔
آپ ۲۲؍اپریل ۲۰۰۳ء کو خلیفۃ المسیح الخامس منتخب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے الہامات، رؤیا، خوابوں اور اشاروں کے ذریعہ آپ کے انتخاب سے متعلق کئی احباب کو بشارتیں دے رکھی تھیں۔مثلاً مکرمہ امۃالحفیظ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جس دن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اور بیماری کے باعث کمزوری آپؒ پر غالب ا ٓگئی تو تمام جماعت ایک عجیب کرب میں مبتلا ہو کر دعاؤں میں لگ گئی۔ مغرب کی نمازمیں جب مَیں حضورؒ کے لیے دعا کررہی تھی تو عجیب کیفیت طاری ہوئی اور اچانک زبان پر یہ الفاظ آگئے کہ ’’آنے والا خلیفہ مرزا شریف کی نسل سے ہو گا۔‘‘ اس کے بعد دل میں انتہائی خوف پیدا ہوا۔بہت دعائیں کیں،استغفار کیا۔ بعد میں جب حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃالمسیح منتخب ہوگئے تو انتہائی خوشی ہوئی۔
اسی طرح مکرمہ نعمت بی بی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب پہلی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صحت یاب ہوئے تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے عاجزہ ربوہ میں بی بی ناصرہ کے گھر میں ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کہتے ہیں کہ میں کمزور اور بوڑھا ہوگیا ہوںاب مجھ سے کام نہیں ہوتا،تو بی بی ناصرہ کہتی ہیں میرا بیٹا مسرور جو ہے یہ مَیں آپ کو دیتی ہوں۔
ایک بار حضور ایدہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا گیا کہ خلیفہ منتخب ہونے پر آپ کے کیا جذبات تھے؟ حضورانور نے فرمایا کہ جب میرے نام کا اعلان ہوا تو میرا تاثر یہ تھا اور مَیں یہ دعا کررہا تھا کہ حاضرین میں سے کوئی میرے لیے نہ کھڑا ہو۔ بلکہ پہلی دفعہ جب گنتی میں کوئی غلطی لگی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو جو ہاتھ کھڑے تھے، مجھے یہی لگ رہا تھا کہ بہت تھوڑے سے ہاتھ ہیں۔تو میں نے کہا شکر ہے چند ایک ہی ہاتھ کھڑے ہیں کوئی اَور نامزد ہو جائے گا۔ چونکہ پہلی دفعہ گنتی میں غلطی ہو گئی تھی اس لیے دوسری دفعہ پھر انہوں نے ہاتھ کھڑے کروائے تو میں نے دیکھا اور کہا کہ ہیں تو کافی لیکن ابھی بھی کافی ہاتھ باقی ہیں جو کسی اَور کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ لیکن جب فائنل اناؤنسمنٹ ہوئی تو مَیں پوری طرح کانپ اٹھا۔
حضورانور کے پاکیزہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایک مخلص احمدی خاتون محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں بے سرو سامانی کی حالت میں چار بچوں کے ہمراہ ربوہ آئی تھی تو بہت مشکل وقت تھا۔ کسی نے بتایا کہ محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے گھر چلی جاؤ تو تمہاری مشکل آسان ہوجائے گی۔ اس پر مَیں وہاں چلی گئی تو حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے مجھے خادمہ رکھ لیا۔ چند روز بعد ان کے صاحبزادے مرزا مسرور احمد صاحب، جو اس وقت طالب علم تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ روزانہ رات دو بجے مجھے جگا دیا کریں۔ چنانچہ یہ ڈیوٹی شروع ہو گئی اور تادیر چلتی رہی۔ لیکن مَیں جب بھی صبح جاتی تو دیکھتی کہ کبھی تو وہ نماز تہجد پڑھ رہے ہوتے اورکبھی نماز سے فارغ ہوکر جائے نماز پر ہی مطالعہ کررہے ہوتے۔
آنحضورﷺ کی ذات اقدس سے حضورانور کی محبت آپ کے ارشادات سے عیاں ہے۔ ایک موقع پر فرمایا: ’’وہ محسن انسانیت، رحمۃ لّلعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا، جس نے اپنی جان کو مخلوق کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے اس درد کا اظہار کیا اوراس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپؐ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کیا تُو ان لوگوں کے لیے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو نہیں پہچانتے، ہلاکت میں ڈال لے گا؟…ہم آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں جس نے ہمیں آنحضرت ﷺ کے عظیم مقام کا ادراک عطا فرمایا۔‘‘
آنحضرت ﷺسے محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ حضورانور نے یوں بیان فرمایا: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپؐ پر درود بھیجتے ہوں گے، بھیج رہے ہوں گے، بھیج رہے ہیں۔ ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزماں کے سلسلہ اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعائیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں۔یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت ﷺ کی ذات سے ہونا چاہیے اور آپؐ کی آل سے ہونا چاہیے۔‘‘
خلافت سے احترام کا تعلق بیان کرتے ہوئے حضورانور نے ایک بار فرمایا: جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی وفات ہوئی تو مَیں پندرہ سال کا تھا۔ اس وقت سے پہلے چھوٹی عمر میں بھی ایک عزت اور احترام ہوتا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ میرے نانا تھے کبھی ہم جرأت نہیں کرتے تھے کہ ان کے سامنے بات کریں یا آرام سے چلے جائیں۔ بڑے احترام سے جانا، احترام سے بیٹھنا۔ خلافت کا احترام بہت تھا۔ اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آگیاجس نے میرے دل میں خلافت کا مزید احترام پیدا کردیا۔ میرے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے سب سے چھوٹے بھائی تھے، وہ ایک دن قصر خلافت مجھے ساتھ لے گئے۔ خود وہ نیچے کھڑے ہوگئے اور مجھے اوپر بھیجا کہ جاؤ اور بتاؤ کہ مَیں ملنے آیا ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اُن دنوں بیمار تھے اور اوپر کمرے میں آرام کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ چھوٹا بھائی ہے تو چل کر گھر میں گھس گئے، پہلے کہا کہ اطلاع کرو جاکر۔ اس وقت حضرت چھوٹی آپا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ڈیوٹی پر تھیں۔میں نے بتایا کہ دادا (ابا جان ہم کہتے تھے) ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بلا لاؤ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لیٹے ہوئے تھے تو وہاں چھوٹی آپا نے ان کے سرہانے کرسی رکھ دی کہ آئیں گے تو بیٹھ کر باتیں کرلیں گے۔ مَیں نیچے گیا اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو اوپر بلا لایا۔ وہ السلام علیکم کرکے بجائے کرسی پر بیٹھنے کے اُن کی چارپائی کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے اور پھر بڑے ادب سے احترام سے باتیں ہوئیں اور پھر وہ کھڑے ہوئے اور سلام کر کے اس طرح احترام سے نکلے ہیں ایک طرف سے ہوکر کہ اس وقت مجھے مزید خیال ہوا کہ یہ ہے خلافت کا احترام جو عملی شکل میرے دادا نے مجھے دکھائی۔ جس جس طرح عمر بڑھتی گئی تو پھر ہمیں احترام کی وجہ سے اَور زیادہ جھجک پیدا ہوتی گئی۔ خوف ڈر نہیں تھا بلکہ جھجک احترام کی وجہ سے ہوتی تھی۔
اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ پیار کا تعلق بیان کرتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَیں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور سب سے چھوٹے بہن بھائی جو ہوتے ہیں ان میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر کوئی جو بڑا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میرا یہ کام کر دو، میرا یہ کام کر دولیکن بہرحال ہم بہن بھائیوں میں تعلق بھی بڑا تھا۔ خاص طور پر میری سب سے بڑی بہن جو ہیں اور میرے سے Immediate بڑے بھائی جو ہیں ان سے میرا خاص تعلق تھا اور باقی بہن بھائیوں کا بھی احترام اور ادب وغیرہ بڑاتھا، کبھی تو تکار نہیں کی ، کبھی بھی سامنے اونچی آواز میں نہیں بولے۔
اپنی Hobbies کے بارے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہمارے والد صاحب کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ ہر ہفتہ میں چھٹی کے دن وہ شکار پر ہمیں ساتھ لے جاتے تھے۔ فاختہ، خرگوش، تیتر اور اس کے علاوہ کبوتر بھی مل جایا کرتے تھے۔ اس لیے بچپن سے ہی اس کا شوق تھا۔ جلسے کے بعد پرالی آیا کرتی تھی تو فاختائیں اور چڑیاں وغیرہ بہت آتی تھیں۔ ایئر گن سے ہم بڑے نشانے لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد خوب بھون کر اس کے تکے بھی بنا کر کھایا کرتے تھے۔
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد عملی زندگی میں جو تبدیلی ہوئی، اس بارے میں حضورانور نے فرمایا: میری زندگی کا معمول بالکل مختلف ہوا کرتا تھا۔ مَیں عملی طور پر ایک ایسا آدمی تھا جس کے لیے دفتر میں مسلسل دو گھنٹے بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ تقریباً ہر دو گھنٹے بعد دفتر سے اٹھ کر راؤنڈ لگاتا اور مختلف دفاتر کو visit کیا کرتا تھا۔ پھر واپس آکر دفتر میں بیٹھتا تھا۔ یہاں تک کہ ناظراعلیٰ کی ذمہ داری ملنے کے بعد بھی میرا یہی دستور رہا، یہ ایک انتظامی عہدہ تھا۔ چنانچہ دفتر میں چھ سات گھنٹے گزارنے کے بعد مَیں اپنے فارم پر چلا جاتا تھا اور کچھ وقت وہاں گزارتا۔ اس دوران وہاں ایسے کام کیا کرتا تھا جس میں ذہنی بوجھ نہ ہو بلکہ اپنے ہاتھ سے مشقّت والا کام ہوتا تھا۔ بہرحال کہا جا سکتا ہے کہ خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد میرے معمولات میں ایک U-turn آگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ مجھ سے کیسے ہو گیا۔ یہ اللہ ہی تھا جو تمام کاموں کا کرنے والا تھا۔پہلی ہی رات میرے اندر ایک مکمل تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔ میں صبح سے شام تک اور پھر رات گئے تک دفتر میں بیٹھ کر کام کرتا رہا۔ مجھے تقریر وغیرہ کرنے کا بالکل تجربہ نہیں تھا مگر خدا نے ان میں میری راہنمائی کی۔
خداتعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے ساتھ قبولیتِ دعا کا اعجاز بھی ہمیشہ ظاہر فرمایا ہے۔ چنانچہ حضورانور کی دعاؤں سے ظہور میں آنے والے معجزات کا اظہار دنیابھر میں بےشمار افراد کرتے ہیں۔ مثلاً مکرم بشارت نوید صاحب مربی سلسلہ ماریشس بیان کرتے ہیں کہ ماریشس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد کے پہلے روز جب آپ نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے لیے اپنی رہائش گاہ سے مسجد جانے کے لیے باہر تشریف لائے اور قافلہ روانگی کے لیے تیار ہو گیا تو ڈیوٹی پر موجود خدام نے الیکٹرانک گیٹ کو ریموٹ کی مدد سے کھولنا چاہا مگر ہر طرح کی کوشش کرنے کے باوجود گیٹ نہ کھلا۔ آخر کار خدام گیٹ کو توڑنے کی کوشش کرنے لگے لیکن اس میں بھی ناکام رہے۔ حضور انور گاڑی سے باہر تشریف لائے اور فرمایا ’’ریموٹ مجھے دیں‘‘ اور جیسے ہی آپ نے ریموٹ کا بٹن دبایا تو گیٹ کھل گیا۔اس موقع پر موجود ایک ہندو پولیس اسکارٹ بےاختیار بول اٹھا کہ معجزوں کے بارے میں سنا تو تھا مگر آج آنکھوں سے پہلی بار دیکھا ہے۔
صدر لجنہ ا ماء اللہ جرمنی بیان کرتی ہیں کہ ایک ریفریشر کورس میں شامل ہونے کے لیے ہمارا گروپ گھروں سے نکلا تو اچانک راستے میں ٹریفک جام ہو گیا۔ تاحدّنظر گاڑیاں کھڑی تھیں اور حرکت کے آثار بھی نظر نہ آ رہے تھے۔ قریباً ایک گھنٹہ گاڑی کھڑی ہو جانے کے سبب سردی بھی لگنے لگی اورخوف لاحق ہوا کہ یہی حالت رہی تو رات بھی یہیں نہ گزارنی پڑ جائے۔ سیکرٹری اشاعت نے کہا کہ مَیں ہر بار سفر پر جانے سے پہلے حضور کو دعائیہ خط ضرور لکھتی ہوں اس بار نہیں لکھ سکی اور یہ مسئلہ پیش آگیا۔ جنرل سیکرٹری صاحبہ نے کہا کہ میں ابھی اپنی اسسٹنٹ کو فون کر دیتی ہوں کہ وہ فوراً دعائیہ خط لکھ کرحضور ایدہ اللہ تعالیٰ کو فیکس کر دیں۔انہوں نے فون ملایا ابھی فون پر بات ہو ہی رہی تھی کہ یکدم گاڑیاں چل پڑیں۔ اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری (جن سے فون پربات ہورہی تھی) اُس نے بعد میں بتایا کہ جب میں نے یہ سنا کہ ٹریفک کھل گئی ہے تواس احساس سے میرے رو نگٹے کھڑے ہوگئے کہ خدا تعا لیٰ کو خلافت کی اتنی غیرت ہے کہ ابھی خلیفۂ وقت کو دعا کی درخواست کا قصد ہی کیا تھاتو خدا نے اپنا فضل کردیا اور ہمارے خوف کی حالت کو اطمینان بخشا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘ (منصب خلافت)
مکرم محمد اشرف ضیاء صاحب مبلغ سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ 2005ء کی بات ہے بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ سے ایک فیملی ہمارے شہرBlagoevgrad آئی۔ یہ میاں بیوی عیسائی تھے۔ خاوند کی والدہ چرچ میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھیں۔دونوں نے آکر بتایا کہ ہماری شادی کو سترہ سال ہو گئے ہیں مگر اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔یورپ کے بڑے بڑے ملکوں سے علاج کروایا ہے لیکن مایوسی ہو رہی ہے۔جماعت احمدیہ کے بارے میں سنا ہے کہ اللہ ان لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ خاکسار نے انہیں خلافت احمدیہ کے بارے میں تفصیل سے بتایا، خلیفہ کا مقام بتایا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ آپ حضور انور کی خدمت میں خط لکھیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ خداتعالیٰ فضلفرمائے گا۔ چنانچہ انہوں نے حضور انور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھا۔ ہم نے بھی حضور انور کی خدمت میں اس فیملی کے لیے خطوط لکھے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار اور شفقت سے انہیں خط لکھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی خواہش پوری فرمائے اور اولاد کی نعمت سے نوازے۔ الحمدللہ وہ چیز جو ناممکن دکھائی دے رہی تھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور ایدہ اللہ کی دعاؤں کے طفیل ممکن ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے سے نوازا۔ انہوں نے ہسپتال سے ہمیں فون کیا کہ آپ آئیں اور اسلامی طریق سے بچے کے کان میں اذان وغیرہ دیں۔ یہ بیٹا خلیفہ وقت کی دعاؤں کے طفیل ہوا ہے، یہ اسلامی بچہ ہے۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ2008ء میں اسٹونیا جانے کی توفیق ملی۔ وہاں ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔مکرمہ میرلا صاحبہ کی والدہ عیسائی تھیں اور پروفیشن کے اعتبار سے ڈاکٹر تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میری والدہ صاحبہ کو کینسر ہے۔ بال جھڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ناقابل علاج ہے۔ روتے ہوئے کہنے لگیں میری والدہ کے لیے دعا کریں۔ ہم نے کہا کہ ہمارے پیارے اما م کی دعائیں اللہ تعالیٰ سنتا ہے۔آپ خود جلسہ سالانہ جرمنی پر تشریف لائیں، حضور انور سے ملاقات بھی کر لیں اور دعا کے لیے بھی عرض کریں اور اس وقت فوری طور پر حضور اقدس کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ دیں۔ جلسہ سالانہ قریب تھا۔ یہ جلسہ پر تشریف لائیں اور حضور انور سے ملاقات میں رونے لگ گئیں۔ حضور انور کے دریافت کرنے پر خاکسار نے عرض کیا کہ ان کی والدہ کو کینسر ہے اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ حضور اقدس نے فرمایا: ڈاکٹرز کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے۔ زندگی موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انشاءاللہ مَیں دعا بھی کروں گا۔ اور ایک ہومیوپیتھک کا نسخہ بھی تجویز فرمایا۔ آپ نے خاکسار سے فرمایا کہ انہیں سچی بوٹی کی گولیاں بھی منگوا کر دیں۔ حضور انور نے محترمہ کو تسلی دی اور اپنے دست مبارک سے نسخہ لکھ کر دیا۔ تین ماہ کے عرصہ کے اندر ہی ان کی والدہ صحت یاب ہو کر ڈیوٹی پر حاضر ہو گئیں۔ الحمدللہ
آؤ لوگو حضرت مسرور کی باتیں کریں
جو ہمیں بخشا گیا اس نور کی باتیں کریں
وہ خلیفہ پانچواں برحق مسیح پاک کا
ہاں مداوا وہ ہمارے دیدۂ نمناک کا
جس کو مولا نے کہا بے شک میں تیرے ساتھ ہوں
میں ہی تیری صبح ہوں اور میں ہی تیری رات ہوں