آئس لینڈ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جنوری 2000ء میں آئس لینڈ کے بارہ میں مکرم پروفیسر طاہر احمد نسیم صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
زمین کے انتہائی شمال میں برف پوش علاقے آئس لینڈ اور گرین لینڈ واقع ہیں جن کا درمیانی فاصلہ بھی قریباً دو سو میل ہے۔ آئس لینڈ کو برف اور آگ کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ برف تو نظر آتی ہے لیکن آگ سے مراد وہ قدرتی لائن ہے جسے Fault کہا جاتا ہے۔ یہ زمین کے اندرونی گرم لاوے کی وجہ سے پڑنے والی وہ دراڑ ہے جو کئی میل گہری اور کئی سو میل لمبی ہے اور بعض جگہوں پر اس کی چوڑائی سینکڑوں فٹ تک ہوسکتی ہے۔ یہاں سطح زمین کا اندرونی گرم لاوے سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں آتش فشاں پہاڑ بھی بن جاتے ہیں۔ چنانچہ آئس لینڈ میں دو سو سے زیادہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ چکے ہیں۔ اور جن علاقوں میں آتش فشانی مادہ نیچے نہیں ہوتا وہاں گرم پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور گرم پانی کے فوارے جاری ہوجاتے ہیں جنہیں گیزر (Geyser) کہا جاتا ہے۔ اس پانی میں گندھک کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ آئس لینڈ کے ایک گیزر کا پانی 195؍فٹ تک اوپر ہوا میں اچھلتا ہے۔ سطح زمین پر اور سمندر میں آتش فشاں پہاڑ پھٹتے رہتے ہیں۔ 1963ء میں سمندر میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے نیا جزیرہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک اور جگہ پر سطح زمین کا ایک آتش فشاں پانچ ہزار سال تک خفیہ حالت میں رہنے کے بعد اچانک پھٹ پڑا۔
انتہائی شمال میں واقع ہونے کے باوجود یہاں کی آب و ہوا زیادہ سرد نہیں ہے۔ ملک کا زیادہ تر حصہ سطح مرتفع یعنی چھوٹی بڑی چٹانوں پر مشتمل ہے لیکن ساحلِ سمندر کے ساتھ والا علاقہ انتہائی زرخیز ہے جہاں لوگ بھیڑیں پالتے اور فصلیں اگاتے ہیں۔ جون میں دن اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ رات کو بھی سورج کی روشنی ختم نہیں ہوتی اور دسمبر میں دن کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ مسلسل اندھیرا ہی رہتا ہے۔
زمین پر پائے جانے والے کُل پانی کا ستانوے فیصد سمندروں میں ہے جبکہ دو فیصد آئس برگ اور گلیشیئرز کی صورت میں ہے۔ صرف ایک فیصد پانی دریاؤں، جھیلوں، ندی نالوں اور زیر زمین ذخائر کی صورت میں ہمارے لئے قابل استعمال ہے۔ آئس لینڈ کا آٹھواں حصہ گلیشیئرز سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان گلیشیئرز کا تھوڑا سا حصہ کبھی کبھار ٹوٹ کر علیحدہ ہوجاتا ہے جو آئس برگ کہلاتا ہے اور سمندر میں تیرتا پھرتا ہے۔ آئس برگ اگرچہ گلیشیئر کا چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے لیکن بڑے سے بڑا جہاز اُن کے مقابل یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ہاتھی کے مقابل پر چوہا ہو۔ بعض کا سائز تو میلوں میں ہوتا ہے اور ایک آئس برگ ایسا بھی پایا گیا تھا جو 200 میل لمبا اور 60 میل چوڑا تھا۔ 1912ء میں دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ’’ٹائی ٹینک‘‘ اپنے پہلے ہی سفر میں کسی آئس برگ سے ٹکراکر دو گھنٹے میں غرق ہوگیا تھا جبکہ اس کے بارہ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کبھی ڈوب نہیں سکتا۔