آتش فشاں پہاڑ
کی وسیع و عریض اور پُرہیبت طاقتوں کے اظہار میں آتش فشاں پہاڑ کی خاص اہمیت ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍فروری 2000ء میں مکرم پروفیسر طاہر احمد نسیم صاحب کے مضمون میں اس حوالہ سے کئی دلچسپ حقائق پیش بیان کئے گئے ہیں۔
آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے کا منظر انتہائی قابل دید ہونے کے ساتھ ساتھ ہیبتناک بھی ہوتا ہے۔ بلند و بالا پہاڑ کے وسیع و عریض دہانے سے خوفناک آوازوں کے ساتھ نکلتے آگ کے طوفانی شعلے، سیاہ دھوئیں کے بادل اور سرخ رنگ کی راکھ کے ساتھ بڑی بڑی چٹانوں کے کئی ٹن بھاری ٹکڑے ادھر ادھر فضا میں اڑتے ہوئے اور گاڑھا ابلتا ہوا لاوا جو پچاس میل فی گھنٹہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہو اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو بھسم کرکے اپنے نیچے دفن کررہا ہو۔
کئی آتش فشاں پہاڑوں کی پھیلائی ہوئی تباہی تاریخ میں محفوظ ہے۔ انڈونیشیا کا ’’کراکاٹوا‘‘ 1883ء میں اس زوردار دھماکہ سے پھٹا تھا کہ اس کی آواز تین ہزار میل دور تک سنی گئی اور اس دھماکے کے نتیجہ میں سمندر میں 130؍ فٹ اونچی ایک لہر پیدا ہوئی جس کی وجہ سے ساحلی جزیروں میں آباد چھتیس ہزار لوگ ڈوب کر مر گئے، لاوے سے مرنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
مارٹینیق کے علاقے کا آتش فشاں 1902ء میں پھٹا تو اس سے سینٹ پیئر کا پورا شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا جس کے نتیجہ میں اڑتیس ہزار لوگ مر گئے۔ سسلی کے آتش فشاں ایٹنا کے پھٹنے کے نتیجہ میں بیس ہزار لوگ ابدی نیند سو گئے۔ انڈونیشیا کا آتش فشاں ٹیمبورا 1815ء میں پھٹا تو اس سے نکلنے والی حرارت اور توانائی ساٹھ لاکھ ایٹم بم کی مشترکہ توانائی سے زیادہ تھی۔ اس سے بارہ ہزار لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ کولمبیا کا 17717؍ فٹ اونچا آتش فشاں 1985ء میں پھٹا تو لاوا کے سیلاب نے آرمیرو شہر مکمل طور پر تباہ کردیا اور پچیس ہزار لوگ ہلاک ہوگئے۔
اٹلی کے آتش فشاں ’’ویسولیس‘‘ کا 1979ء میں پھٹنا غالباً تاریخ کا سب سے بڑا آتش فشانی عمل تھا جس نے تین شہروں پامپیئی، ہرکولینیم اور سٹابہا کو مکمل طور پر نیست و نابود کرکے رکھ دیا۔
ہوائی کا ایک آتش فشاں سمندر کے اندر سطح سمندر سے شروع ہوکر 30 ہزار فٹ کی بلندی تک جاتا ہے اور اس کی بنیاد کی چوڑائی ساٹھ میل ہے۔
1943ء میں میکسیکو میں ایک انوکھا واقعہ ہوا۔ ایک کسان نے اپنے کھیت میں ایک دن پتھریلا سا ابھار دیکھا جو بڑی تیزی سے پھیلنے اور اونچا ہونے لگا اور چھ دن کے اندر اندر اس کی اونچائی پانچ سو فٹ تک جا پہنچی۔ یہ زمین کے اندر آتش فشانی مادہ کے کھولنے اور زبردست دباؤ کے نتیجہ میں سطح زمین پر ابھرنے والا نیا آتش فشاں پہاڑ پیری کوئین تھا۔
بحیرہ روم میں زمانہ قدیم سے ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ چلا آ رہا ہے جو لگاتار کئی کئی مہینوں اور بعض دفعہ سالوں تک لاوا اگلتا رہتا ہے۔
1963ء میں بحر اوقیانوس شمالی میں ایک مقام پر زیرسمندر لاوا پھٹنا شروع ہوا اور کئی بار پھٹنے کے نتیجہ میں لاوا کی تہیں جمنے سے 1967ء میں سطح آب پر ایک میل رقبہ کا جزیرہ پیدا ہوگیا جو آتش فشاں جزیرہ ہے یعنی اس میں سے وقتاً فوقتاً لاوا پھٹتا رہیگا۔
آتش فشاں پہاڑ کیسے بنتا ہے؟ زمین چونکہ کسی زمانہ میں سورج سے علیحدہ ہونے والے ایک ٹکڑے کی طرح سے وجود میں آئی تھی اسلئے یہ بھی پورے کا پورا آگ کا ایک کرّہ تھی لیکن رفتہ رفتہ خلا کی ٹھنڈک سے ٹھنڈا ہوتے ہوتے اس کی سطح تو ٹھنڈی ہوگئی لیکن تقریباً چار ہزار میل موٹائی ہونے کی وجہ سے اندرونی سطح کی حرارت کا بہت سا حصہ ابھی تک اس میں موجود ہے۔ اور اس کے مرکز میں درجہ حرارت پانچ ہزار سنٹی گریڈ ہے جو باہر کی سطح کی طرف کم ہوتے ہوتے تقریباً ایک سو میل کی گہرائی میں گیارہ سو درجہ سنٹی گریڈ رہ جاتا ہے۔ تاہم یہ درجہ حرارت بھی اتنا زیادہ ہے کہ اندرونی پتھر، دھاتیں وغیرہ سب معدنیات پگھلی ہوئی شکل میں ہیں جنہیں میگما (Magma) کہا جاتا ہے۔ میگما ایک سو میل کی گہرائی سے لے کر پندرہ میل کی گہرائی کے اندر بنتا رہتا ہے۔ اس پگھلنے کے عمل میں جو گیس بنتی ہے وہ میگما کو اوپر کی طرح دھکیلتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ میگما کے اندر شامل ہوکر اس میں دباؤ پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔ اردگرد کی ٹھوس چٹانوں کی نسبت ہلکا ہونے کی وجہ سے یہ میگما اوپر کی طرف بلند ہوتا چلا جاتا ہے اور اپنے اردگرد کے علاقہ کی چٹانوں کو بھی اپنی حرارت سے پگھلاتا جاتا ہے یہاں تک کہ زمین کی سطح سے تقریباً دو میل نیچے ایک بہت بڑا علاقہ اس مادے سے بھر جاتا ہے جسے میگما چیمبر (Magma Chamber) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے جمع شدہ لاوا زیادہ دباؤ پیدا ہو جانے کے باعث وقتاً فوقتاً دھماکہ سے باہر نکلتا رہتا ہے۔ گویا زمین کی دو میل کی گہرائی سے ایک نالی اوپر سطح تک آتی ہے جس میں سے لاوا اوپر آتا ہے اور پھر ڈھلوان شکل میں بہنے اور ٹھنڈا ہوکر جم جانے کے نتیجہ میں آتش فشاں پہاڑ بن جاتا ہے۔ اگر بہنے والا یہ لاوا گاڑھا اور چپچپا ہوگا تو پہاڑ کی بناوٹ سخت پتھروں کے اوپر تلے ڈھیر کی صورت میں بنے گی اور اگر یہ لاوا پتلی بہنے والی شکل میں ہوگا تو اس کی شکل بھی تہ دار ہوگی۔
آتش فشاں پہاڑ سے تین قسم کے مادے نکلتے ہیں:- 1۔لاوا 2۔پتھر 3۔گیس
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ پہاڑ کا سارا لاوا نکل جانے کے بعد اس کا میگما چیمبر خالی ہو جاتا ہے اور اپنے اوپر کے پہاڑ کا وزن نہیں سہار سکتا لہٰذا وہ بیٹھ جاتا ہے اور اوپر کا حصہ اس کے اندر گر جانے سے وہاں بہت بڑا گڑھا بن جاتا ہے جسے کالڈرا (Caldra) کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ گڑھا پانی سے بھر جاتا ہے اور بہت بڑی جھیل میں تبدیل ہو جاتا ہے جیسا کہ اوریگان کے علاقہ میں Crater Lake ہے جو چھ میل چوڑی اور انیس سو بتیس فٹ گہری ہے۔
آتش فشاں پہاڑ زمین کے خاص علاقوں میں ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کا اندرونی حصہ مختلف بڑی بڑی پلیٹوں پر مشتمل ہے جو پگھلے ہوئے سیال مادے پر واقع ہیں اور نصف سے چار انچ سالانہ کے حساب سے ادھر ادھر حرکت کرتی ہیں۔ ان کی حرکت آمنے سامنے ٹکراؤ کی شکل میں ہو تو پلیٹوں کے سامنے کا حصہ دب جاتا ہے اور زمین کے نچلے حصہ کی حرارت کے نتیجہ میں پگھل کر میگما کی شکل اختیار کرکے آتش فشاں پہاڑ کی صورت میں زمین کے اوپر ابھر آ تا ہے۔ اگر ان پلیٹوں کی حرکت قریب سے رگڑ کر گزرنے کی ہو تو ان کے درمیان میں دب جانے سے خلا پیدا ہوتا ہے اور وہاں سے میگما یعنی پگھلا ہوا اندرونی مادہ باہر سطح زمین پر ابھر آتا ہے۔ ایسے پہاڑ سمندروں کے اندر بنتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مشاہدہ کے مطابق اکثر و بیشتر آتش فشاں پہاڑ اُن علاقوں میں واقع ہیں جہاں زمین کی ان پلیٹوں کے کنارے ملتے ہیں۔ تاہم کچھ اور جگہوں پر بھی آتش فشاں پہاڑ پائے جاتے ہیں جس کی ایک اور وجہ ہے وہ یہ کہ زمین کی گہرائی سے ایک بہت بڑا میگما کا ستون جسے Plume کہا جاتا ہے دباؤ کے تحت سطح کی طرف ابھرتا ہے جو ایک سو میل قطر کا ہو سکتا ہے۔ یہ پانچ سے دس انچ سالانہ کے حساب سے اوپر کو ابھرتا ہے اور بالآخر زمین سے باہر ابھر کر مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔
آتش فشاں پہاڑ کی چار مختلف حالتیں زمین پر ملتی ہیں:- (1)۔ Active Volcano جو اکثر لاوا اگلتے رہتے ہیں۔ (2)۔ Intermittent جو وقفوں وقفوں سے پھٹتے ہیں لیکن باقاعدگی سے ضرور پھٹتے ہیں۔ (3)۔ Dormant جو لمبا عرصہ سوئے رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی اچانک پھٹ پڑتے ہیں۔ (4)۔ Extinct جو ابتدائی تاریخ کے زمانہ سے پھٹنا بند کرچکے ہیں۔