آسٹریلیا میں احمدیت
آسٹریلیا کے پہلے احمدی اور یہاں کی پہلی احمدیہ مسجد کی تعمیر سے متعلق محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا ایک تاریخی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2006ء کی زینت ہے۔ پہلے احمدی حضرت موسیٰ حسن خانصاحب کے بارہ میں قبل ازیں ایک مضمون ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 25؍جون2004ء کے الفضل ڈائجسٹ کی زینت بھی بن چکا ہے۔
1863ء کے قریب آسٹریلیا کے بعض یورپین سرمایہ داروں کو ملک کو آباد کرنے کے لئے ایشیائی لوگوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ ایلڈرسمتھ اینڈ کمپنی ایڈیلیڈ نے بمبئی گورنمنٹ سے کہا کہ کچھ افغانان جو دنبے چرانے کا کام جانتے ہوں، تین سال کے لئے یہاں بھجوادیئے جائیں۔ اس پر کمشنر سندھ نے کراچی کے معزز افغان رئیس خان بہادر مراد خان کے سپرد ایسے لوگوں کی بھرتی کا کام کیا اور انہوں نے جلد ہی ’ترین‘ قوم کے اکیس افغانوں کو آسٹریلیا بھجوادیا۔ پھر مزید لوگ بھی بھیجے گئے جن میں رئیس مراد خانصاحب کے عزیز اور حاجی موسیٰ خانصاحب کے صاحبزادے حضرت صوفی حسن موسیٰ خانصاحب بھی تھے۔ آپ کان کنوں کیلئے رسد کے قافلوں کے مینیجر تھے اور بعدازاں نیوزایجنٹ، بک سیلر اور سٹیشنر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ کی رہائش پرتھ شہر میں تھی۔ آپ مسلمانوں کی ترقی کے لئے بھی سرگرم عمل رہتے چنانچہ 13؍اگست 1903ء کو پرتھ میں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے کمیٹی تجویز ہوئی تو آپ بھی کمیٹی کے رُکن منتخب ہوئے۔ اور ’’دی محمڈن ماسک‘‘ کے نام سے جو پہلا رجسٹرڈ ادارہ معرض وجود میں آیا اس کے آپ اعزازی سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔ یہ مسجد آسٹریلیا میں مسلمانوں کی پہلی مسجد تھی جو 1905-06ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
حضرت حسن موسیٰ خان صاحب نے ستمبر 1903ء میں آسٹریلیا سے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھا۔ جس کی منظوری کی اطلاع حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے آپ کو مفصل مکتوب کے ذریعہ دی۔
حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحب افغانوں کے قبیلہ ’ترین‘ کے چشم و چراغ تھے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا۔ عرصہ تک یہ قوم ہزارہ کے علاقہ میں حکمران رہی۔
حضرت صوفی صاحب کے دو بھائی اَور تھے۔ یعنی حضرت محمد حسین موسیٰ خان صاحب اور حضرت محمد ابراہیم خان صاحبؓ۔ دونوں ہی حضرت مسیح موعودؑ کے بے مثال فدائی اور شیدائی تھے اور آپ سے پہلے داخل احمدیت ہوئے تھے۔ حضرت محمد ابراہیم خان صاحبؓ نے 20مئی 1931ء کو بمقام خیرپور سندھ انتقال کیا۔
حضرت صوفی حسن موسیٰ خانصاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کے وصال اور انتخاب خلافت کی اطلاع ملی تو آپ نے آسٹریلیا سے 5 جولائی 1908ء کو بیعت کا خط حضرت خلیفہ اولؓ کی خدمت میں لکھا۔ بعد ازاں اپنی تبلیغی رپورٹ کے علاوہ آپ آسٹریلیا کے اخبارات کے تراشے بھی قادیان بھجواتے رہے جو اخبار ’’البدر‘‘ میں شائع ہوتے۔ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی ’’غلبت الروم‘‘ کے ظہور پر آسٹریلیا کے ایک اخبار میں ایک نوٹ بھی شائع کرایا۔ اس زمانہ میں آسٹریلیا میں مقیم نولکھا بازارلاہور کے ایک اور احمدی حضرت ملک محمد بخش صاحب کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے آسٹریلیا سے وصیت لکھ کر بھیجی کہ (ہندوستان اور آسٹریلیا میں موجود) اُن کی تمام جائیداد کا چہارم حصہ برائے اشاعت اسلام صدرانجمن احمدیہ کے سپردکیا جائے۔
حضرت صوفی صاحب جب آسٹریلیا سے واپس خیرپور سندھ آئے تو اگست 1912ء میں قادیان بھی پہنچے اور رمضان کا پورا درس حضرت خلیفہ اولؓ کی زبان مبارک سے سنا۔ آپ 1913ء کے رمضان میں درس سے استفادہ کے لئے بھی حیدرآباد سندھ سے وارد قادیان ہوئے۔
آسٹریلیا سے آنے کے بعد آپ اکثر بیمار رہتے تھے۔ کھانسی اور دمہ کا شدید دورہ ہوتا۔ پہلے آپ اپنے اہل و عیال کو بھی آسٹریلیا سے بلالینا چاہتے تھے لیکن جب حضورؓ سے راہنمائی مانگی تو ارشاد موصول ہوا کہ بہتر ہے کہ خود آسٹریلیا تشریف لے جائیں۔ چنانچہ آپ فروری 1914ء میں تیسری بار آسٹریلیا تشریف لے گئے اور اپنی وفات تک وہیں رہے۔ اس دوران آپ نے پرتھ، ایڈیلیڈ اور بروم میں خصوصاً اور آسٹریلیا کے باقی حصوں میں عموماً تبلیغی دورے کئے، کئی رومن کیتھولک پادریوں سے بھی گفتگو کی۔ آپ کے ذریعہ متعدد افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ سینکڑوں خطوط ہرسال لکھتے اور اپنے خرچ پر ٹریکٹ اور کتابیں تقسیم کرتے۔ اشاعت لٹریچر میں ان کی امداد حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب حیدرآباد دکن فرمایا کرتے تھے۔ فجی کے بعض مسلمانوں کے ساتھ بھی آپ کی خط و کتابت رہی۔ اخبار الفضل اور رسائل ’سن رائز‘ اور ’ریویو آف ریلیجنز‘ قادیان سے اور رسالہ ’دی مسلم سن رائز‘ امریکہ سے باقاعدہ منگواتے رہے۔
1929-30ء میں دو اَور بزرگوں علی بہادر اور شیر محمد صاحبان کی بھی آسٹریلیا میں تبلیغی مساعی کا ذکر ملتا ہے۔ علی بہادر صاحب برسبین میں رہتے تھے اور ان کے ذریعہ احمدی ہونے والے ایک شخص کا نام رشید برڈ رکھا گیا تھا۔ 1931ء میں ڈاکٹر محمد عالم صاحب قندھاری کی دعوتی سرگرمیوں کا بھی اضافہ ہوگیا جوپہلے اڈمیٹر میں بودوباش رکھتے تھے اور پھر برسبین منتقل ہوگئے۔
حضرت صوفی حسن موسیٰ صاحب نے 1939ء میں پرتھ میں انتقال کیا۔ آپ کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک جناب شیر محمد صاحب پرتھ میں اعزازی طور پر تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ پھر جنگ عظیم اور قادیان سے ہجرت کے باعث آسٹریلیا سے رابطہ قائم نہ رہا۔ البتہ 1952ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر وہاں مبلغ بھجوانے کی کوشش کی گئی مگر حکومت سے اجازت نہ مل سکی۔ تاہم بعض احمدیوں نے انفرادی دعوت الی اللہ جاری رکھی۔
خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میںجب ڈاکٹر اعجازالحق صاحب (سابق پرنسپل ڈینٹل کالج لاہور و قائد خدام الاحمدیہ لاہور) آسٹریلیا تشریف لے گئے تو جماعت آسٹریلیا منظم ہوئی۔ حضورؒ کی ہدایت پر آسٹریلیا کا پہلا نمائندہ وفد جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ آیا۔ جماعت احمدیہ آسٹریلیا کا Constitution مرتب ہوا۔ حضورؒ نے سڈنی میں احمدیہ مسجد کی تعمیر کی منظوری بھی 15؍اگست 1981ء کو عطا فرمائی۔
خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت جماعت آسٹریلیا کی کُل تجنید 75 تھی یعنی 27 مرد، 23 مستورات اور 24 بچے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی منظوری سے جماعت نے سڈنی سے تقریباً پچاس میل دُور مسجد و مشن ہاؤس کے لئے ستائیس ایکڑ سے زائد رقبہ قریباً ڈیڑھ لاکھ ڈالر میں خریدا۔ حضورؒ نے 30؍ ستمبر 1983ء کو اس مسجد بیت الہدیٰ کا سنگ بنیاد رکھا۔