آسٹریلیا کے قدیم باشندے
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2006ء میں مکرم خالد سیف اللہ خانصاحب کا آسٹریلیا کے قدیم باشندوں یعنی ایبورجنی (ABORIGINES) کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
یہ لوگ کم از کم چالیس ہزار سال سے یہا ں رہ رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی اپنی کتاب “Revelation, Rationality, Knowledge & Truth” (الہام، عقل، علم اور سچائی) میں ان باشندوں کے مذہب اور خدا کے تصور پر اپنی اور دوسروں کی تحقیق درج فر ما ئی ہے۔ نیز 18؍ نومبر 1994ء کو آپؒ نے ایک سوال و جواب کے پروگرام میں آ دم کی حقیقت، اس کے ارتقائی مرا حل اور آسٹریلیا کے قدیم لوگوں کے سما جی اور مذہبی حالات پر خوب روشنی ڈا لی تھی۔
ایک تحقیق کے مطابق انسان افریقہ میں پیدا ہوا۔ وہاں سے عرب میں آ یا اور وہاں سے 56 ہزار سال قبل بحیرہ ہند کے ساحل کے ساتھ چلتے چلتے انڈونیشیا سے ہوتے ہو ئے آسٹریلیا پہنچا۔ بعد میں (تیس چالیس ہزار سال قبل) انسانوں کا دوسرا گروپ یورپ کی طرف پھیل گیا ۔ مذہب کی تاریخ کے مطابق قریبا ً 6155 قمری سال پہلے وہ آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے جو ہما رے نبی کریمﷺ کے جدامجد تھے۔ اُنہی کو خدا نے عربی زبا ن سکھا ئی، ابتدا ئی شریعت دی اور انہی کیلئے مکہ میں خدا کا پہلا گھر تعمیر ہوا ۔
ایک جدید تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ چودہ ہزار سال قبل امریکہ اور برازیل میں آسٹریلیا کے ایبوریجنی نسل کے لوگ آباد تھے۔ جب آسٹریلیا کے پروفیسر کلیمنٹ ریگ نے 1908ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کی تو حضورؑ سے انسان کی ابتدا کے بارہ میں بھی سوال کیا۔ چونکہ بائبل تو آدم سے انسانیت کا آغاز بتاتی ہے جس کو صرف چھ ہزار سال کا ہی عر صہ گزرا ہے جبکہ سا ئنسی شواہد اس کے خلا ف ہیں کیونکہ انسان اس عرصہ سے بہت پہلے کا زمین پر آباد ہے۔ چنانچہ پروفیسر صاحب نے حضورؑ سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ جو دنیا کے مختلف حصوں امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں، کیا یہ اس آدم کی اولاد میں سے ہیں؟ حضرت مسیح موعودؑ نے فر مایا :
’’ہم اس با ت کے قا ئل نہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا، اس دنیا کا آغا ز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا اور نہ ہی ہم اس با ت کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسل انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہیں یہ اسی آ خری آ دم کی نسل ہے ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسا نی کے قا ئل ہیں جیسا کہ قرآ ن شریف کے الفا ظ سے پتہ لگتا ہے۔ خدا نے یہ فرما یا کہ
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْا َرْضِ خَلیْفَۃً (البقرۃ:31)۔
خلیفہ کہتے ہیں جا نشین کو۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق مو جود تھی۔ پس امریکہ اور آسٹریلیا و غیرہ کے لو گو ں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولا د میں سے ہیں یا کسی دوسرے آ دم کی اولاد میں سے ہیں-‘‘
1989ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ آسٹریلیا کے دورہ پر تشریف لائے تھے تو آسٹریلیا کے قدیم با شندوں کے لیڈر برنم برنم بھی ایک گروپ کے ساتھ حضور کو ملنے آئے تھے۔ وہ ایبورجنیز کی اس نسل کے نما ئندہ تھے جنہیں مسروقہ نسل (STOLEN GENERATION) کہا جاتا ہے۔ وہ ان ہزاروں بچوں میں سے ایک تھے جن کو حکو مت نے ان کے والدین سے زبردستی چھین کر مختلف اداروں اور چرچوں کی کفالت میں دیدیا تھا۔ برنم برنم 1936ء میں پیدا ہوئے تھے ابھی پانچ ماہ کے تھے کہ گوروں نے زبردستی ان کی والدہ کی گود سے انہیں چھین لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں وہاں انسان نہیں بلکہ حیوان سمجھا جا تا تھا۔ رات کے وقت ان کے سامنے بے حیائی کے کا م کئے جاتے تھے ۔ ان بچوں سے ان کی طاقت سے بڑھ کر سخت کام لئے جاتے، بھوکا رکھا جاتا، علاج کی سہولت سے بھی محروم رکھا جاتا۔ چنانچہ بہت تھے جو وقت سے پہلے مرجاتے۔ برنم برنم 1997ء میں وفات پا گئے۔
ہزاروں سال پہلے ایبورجنیز مختلف قبا ئل میں بٹے ہوئے تھے۔ چھ سو سے زائد زبانیں بولی جاتی تھیں۔ نہ ان کا آپس میں کوئی رابطہ تھا نہ کوئی مشترک زبان تھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ سبھی یہ مانتے تھے کہ کائنات کی ایک طاقت ہے جو رؤیا کے ذریعہ ہم سے را بطہ رکھتی ہے ۔
یورپین اقوام نے ان سے ملک چھینا ۔ جہا ں تک ہو سکا ان کو ختم کیا۔ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے رسم و رواج کے پابند تھے۔ جنگلو ں میں جو کچھ ملتا اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاتے۔ بیاہ، شادی اور موت کی رسوما ت بھی ان میں تھیں۔ باوجود نیم برہنہ رہنے کے ان میں عفّت کا ایک معیار تھا۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو چھوتے تو ان کو سزا دی جاتی۔ یہ لوگ نہ تو شراب سے آ شنا تھے نہ نشو ں کے عادی تھے نہ کو ئی جوئے کی لت انہیں تھی لیکن اب ان کا مذہب عیسائیت تھا ۔ چرچ سختی سے نگرانی کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا مذہب ان میں نفوذ کرنے نہ پائے۔ منشیات کے عا دی ہو چکے ہیں کچھ نہ ملے تو پٹرول کو ہی سونگھ کر نشہ کی عا دت پوری کرتے ہیں۔ جو وظیفہ حکومت سے ملتا ہے وہ اکثر جوئے اور نشہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ پھر خرچ پورا کرنے کیلئے ڈاکے ڈا لتے ہیں۔
ایک ایبورجینی جو احمدی ہو گیا، اس کے دوستوں نے اس سے پو چھا کہ تمہیں احمدی ہوکر کیا ملا؟ کہنے لگا میں اب صاف ستھرا رہتا ہو ں کیونکہ نماز پڑھنی ہوتی ہے ۔ باقاعدہ شادی کرکے بیوی بچو ں کے ساتھ رہتا ہوں۔ نہ میں شراب پیتا ہو ں نہ کوئی اور نشہ کرتا ہو ں۔ جوأ بھی نہیں کھیلتا۔ کام کرکے کھاتا ہوں۔ میرے پاس پیسے بچتے ہیں اس لئے میں نے اپنا مکان بھی قسطوں پر خرید لیا ہے ۔ (گویا اس نے احمدی ہونے کا دنیا ہی میں فائدہ اٹھالیا اور آخرت کا فا ئدہ الگ ہے)۔