آنحضرتﷺ کو غیروں کا خراجِ عقیدت
جماعت احمدیہ ناروے کے رسالہ ’’الجہاد‘‘ مارچ 2007ء میں مکرم چودھری شاہد محمود کاہلوں صاحب کے مضمون میں آنحضرتﷺ کو غیروں کی طرف سے پیش کئے جانے والے خراجِ عقیدت کے چند نمونے نقل کئے گئے ہیں۔
٭ ڈاکٹر Gustav Wail لکھتے ہیں کہ ’’محمدؐ نے اپنے لوگوں کے لئے ایک روشن نمونہ قائم کیا۔ آپؐ کے اخلاق پاک اور بے عیب ہیں۔ آپؐ کی سادگی، آپ کی انسانی ہمدردی، آپ کا مصائب میں استقلال، آپ کا طاقت کے وقت فروتنی اختیار کرنا، آپ کی مضبوطی، آپ کی کفایت شعاری، آپ کا درگزر، آپ کی متانت، آپ کا قوت عاجزی کا اظہار کرنا۔ آپ کی حیوانوں کے لئے رحم دلی، آپ کی بچوں سے محبت، آپ کا انصاف اور عدل کے اوپر غیر متزلزل ہوکر قائم ہونا۔ کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی اور مثال ہے جہاں اس قدر اعلیٰ اخلاق ایک ہی شخص کی ذات میں جمع ہوئے ہیں۔‘‘
٭ وزیر خارجہ رومانیہ کونٹسل درجبل جاربیو نے اپنی کتاب ’’محمدؐ‘‘ میں لکھا: ’’عربستان میں جو انقلاب محمدؐ برپا کرنا چاہتے تھے وہ انقلاب فرانس سے کہیں بڑا تھا۔ انقلابِ فرانس فرانسیسیوں کے درمیان مساوات پیدا نہ کر سکا مگر پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کر دی اور ہر قسم کے خاندانی، طبقاتی اور مادی امتیازات کو مٹا دیا‘‘۔
٭ ایس پی سکاٹ اپنی کتاب ’’ہسٹری آف دی مورش ایمپائر ان یورپ‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’اگر مذہب کا مقصد اخلاق کی ترویج، برائی کا خاتمہ، انسانی خوشی اور حوشحالی کی ترقی اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا جلاء ہے اور اگر نیک اعمل کی جزا اسے بڑے دن ملنی ہے جب تمام بنی نوع انسان قیامت کو خد اکے حضور پیش کئے جائیں گے تو پھر یہ تسلیم کرنا کہ محمدؐ بلاشبہ خدا کے رسول تھے ہرگز بے بنیاد اور بے دلیل (دعویٰ) نہیں ہے۔‘‘
٭ مصنف برنارڈ شا نے اسلام کی برتری یوں بیان کی: ’’اگلے سو سال میں اگر کسی مذہب کو انگلستان بلکہ یورپ پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ میں نے ہمیشہ محمدؐ کے مذہب کو اس حیران کن جاذبیت کی وجہ سے انتہائی معزز جانا ہے۔ یہ وہ منفرد مذہب ہے جو میری رائے میں دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر زمانہ کو متاثر کرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ محمدؐ جیسا انسان آج کی دنیا کو مطلق العنان حکمران کے طور پر مل جاتا تو وہ دنیا کے مسائل اس طرح حل کرنے میں ضرور کامیاب ہوتا کہ انسانیت کو مطلوب امن اور خوشحالی کی دولت نصیب ہوتی‘‘۔
٭ شہنشاہ فرانس نپولین بونا پارٹ نے آنحضور ﷺ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا: ’’محمدؐ کی ذات ایک مرکز ثقل تھی جس کی طرف لوگ کھینچے چلے آتے تھے۔ ان کی تعلیمات نے لوگوں کو اپنا مطیع و گرویدہ بنا لیا اور ایک گروہ پیدا ہوگیا جس نے چند ہی سال میں اسلام کا غلغلہ نصف (معلومہ) دنیا میں بلند کردیا۔ اسلام کے ان پیروؤں نے دنیا کو جھوٹے خداؤں سے چھڑالیا۔ انہوں نے بت سرنگوں کردئیے۔ موسیٰ و عیسیٰ کے پیروؤں نے پندرہ سو سال میں کفر کی نشانیاں اتنی منہدم نہ کی تھیں جتنی ان متبعین اسلام نے صرف پندرہ سال میں کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد ﷺ کی ہستی بہت ہی بڑی تھی۔‘‘
٭ بیروت کے مسیحی اخبار ’’الوطن‘‘ نے 1911ء میں عرب عیسائیوں سے پوچھا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے؟ اس کے جواب میں ایک عیسائی عالم (داورمجاعص) نے لکھا: ’’دنیا کا سب سے بڑا انسان وہ ہے جس نے دس برس کے مختصر زمانہ میں ایک نئے مذہب، ایک نئے فلسفہ، ایک نئی شریعت اور ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی۔ جنگ کا قانون بدل دیا، اور ایک نئی قوم پیدا کی اور ایک نئی طویل العرض سلطنت قائم کر دی۔ ان تمام کارناموں کے باوجود امّی اور ناخواندہ تھا۔ وہ کون؟ محمد بن عبد اللہ قریشی عرب اور اسلام کا پیغمبر، اس پیغمبر نے اپنی عظیم تحریک کی ہر ضرورت کو خود ہی پورا کر دیا۔ اور اپنی قوم اور اپنے پیروؤں کے لئے اُس سلطنت کیلئے جس کو اس نے قائم کیا، ترقی اور دوام کے اسباب بھی خود مہیا کر دئے‘‘۔