آنحضرتﷺ کی صاحبزادیاں
حضرت خدیجہ سے آنحضرتﷺ کے تین لڑکے قاسمؓ، طاہرؓ، طیبؓ (بعض روایات میں چوتھے لڑکے عبداللہ بھی) اور چار لڑکیاں زینبؓ، رقیہؓ، امّ کلثومؓ اور فاطمہؓ پیدا ہوئے۔ یعنی ساری اولاد سوائے حضرت ابراہیمؑ کے جو حضرت ماریہ قطبیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے، حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی۔ آنحضورﷺ کے تمام بیٹے بچپن میں فوت ہوگئے۔ لڑکیاں سب بڑی ہوئیں لیکن سوائے حضرت فاطمہؓ کے باقی آپؐ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں۔ آپؐ کی تمام صاحبزادیاں آپؐ پر ایمان لائیں۔ ہفت روزہ ’’سیرروحانی‘‘ 8 تا 14؍اگست 2000ء میں آنحضرتﷺ کی صاحبزادیوں کے تعارف پر مبنی ایک مضمون مکرم راجہ برہان احمد طالع کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ نیز حضرت رقیہؓ کے بارہ میں مکرم مدثر احمد گوندل صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ اکتوبر 2000ء کی زینت ہے۔
حضرت زینبؓ
آپؓ سب سے بڑی صاحبزادی تھیں جو ایک بیٹے قاسمؓ کے بعد پیدا ہوئیں۔ اُس وقت آنحضرتﷺ کی عمر تقریباً تیس برس تھی۔ رواج کے مطابق چھوٹی عمر میں ہی آپؓ کا نکاح اپنے چچازاد بھائی حضرت ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوگیا جو حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ جب آنحضورﷺ نے دعویٰ نبوت کیا تو آپؓ فوراً ایمان لے آئیں۔ کفار نے حضرت زینبؓ کے خاوند سے مطالبہ کیا کہ وہ آپؓ کو طلاق دیدیں لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا اور اگرچہ اُس وقت تک ایمان نہیں لائے لیکن آپؓ سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہے اور آنحضورﷺ نے اُن کے اس عمل کی ہمیشہ تعریف بھی فرمائی۔ لیکن آنحضورﷺ کی دو دوسری صاحبزادیوں حضرت رقیّہؓ اور حضرت امّ کلثومؓ کو ابولہب کے بیٹوں نے طلاق دیدی جن سے اُن کے نکاح ہوچکے تھے لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔
آنحضورﷺ کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد بھی حضرت زینبؓ اپنے خاوند کے پاس مکہ میں رہیں۔ دو سال بعد جب غزوہ بدر ہوا تو ابوالعاص کفار کی طرف سے شریک ہوئے اور ایک انصاری عبداللہ بن حبرؓ نے ان کو گرفتار کیا۔ حضرت زینبؓ نے مکہ سے بطور فدیہ ایک ہار اپنے شوہر کی رہائی کے لئے بھیجا۔ یہ وہی ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے شادی کے وقت آپؓ کو دیا تھا۔ آنحضورﷺ یہ ہار دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور صحابہؓ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا: اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار زینبؓ کو واپس بھیج دو، یہ اُس کی ماں کی نشانی ہے۔ ابوالعاص کا فدیہ صرف یہ ہے کہ مکہ جاکر زینبؓ کو فوراً مدینہ بھیج دے۔
ابوالعاص نے مکہ جاکر حضرت زینبؓ کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ کفار کے تعرض کے خوف سے کنانہ نے ہتھیار ساتھ لے لئے لیکن کچھ دُور جانے کے بعد قریش کے چند آدمیوں نے حملہ کیا۔ حضرت زینبؓ اونٹ پر سوار تھیں اور حاملہ تھیں۔ آپؓ زمین پر گریں اور حمل ساقط ہوگیا۔ کنانہ نے تیر نکالے اور کہا کہ اگر کوئی آگے بڑھا تو اُس کا نشانہ لوں گا۔ اس پر ابوسفیان نے کنانہ کو قریب آکر کہا کہ ہمیں زینبؓ کو روکنے کی ضرورت نہیں مگر محمد (ﷺ) کی دشمنی کی وجہ سے اگر ہمارے سامنے اور دن کے وقت یہ جائیں گی تو اس میں ہماری سبکی ہے۔ چنانچہ کنانہ اُس وقت حضرت زینبؓ کو واپس لے آئے اور چند روز بعد رات کے وقت روانہ ہوئے۔ آنحضورﷺ نے زیدؓ بن حارثؓ کو پہلے ہی روانہ فرمادیا تھا جو حضرت زینبؓ کو لے کر مدینہ پہنچ گئے۔
کچھ عرصہ بعد قریش کا ایک قافلہ شام کی طرف گیا جس میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ آنحضورﷺ کی ہدایت پر حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے اس قافلہ پر حملہ کیا۔ جو لوگ گرفتار ہوئے اُن میں ابوالعاص بھی شامل تھے۔ حضرت زینبؓ نے اس موقع پر ابوالعاص کو پناہ دی اور اُن کا حاصل شدہ مال و اسباب بھی واپس کرنے کی سفارش کی۔ آنحضورﷺ نے یہ سفارش قبول فرمائی۔ ابوالعاص اس سے اتنا متاثر ہوئے کہ پہلے مکہ گئے اور مکہ والوں کا مال واپس کرکے فوراً مدینہ پہنچے اور اسلام لے آئے۔ انہوں نے حضرت زینبؓ کے ساتھ بقیہ زندگی مدینہ میں ہی گزاری اور بہت شریفانہ سلوک کیا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت زینبؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں اور 8ھ کو آپؓ نے وفات پائی۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور خود قبر میں اتر کر آپؓ کو قبر میں اتارا۔
حضرت زینبؓ کے بطن سے ایک لڑکا علی اور ایک لڑکی امامہ پیدا ہوئے۔ علی تو بچپن میں ہی فوت ہوگئے مگر امامہؓ بڑی ہوئیں اور حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے ساتھ ان کی شادی ہوئی مگر نسل نہیں چلی۔
حضرت رقیہؓ
آپؓ کی پیدائش کے وقت آنحضورﷺ کی عمر قریباً 33 سال تھی اور آپؓ حضرت زینبؓ سے تین سال چھوٹی تھیں۔ رواج کے مطابق بچپن میں ہی ابولہب کے بڑے بیٹے عتبہ سے نکاح ہوا۔ آنحضورﷺ کے دعویٰ نبوت کے بعد عتبہ نے آپؓ کو شادی سے قبل ہی طلاق دیدی۔ جب حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعہ اسلام قبول کرلیا توکچھ عرصہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خالہ کی تحریک پر حضرت عثمانؓ کی شادی 5نبوی میں حضرت رقیہؓ سے ہوگئی۔
جب مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت ملی تو پہلے قافلہ میں حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمانؓ بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ بعد آپؓ اہل مکہ کے اسلام قبول کرنے کی افواہ سُن کر واپس مکہ آگئے لیکن پہلے جیسے حالات دیکھ کر دوبارہ لمبے عرصہ کے لئے ہجرت فرمالی۔ اس موقع پر آنحضورؐ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیمؑ اور لوطؑ کے بعد عثمانؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے۔
جب آپؓ کو یہ خبر ملی کہ آنحضورﷺ مدینہ ہجرت فرمانے لگے ہیں تو آپؓ دونوں واپس مکہ آگئے اور کچھ عرصہ بعد مدینہ ہجرت کرگئے۔ بعد میں آنحضورﷺ بھی مدینہ تشریف لے آئے۔ جس وقت مسلمان جنگ بدر کی تیاری کر رہے تھے تو حضرت رقیہؓ چیچک نکل آنے سے بیمار ہوگئیں۔ چنانچہ آنحضورﷺ نے حضرت عثمانؓ کو آپؓ کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں ہی رہنے کا حکم دیا۔ اسی دوران (رمضان المبارک 2ھ میں) آپؓ کی وفات ہوگئی اور جب آنحضورﷺ میدان جنگ سے واپس تشریف لائے تو یہ خبر سن کر بہت مغموم ہوئے اور آپؓ کی قبر پر تشریف لے جاکر دعا کی۔ حضرت عثمانؓ کو جنگ بدر میں حصہ نہ لے سکنے کا بہت افسوس رہا لیکن آنحضورؐ نے آپؓ کو صحابہؓ بدر کے اجروثواب میں شامل ہونے کی خوشخبری سنائی۔
آپؓ کے ایک بیٹے عبداللہ ہوئے جو حبشہ میں قیام کے دوران چھ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
حضرت امّ کلثومؓ
آپؓ امّ کلثوم کے نام سے ہی مشہور ہوئیں۔ کوئی دوسرا نام معروف نہیں۔ آپؓ کی پیدائش کے وقت آنحضورﷺ کی عمر تقریباً 34 سال تھی۔ آپؓ کا نکاح ابولہب کے دوسرے بیٹے عتبہ کے ساتھ ہوا تھا جس نے آنحضورﷺ کے دعویٰ نبوت کے بعد آپؓ کو طلاق دیدی۔شعب ابی طالب کی تکلیفوں کے زمانہ میں بھی آپؓ ساتھ تھیں۔ جب آنحضورؐ نے مدینہ ہجرت فرمالی تو کچھ عرصہ بعد آپؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت ابورافعؓ کو واپس مکہ بھجوایا تاکہ وہاں سے اپنے اہل خانہ اور آنحضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اہل خاندان کو بھی مدینہ لے آئیں۔ چنانچہ یہ سارے لوگ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔ ان ہجرت کرنے والوں میں آنحضورؐ کی دونوں صاحبزادیاں حضرت امّ کلثوم اور حضرت فاطمہؓ بھی شامل تھیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد بھی چند سال تک آپؓ آنحضورﷺ کے ساتھ رہیں۔
حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت عثمانؓ بہت اداس اور غمگین رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ اے عثمانؓ! جو ہونا تھا وہ ہوگیا ، غم کرنے سے کیا حاصل۔ حضرت عثمانؓ نے کہا اے عمر! مَیں اپنی محرومی قسمت پر جتنا غم کروں کم ہے کہ رقیہؓ جیسی بیوی مجھ سے بچھڑ گئی اور اب خاندان رسالت سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ بعد ازاں 3ہجری میں آنحضورﷺ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت جبرائیلؓ کے ذریعہ مجھے حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی امّ کلثومؓ کا نکاح آپؓ کے ساتھ کردوں۔ چنانچہ حضرت امّ کلثومؓ کی شادی حضرت عثمانؓ سے ہوگئی اور اس طرح حضرت عثمانؓ ’’ذوالنورین‘‘ یعنی دو نوروں والے کہلائے۔
حضرت امّ کلثومؓ اس نکاح کے بعد چھ سال تک زندہ رہیں اور شعبان 9ہجری میں وفات پائی۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کے کفن کے لئے اپنی چادر دی اور خود نماز جنازہ پڑھائی۔ آنحضورﷺ اس وقت بہت غمگین تھے اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حضرت امّ کلثومؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔
حضرت فاطمہؓ
آنحضورﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ تھیں۔ آپؓ کے القاب زھرا اور بتول مشہور ہیں۔سن ولادت میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک آغاز اسلام سے پانچ سال قبل اور بعض کے نزدیک سن ایک نبوی میں پیدا ہوئیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ہے کہ ’’حضرت فاطمہؓ جس وقت چلتی تھیں تو آپؓ کی چال ڈھال اپنے والدؐ کے بالکل مشابہ ہوتی تھی‘‘۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’مَیں نے کھڑے ہونے، بیٹھنے، گفتگو کرنے اور لب و لہجہ میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کوئی اَور آنحضورﷺ کے مشابہ نہیں دیکھا‘‘۔
حضرت فاطمہؓ ابھی بچی ہی تھیں جب آپؓ کو اطلاع ملی کہ آنحضرتﷺ پر کفار نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے گند پھینکا ہے۔ آپؓ جلدی سے وہاں پہنچیں اور گند صاف کیا۔
2ہجری میں حضرت علیؓ کی درخواست پر حضرت فاطمہؓ کا اُن سے نکاح ہوا۔ حق مہر چار سو درھم تھا جو حضرت علیؓ نے اپنی زرّہ فروخت کرکے ادا کیا۔ آنحضورﷺ نے بطور جہیز آپؓ کو بان کی چارپائی، ایک بڑی چادر، ایک چمڑے کا تکیہ جس کے اندر کھجور کی چھال ہوتی ہے، ایک چھاگل، دو مٹی کے گھڑے، ایک مشک اور آٹاپیسنے کی چکی دی۔… آپؓ کے لئے علیحدہ مکان کا انتظام کیا گیا۔ رخصتی کے بعد آنحضورﷺ وہاں تشریف لے گئے۔ ایک برتن میں پانی منگوایا۔ دونوں ہاتھ اس میں ڈالے اور حضرت علیؓ کے سینہ اور بازوؤں پر پانی چھڑکا ، پھر حضرت فاطمہؓ کو بلایا اور اُن پر بھی پانی چھڑکا اور فرمایا کہ مَیں نے اپنے خاندان میں سے بہتر شخص سے تمہارا نکاح کیا ہے۔
حضرت فاطمہؓ کو اپنی زندگی میں اپنے تمام پیاروں کی وفات کے صدمات برداشت کرنے پڑے، اپنی والدہ، تینوں بہنیں اور بھائی، اور آنحضرتﷺ کی وفات کا نہایت بھاری صدمہ بھی آپؓ کو برداشت کرنا پڑا۔ اپنی وفات سے ایک روز پہلے آنحضرتﷺ نے آپؓ کو بلایا۔ پھر آپؓ کے کان میں کچھ کہا تو آپؓ رونے لگیں۔ پھر دوبارہ کچھ کہا تو ہنس پڑیں۔ بعد میں حضرت عائشہؓ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ’’پہلی دفعہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مَیں اسی مرض میں انتقال کروں گا، تو مَیں رونے لگی۔ پھر فرمایا کہ میرے خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی، تو مَیں ہنس پڑی۔‘‘
آپؓ کے لئے آنحضرتﷺ کی وفات کا صدمہ نہایت مشکل تھا چنانچہ آنحضورﷺ کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد 3؍رمضان 11ہجری میں آپؓ بھی وفات پاگئیں۔ آپؓ کی عمر تقریباً تیس سال تھی۔حضرت ابوبکرؓنے نماز جنازہ پڑھائی، حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ اور فضل بن عباسؓ نے قبر میں اتارا۔ آپؓ کی اولاد میں تین بیٹے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور حضرت محسنؓ ہوئے۔ صرف محسنؓ نے بچپن میں وفات پائی۔ نیز دو بیٹیاں حضرت امّ کلثومؓ اور حضرت زینبؓ ہوئیں۔ حضرت امّ کلثومؓ کی شادی حضرت عمرؓ سے ہوئی۔