آنحضرتﷺ کے دور مبارک میں افریقہ کے خوش قسمت صحابہؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍مئی 2005ء میں مکرم محمد اشرف کاہلوں صاحب نے اپنے مضمون میں آنحضرتﷺ کے مبارک دَور میں افریقہ کے بعض خوش قسمت اصحاب کا مختصر ذکر کیا ہے۔
عرب میں افریقیوں کی آمد کا پتہ دو ذرائع سے ملتا ہے۔ اول یہ کہ عربوں کے اہل افریقہ بالخصوص شمالی علاقوں کے ساتھ گہرے تجارتی روابط زمانہ قدیم سے چلے آرہے تھے۔ بائبل بھی اس امر پر روشنی ڈالتی ہے۔ اہل حبشہ کے تجارتی کارواں مکہ اکثر آیا کرتے تھے۔ تاریخ میں ہے کہ زمانہ قحط میں اہل حبشہ کا ایک تجارتی قافلہ مکہ آیا تو مقامی بدقماش لوگوں نے اسے لوٹنا شروع کر دیا۔ مکہ کے چند معززین نے مداخلت کر کے قافلہ کو بچایا۔ اس واقعہ کی اطلاع جب نجاشی کو ملی تو اس نے ناراضگی اور غم وغصہ کا اظہار کیا۔ مزید برآں یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اہل حبشہ کے تجارتی قافلوں کا تحفظ نہ کیا گیا تو تجارتی تعلقات منقطع کر دئیے جائیں گے۔ اہل مکہ کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے باقاعدہ سفارتی سطح پر نجاشی سے معذرت کی اور استدعا کی کہ وہ مکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کو سرکاری طور پر بحال رکھے۔ تجارتی قافلوں کی حفاظت کے ضمانت نامہ کے طور پر اہل مکہ نے اپنا ایک آدمی بطور یرغمال دربار نجاشی میں بھیجا۔ نجاشی پر اس کا گہرا مثبت اثر پڑا۔ اور اس نے تجارتی ارتباط کو بحال رکھنے کی اجازت دیدی۔ ان تعلقات کے پیش نظر نجاشی اہل مکہ سے متعارف ہوچکا تھا۔
دوسرا یہ کہ غلاموں کی خرید وفروخت کے نتیجہ میں حبشیوں کی کثیر تعداد عرب بالخصوص مکہ اور مدینہ میں موجود تھی۔ اسلام کا حسن ان حبشیوں میں سرایت کر چکا تھا۔ اور وہ دولت اسلام سے بہرہ ور ہوکر دل وجان سے آنحضورﷺ پر فدا تھے۔
حضرت ام ایمنؓ
آپ آنحضرتﷺ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کی حبشی لونڈی تھیں۔ مقام ابواء پر جب رسول کریمؐ کی والدہ ماجدہ کا وصال ہوا تو آپ ہی حضرت اقدسﷺ کو بحفاظت مکہ لائیں۔ رسول مقبولؐ کی پرورش میں آپؓ کا بڑا ہاتھ رہا۔ قبول اسلام کی سعادت پائی اور حضرت زیدؓ (جو حضورﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے) سے آپ کی شادی ہوئی۔ آپ کے بطن سے حضرت اسامہ بن زیدؓ نامور صحابی رسولؐ پیدا ہوئے۔
حضرت رسول اکرمؐ کو آپ سے بے حد محبت تھی۔ حضرت امّ ایمن ؓ بھی جان نثار صحابیہ تھیں۔
حضرت بلالؓ
آپؓ مکہ میں غلام کی حیثیت سے زندگی کے دن گزارتے تھے۔آنحضورؐ کا خلق عظیم اور اسلام کا حسن وجمال آپ کے سامنے تھا۔ غلام ہوتے ہوئے اسلام کو جرأت مندی سے قبول کیا۔ راہ اسلام میں درپیش آزمائشوں کو پامردی سے سر کیا۔ حضرت ابو بکرؓ نے خرید کر آزاد کر دیا۔ مؤذن رسولؐ ہونے کا شرف پایا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر خاص اعزاز پایا، ’’امان‘‘ کا نشان بنے۔
خادمانہ روح کے ساتھ آنحضرتؐ کی قدم بوسی کرتے رہے۔ جنگ بدر میں آپ کے ہاتھوں امیہ بن خلف قتل ہوا۔ رسول کریمؐ نے اہم مالی ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد کیں۔ آپ حقیقی عاشق رسولؐ ثابت ہوئے اور ’’بلالی روح‘‘ محاورہ بن گیا۔
عبادت میں آپؓ کا شغف اور ذوق اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ ایک دن صبح حضرت رسول کریم ﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا اور پوچھا۔ تمہارا کونسا عمل ہے جس کے سبب میں نے جنت میں تمہاری جوتیوں کی آواز سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کی حضورؐ! میں جب بھی وضو کرتا ہوں دو رکعت نفل ضرور ادا کرتا ہوں۔
حضرت انجشہؓ
انجشہؓ نامی صحابی بھی حبشی النسل تھے جو دوران سفر اہل بیت کی خدمت اور حفاظت پر مامور تھے۔ آپؓ حدی خواں تھے۔ سریلی سحر انگیز آواز تھی۔ حدی خوانی میں کمال حاصل تھا۔ آپ کی آواز پر اونٹوں کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے لب مبارک سے وہ کلمہ نکالا جو آج بھی عربی ادب کا بیش قیمت گوہر آبدار اور مضامین کا سمندر ہے یعنی ’’یا انجشہ رویدک بالقواریر‘‘ انجشہ دیکھنا! آبگینوں کو آہستہ لے چل۔
مدینہ کے حبشی صحابہؓ
مدینہ کے نواح میں حبشیوں کی ایک الگ کالونی تھی۔ جب رسول کریمؐ مکہ سے ہجرت فرما کر ارض مدینہ میں رونق افروز ہوئے تو خیر مقدم اور استقبال کرنے والوں میں اس بستی کے باسی بھی شامل تھے۔ خیرسگالی کے جذبہ سے سرشار ہو کر انہوں نے اپنے خاص فن کا مظاہرہ کیا۔
روایات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مدینہ میں موجود حبشیوں کی بڑی تعداد بلکہ بھاری اکثریت آغوش اسلام میں آچکی تھی۔
ایک عید کے موقعہ پر ان حبشیوں نے اپنے فن کا پُرجوش مظاہرہ کیا۔ حضرت عمرؓ نے روکنا چاہا تو آنحضورؐ نے حضرت عمرؓ کو منع فرمایا۔ اور فرمایا ’’عمر! عید ہے‘‘۔ پھر حبشیوں سے فرمایا’’ جاری رکھو‘‘۔
حضرت عائشہؓ نے بھی ایک مظاہرہ کو آنحضرتﷺ کی رفاقت میں دیکھا تھا۔
دیگر واقعات
٭ وہ مسلمان جو حبشہ ہجرت کر گئے تھے، ان کی مساعی سے ستر حبشی مسلمان ہوئے اور بعد ازاں ہجرت کر کے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ آئے اور مستقل طور پر مدینہ میں آباد ہوگئے۔
نجاشیؓ والی ٔ حبشہ خود بھی مسلمان ہوئے اور ان کا ایک بیٹا بھی مسلمان ہوا جو بعد میں مدینہ منورہ چلا آیا۔ یہ حضرت علیؓ کے گہرے دوست بنے۔ خود حضرت نجاشیؓ نے ایک نہایت قیمتی تحفہ نیزہ مدینہ روانہ کیا۔ حضرت بلالؓ یہ نیزہ تھامے اسلامی تقریبات میں رسول پاکؐ کے پاس کھڑے ہوتے۔
٭ مسجد نبوی کی صفائی روزانہ نہایت خوشدلی اور اخلاص کے ساتھ ایک عورت عہد نبویؐ میں کیا کرتی تھیں۔ یہ بوڑھی خاتون حبشن تھیں۔آنحضرتﷺ کو ان کے اخلاص کی وجہ سے خاص انس تھا۔ آپؐ نے کئی دن جب انہیں نہ دیکھا تو صحابہؓ سے دریافت فرمایا کہ وہ بوڑھی عورت کہاں ہے جو صفائی کیا کرتی تھیں۔ صحابہؓ نے عرض کی یارسول اللہؐ! وہ تو بیمار ہو کر فوت ہوگئی ہیں، آپ کی تکلیف کی خاطر اس بات کا ذکر آپؐ سے نہیں کیا۔ رسول کریمؐ ناراض ہوئے۔ پھر اس متوفیہ کی قبر پر گئے اور دعا کی۔
٭ جنگ خیبر کے موقعہ پر ایک حبشی غلام نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت اس کے پاس ریوڑ بھی تھا۔ حضرت اقدس محمد عربیﷺ کی ہدایت پر اس نے ریوڑ کو اس کے مالک کے گھر کی طرف ہانک دیا۔ یہی حبشی غلام آنحضورؐ کی ہدایت پر سرکاری اونٹوں اور بھیڑوں کا انچارج مقرر ہوا۔ سرکاری چراگاہ پر ایک دفعہ ڈاکو پل پڑے اور آپؓ کو شہید کر دیا۔
٭ ایک حبشی عورت جو مجذومہ تھیں، بارگاہ رسالت میں حاضرہوئیں اور دعا کی درخواست کی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: آپ کی خواہش کے مطابق دعا کروں گا بشرطیکہ آپ صابر بنیں۔ پھر آپ نے اس کی درخواست پر دعا کی۔
٭ ’’وحشی‘‘ نامی ایک شخص مکہ میں غلامانہ زندگی گزار رہا تھا۔ جب جنگ بدر میں مکہ کے جگر گوشے واصل جہنم ہوئے تو اہل مکہ کے سینوں میں انتقام کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ہندہ جو ابو سفیان کی بیوی تھی، اس نے وحشی کو آزاد کرنے کی یہ شرط رکھی کہ وہ جنگ میں حضرت حمزہؓ کو شہید کر دے۔ چنانچہ غزوہ احد میں حضرت حمزہؓ اس کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ فتح مکہ کے بعد وحشی نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرلیا۔ قبول اسلام کے بعد عہد خلافت ابوبکرؓ میں اس کے ہاتھوں مسیلمہ کذاب مارا گیا۔ اس کی زندگی کے یہ دوبڑے عجیب باب ہیں کہ حالت کفر میں اس نے نامور مجاہد اسلام حضرت حمزہؓ کو شہید کیا اور حالت ایمان میں مسیلمہ کذاب کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
حبشی جاں نثاران اسلام تاریخ اسلام کا درخشاں اور تابناک باب ہیں۔ اپنے اخلاص، صدق، وفا اور جذبہ قربانی سے یہ لوگ آنحضرتﷺ کا قرب پاگئے۔ ہر معرکۂ زندگی میں وہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اہل حبشہ کے احسان کو رسول اللہؐ نے یاد رکھا اور فرمایا کہ ’’اہل حبشہ کو امن میں رہنے دو۔ جب تک وہ امن میں رہتے ہیں‘‘۔ چنانچہ یہ ان کے احسان کا بدلہ ہے کہ مسلمان فاتحین نے کبھی بھی حبشہ کو اپنے مفتوحہ علاقوں میں شامل نہ کیا۔