آنحضرتﷺ کے چچا حضرت ابوطالب
آنحضرتﷺ کے چچا اور حضرت علیؓ کے والد حضرت ابوطالب کا نام عبدمناف تھا۔ دیگر روایتوں میں عمران اور شیبہ نام بتائے گئے ہیں۔ آپ کے والد کا نام حضرت عبدالمطلب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا۔ آپ 540ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور 620ء میں وفات پائی۔ آپکے مختصر حالات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2000ء میں مکرم لئیق احمد بلال صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
حضرت ابوطالب نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی فاطمہؓ بنت اسد نے اسلام قبول کرلیا جن سے چار بیٹے اور تین بیٹیاں جبکہ دوسری بیوی سے ایک لڑکا ہوا۔ آنحضرتﷺ کی پرورش اپنے دادا حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد حضرت ابوطالب کے سپرد ہوئی اور آپ نے اس فرض کو ادا کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آپ نے آنحضورؐ سے اس قدر محبت کی کہ مقابل پر اپنے بچوں کی بھی پرواہ نہیں کی۔ ایک بار جب آپ شام کا سفر کرنے والے تھے اور سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے اپنے بھتیجے محمدؐ کو اپنے ہمراہ لے جانا نہ چاہتے تھے لیکن جب آپ چلنے لگے تو بارہ سالہ محمدؐ آپ کے ساتھ لپٹ گئے۔ تب آپ نے حضورؐ کو بھی اپنے ہمراہ لے لیا۔
آنحضرتﷺ کے دعویٰ نبوت کے بعد آپ نے اپنے قبیلے اور سرداری کی محبت کو بھی اپنے بھتیجے کی محبت پر قربان کردیا۔ تین سال تک شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور بھی رہے اور بعض اوقات درختوں کے پتے کھاکر گزارہ کرلیا لیکن حضورؐ سے شفقت میں کمی نہ آئی۔ اس محاصرہ کے ختم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد 10؍نبوی میں ہی آپ نے وفات پائی اور الحجون کے آبائی قبرستان میں دفن کئے گئے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبرایہ ہیں سفہاء ہیں اور ذریت شیطان ہیں …تو ابوطالب نے آنحضرتؐ کو بلاکر کہا کہ اے میرے بھتیجے! تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔… مَیں تجھے خیرخواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ مَیں قوم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آنحضرتﷺ نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو مَیں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں، میری زندگی اس راہ میں وقف ہے۔ مَیں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رُک نہیں سکتا اور اے چچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا، بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں، مَیں احکام الٰہی پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا۔ مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ بخدا اگر مَیں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔ آنحضرتؐ یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت بھری ہوئی رقّت نمایاں ہورہی تھی۔ اور جب آنحضرتؐ یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابوطالب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ مَیں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ تُو اَور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں لگا رہ۔ جب تک مَیں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے، مَیں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘
یہ مضمون بیان کرنے کے بعد سیدنا حضرت مسیح موعودؑ حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:’’یہ سب مضمون ابوطالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی، صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کیلئے اس عاجز کی طرف سے ہے۔ اس الہامی عبارت سے ابوطالب کی ہمدردی اور دلسوزی ظاہر ہے لیکن بکمال یقین یہ بات ثابت ہے کہ یہ ہمدردی پیچھے سے انوار نبوت و آثار استقامت دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔‘‘ (ازالہ اوہام، ص11،12۔ روحانی خزائن جلد 3)
حضرت ابوطالب کے اسلام قبول کرنے کے بارہ میں مؤرخین کی دونوں آراء ہیں۔ بخاری میں بیان ہے کہ جب حضرت ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو آنحضورﷺ آپ کے پاس تشریف لائے۔ اس وقت وہاں پر ابوجہل اور ابولہب بھی موجود تھے۔ حضورؐ نے بے تاب ہوکر آپ سے کہا : چچا! کلمہ پڑھ لیجئے۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیّہ نے کہا کہ کیا تُو اب عبدالمطلب کے دین کو چھوڑتا ہے؟۔ انہوں نے بار بار یہی کہا، یہاں تک کہ آخری بات جو ابوطالب نے کہی وہ یہی تھی ’’عبدالمطلب کے دین پر‘‘۔ اس کے بعد حضورؐ نے فرمایا کہ مَیں اس وقت تک آپ کے لئے مغفرت طلب کرتا چلا جاؤں گا جب تک مجھے منع نہ کردیا جائے۔
ایک دوسری روایت ہے کہ آپ کی وفات کے وقت جب حضورؐ نے کلمہ پڑھنے کو کہا تو آپ نے جواب دیا کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میرے بعد تم پر اور تمہارے آباء و اجداد پر گالیاں پڑیں گی اور یہ کہ قریش سمجھیں گے کہ مَیں نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے تو مَیں پڑھ دیتا۔ مَیں وہ کلمہ تمہاری خوشی کی خاطر پڑھ دیتا ہوں۔ حضرت عباسؓ نے آپ کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو کان لگاکر سنا اور پھر آنحضرتؐ سے کہا: ’’برادر زادے! بخدا میرے بھائی نے وہ کلمہ پڑھ دیا جو تم پڑھانا چاہتے تھے‘‘۔ ابوطالب کے متعلق شیعی مسلک یہی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ایسے لوگوں کے ذکر پر جو غیرمذاہب میں برائے نام ہوتے ہیں مگر خلوصِ دل سے وہ اسلام کے مداح ہوتے ہیں، فرمایا: ’’ابوطالب کی بھی ایسی ہی حالت تھی… بجز اعتقاد کے محبت نہیں ہوا کرتی، اوّل عظمت دل میں بیٹھتی ہے پھر محبت ہوتی ہے‘‘۔