آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے مظہرِ اتم حضرت مسیح موعود ؑ میں مماثلت
حضرت صوفی عبدالرزاق الکاشانیؒ نے فرمایا تھا کہ ’’تمام انبیائے گزشتہ علوم و معارف میں امام موعودؑ کے تابع ہوں گے اس لئے کہ امام موعودؑ کا باطن دراصل محمد مصطفیﷺ کا باطن ہے‘‘۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا تھا: ’’امام موعودؑ آنحضرتﷺ کی حقیقی تصویر ہوگا‘‘۔
شیعہ عالم علامہ باقر مجلسی ؒ نے فرمایا تھا: ’’امام موعودؑ یہ اعلان کرے گا کہ اے لوگو! جو شخص محمد مصطفیﷺ اور امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو دیکھنا چاہتا ہو وہ مجھے دیکھے کیونکہ محمد مصطفیﷺ اور امیرالمومنین میں ہوں‘‘۔
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا مارچ 1997ء مسیح موعودؑ نمبر ہے جس میں محترم ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب نے اپنے مضمون میں واقعات کے حوالے سے آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے عظیم روحانی فرزند و خادم حضرت مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کے درمیان کئی مماثلتوں کا ذکر کیا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں توحید کی غیرت اورتوکل علی اللہ کے کئی واقعات ملتے ہیں مثلاً قریش مکہ کو آپؐ کا یہ جواب کہ خواہ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دو تو بھی میں توحید کی تبلیغ سے باز نہیں آؤں گا۔ اور پھر جنگ احد کے بعد جب آنحضورﷺ شدید زخمی تھے لیکن مشرکین کے ’ھبل کی جے‘ کے نعرہ کے جواب میں خدائے واحد کا نام بلند کرنے کا ارشاد فرمایا۔اور ایک بار جب آپؐ کو تنہا پاکر ایک دشمن نے تلوار سونت کر پوچھا کہ اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا تو آنحضورؐ نے اطمینان سے فرمایا ’’میرا اللہ‘‘۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی بھی کئی ایسے واقعات سے مزین ہے ۔جب دشمن کی بدنیتی کا ذکر ہوا تو آپؑ نے فرمایا ’’وہ خداکے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے‘‘۔ پھر ایک آریہ کے اعتراض کے جواب میں جب حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے تاویل کی کہ حضرت ابراہیمؑ کو جس آگ میں ڈالا گیا تھا وہ حقیقی نہیں تھی بلکہ دشمنی اور شرارت کی آگ تھی تو حضورؑ نے فرمایا ’’اس تاویل کی ضرورت نہیں تھی … ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے، خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہوگی، ہمیں آگ سے مت ڈراؤ، آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے‘‘۔ ایک بار حضرت میرناصر نواب صاحبؓ نے گھبراکر اطلاع دی کہ ایک پولیس افسر حضورؑ کی گرفتاری کے لئے آ رہا ہے تو فرمایا ’’لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی اور سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں۔ ہم سمجھیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے ‘‘ ۔ پھر فرمایا ’’ ایسا نہیں ہوگا، میرا خدا مجھے اس رسوائی سے بچائے گا‘‘۔
آنحضرتﷺ نماز میں کبھی اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں متورم ہو جاتے۔ جنگ بدر اور کئی دیگر مواقع پررات رات بھر آپؐ نے اس طرح دعائیں کیں کہ صحابہؓ بیان کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا چکی چل رہی ہو یا ہنڈیا ابل رہی ہو۔ یہی حال آپؐ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ حضرت میاں فتح دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں نے حضورؑ کو مسجد مبارک میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتے دیکھا، رات بھر اضطراب کے عالم میں ٹہلتے رہے۔ اگلے روز حضورؑ سے اسکی وجہ دریافت کی تو فرمایا ’’ہمیں تو جس وقت اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو مصیبتیں اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور اسلام کا درد ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے‘‘۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ طاعون کے ایام میں حضورؑ آستانہ الٰہی پر یوں گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرار ہو۔
مضمون نگار عشقِ قرآن، سخاوت و مہمان نوازی وغیرہ کے حوالے سے آقاؐ اور خادمؑ کی مماثلت کے متعدد واقعات بیان کرکے لکھتے ہیں کہ جس طرح آنحضورﷺ کو حضرت انس بن مالکؓ بطور خادم خاص عطا ہوئے اورآنحضورؐ کی شفقت کے مورد بنے اسی طرح کا سلوک حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ سے پایا۔ آنحضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدؓ جیسا غلام عطا کیا تو آپؑ کو حضرت عبدالرحمن قادیانیؓ جیسا غلام ملا، دونوں نے ماں باپ کی محبت پر اپنے آقاکے سایہ عاطفت کو ترجیح دی۔ آنحضرتﷺ کو حضرت ابوہریرہؓ نصیب ہوئے تو حضورؑ کو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ عطا کئے گئے۔
وفات کے وقت آنحضرت ﷺ کے لبوں پر یہ الفاظ تھے ’’اللھم بالرفیق الاعلیٰ‘‘ تو آپؐ کے غلام کی زبان پر بھی یہ الفاظ تھے ’’اے خدا، اے میرے پیارے خدا‘‘-