ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم
آئن سٹائن کا نظریہ کہ مادہ کو توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی ایجاد کی بنیاد بنا۔
ایٹم بم میں کسی بڑے عنصر کے ایٹم کو مخصوص طریق پر توڑ کر چھوٹے عناصر کے ایٹموں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور یہ طریق عمل انشقاق کہلاتا ہے۔ دو چھوٹے ایٹموں کو ملا کر بڑے عنصر کا ایٹم بنایا جائے تو یہ عمل اختلاط ہے اور یہ طریق ہائیڈروجن بم کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ ایٹم بم کی تیاری کے لئے کم از کم چار کلو یورانیم چاہیے۔ پلوٹونیم ایک مصنوعی عنصر ہے جسے یورانیم سے بنایا جاتا ہے اور یہ بھی ایٹم بم میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہیروشیما پر یورانیم بم اور ناگاساکی پر پلوٹونیم بم گرایا گیا تھا۔
جس جگہ ایٹم بم کا دھماکہ کیا جائے، وہاں درجہ حرارت دس لاکھ سنٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے اور تابکاری شعائیں بھی خارج ہوتی ہیں۔ ہائیڈروجن بم میں ہائیڈروجن کے دو ایٹموں کو ملا کر ایک اَور عنصر ہیلئم کا ایٹم بنایا جاتا ہے اور اس عمل میں ایٹم بم سے ہزاروں گنا زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے لیکن یہ عمل کرنے کے لئے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو ایٹم بم سے حاصل کی جاتی ہے اس لئے ہائیڈروجن بم کے اندر ایک ایٹم بم بھی رکھنا پڑتا ہے۔
ماہنامہ ’خالد‘ مئی 1996ء میں شائع شدہ محترم محمد نعمان صاحب طاہر کے اس دلچسپ مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکہ 16؍ جولائی 1945ء کو ایٹمی دھماکہ کر کے دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا تھا۔ روس 1949ء میں ایٹمی طاقت بنا اور 1952ء میں ہائیڈروجن بم بنا کر امریکہ سے آگے نکل گیا لیکن صرف ڈھائی ماہ بعد امریکہ بھی روس کے ہم پلہ ہوگیا۔ برطانیہ 1952ء میں،فرانس 60 19ء میں اور چین 1964ء میں ایٹمی طاقت بنے۔ یہ ممالک ہائیڈروجن بم بھی تیار کر چکے ہیں۔ نیز بھارت، جنوبی افریقہ، برازیل اور اسرائیل کے پاس یا تو بم موجود ہیں یا وہ تیار کر سکتے ہیں اور کرہ ارض پر اس وقت اتنا ایٹمی اسلحہ موجود ہے جس سے کرۂ ارض کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔