ایک درویش اور عادل بادشاہ – اورنگ زیب عالمگیر
مسلمان مغل بادشاہوں نے ہندوستان پر قریباً ساڑھے تین سو سال حکومت کی لیکن مغلیہ تاریخ کے وہ بادشاہ جوپکے مسلمان تھے اور نہ صرف خود ممنوعات سے پرہیز کرتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی باز رکھتے تھے، اورنگزیب عالمگیر تھے۔ اُنہوں نے محض مذہب کی خاطر اپنے تخت کو معرض خطر میں ڈال دیا لیکن استقلال سے اس پر قائم رہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جون 1998ء میں اُن کے حالات و خدمات مکرم مرزا محمد اقبال صاحب کے قلم سے انسائیکلوپیڈیا سے منقول ہیں۔
14؍نومبر 1618ء کو شاہجہاں اور ممتاز محل کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا نام اُس کے باپ شاہجہاں نے عالمگیر اور دادا جہانگیر نے اورنگزیب رکھا۔ اورنگزیب کی عمر ابھی دو سال تھی کہ شاہجہاں نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی اور اپنے بیوی بچوں کو ہمراہ لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگانہ میں پھرتا رہا اور آخر کار معافی مانگ لی اور اپنے دونوں بیٹوں اورنگزیب اور داراشکوہ کو جہانگیر کے دربار میں بھیج دیا جنہیں ملکہ نورجہاں کی زیر نگرانی تربیت کیلئے محل میں بھیج دیا گیا۔ 1628ء میں جب شاہجہاں تخت شاہی پر بیٹھا تو اورنگزیب کے لئے پانچ سو روپیہ وظیفہ مقرر ہوا۔
اورنگزیب کو بڑے بڑے علماء کی شاگردی کا موقع بھی ملا۔ چنانچہ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا، فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا، نیز گھوڑ سواری، تیراندازی اور فن سپاہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ خط نسخ میں خطاطی کا فن بچپن سے ہی سیکھا اور قرآن کریم کی ایک کاپی خوبصورت لکھ کر اور سات ہزار روپے کے خرچ سے مزیّن کرکے مدینہ منوّرہ بھیجی۔
1636ء میں اورنگزیب کو دکّن کا صوبیدار مقرر کیا گیا۔ اس دوران اُنہوں نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا اور نئے علاقے فتح کئے۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ گجرات، سندھ اور ملتان کے گورنر مقرر ہوئے اور ان علاقوں میں امن و امان قائم کیا۔ شاہجہان کی آخری بیماری کے وقت ملک میں ابتری پھیل گئی اور داراشکوہ نے عملاً تخت سنبھال لیا۔ چنانچہ اورنگزیب کو اپنے بھائی کو دو بڑی جنگوں میں شکست دے کر تخت حاصل کرنا پڑا۔ اور 1659ء میں وہ بادشاہ بنے۔
اورنگزیب نے اپنے شاندار دورِ حکومت میں نہایت اہم کام کئے۔ نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لئے مالیات، فوجی بھرتی، محصولات، مذہبی وقف و خیرات، خبریں بھیجنے، ڈاک اور لوگوں کی اخلاقی دیکھ بھال کے محکمے قائم کئے، فیکٹریوں اور کارخانوں کا قانون وضع کیا اور انصاف کا نہایت اعلیٰ معیار قائم کیا کہ ہر ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی خود دربار میں حاضر ہوکر درخواست پیش کرسکتا تھا۔ انصاف کے بارے میں مذہبی تفریق ختم کردی اور مساجد کے ساتھ ساتھ مندروں کے لئے بھی جاگیریں وقف کیں۔ سڑکیں بنوائیں اور اُن کے کنارے درخت لگوائے، مدرسے کھلوائے اور علماء و طلبہ کے وظائف مقرر کئے۔ اُن کی سلطنت بہت وسیع تھی وہ آسام اور تبّت بھی مسخر کرچکے تھے۔
عالمگیر نے قریباً اسّی قسم کے محصول یک قلم موقوف کردیئے، ہر قسم کے نذرانوں پر پابندی لگادی۔ مالگزاری کے اصول بنائے اور یہ قاعدہ ختم کردیا کہ عہدیداران سلطنت کی موت کے بعد ان کی جائیداد ضبط کرلی جائے گی۔ نیز تمام اضلاع میں سرکاری وکیل مقرر کئے اور پہلی بار یہ اعلان کروایا کہ اگر کسی کو بادشاہ پر بھی دعویٰ کرنا ہو تو کرے اور اگر حق ثابت ہو جائے تو اپنا مطالبہ وصول کرے۔ انہوں نے بادشاہ پرستی کا رواج (درشن کا طریق) ختم کردیا اور تکلّفات مٹاکر حکم دیا کہ لوگ معمولاً السلام علیکم کہا کریں۔ دربار میں زیور پہننے ، سجدہ کرنے سے منع کردیا۔ گانا بجانا بند کردیا۔ احتساب کا محکمہ قائم کیا۔
عالمگیر نے اپنے ذاتی مصارف کے لئے محض چند گاؤں مخصوص کرکے باقی ساری جاگیر کو بیت المال کے سپرد کردیا۔ انہوں نے بالکل سادہ اور زاہدانہ زندگی بسر کی۔ ایک سیاح نے 1665ء میں لکھا کہ ’’وہ نحیف و زار ہوگیا تھا اور اس لاغری میں اس کی روزہ داری نے اور اضافہ کردیا تھا‘‘۔ اپنی روزی کمانے کے لئے انہوں نے خطاطی بھی کی اور کلاہیں بھی بنائیں۔ سن شمسی کی جگہ سن قمری کا استعمال شروع کروایا۔ مساجد کا انتظام نہایت عمدگی سے کیا۔ کئی سال کی محنت کے بعد علماء سے فقہ کی جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ تیار کروائی۔
عالمگیر نے دشمنوں کے خلاف کامیاب تلوار کشی کی لیکن اپنے ذاتی دشمنوں کو فراخدلی سے معافی دی اور اُن کے ساتھ صلہ رحمی بھی کی۔ وہ نہایت سنجیدہ و متین تھے اور کبھی نامناسب بات مونہہ سے نہیں نکالتے تھے۔
50 سال اور چند مہینے کی عدیم المثال حکومت کرکے اورنگزیب عالمگیر 91 سال کی عمر میں 1707ء میں احمدنگر کے مقام پر انتقال کرگئے اور خلدآباد ضلع اورنگ آباد میں مدفون ہوئے۔