ایک مخلص افغان خاندان — محترمہ عائشہ پٹھانی مرحومہ
محترمہ عائشہ پٹھانی مرحومہ افغانستان کے قصبہ سیدگاہ خوست میں محترم عبدالغفار صاحب افغان کے ہاں پیدا ہوئیں۔ حضرت مولوی عبدالستار خان صاحب المعروف بزرگ صاحب اور محترم محمد مہروز خان صاحب المعروف ملا میرو صاحب آپ کے چچا تھے۔ آپ کی زندگی کی ایمان افروز داستان آپ کی زبانی روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19 و 21؍جون 1999ء میں شامل اشاعت ہے جسے آپ کی بیٹی محترمہ امۃالباسط صاحبہ نے قلمبند کیا ہے۔
محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری پیدائش کے فوراً بعد میری والدہ صاحبہ کی وفات ہوگئی تو پہلے میری دادی نے اور پھر میرے چچا محترم محمد مہروز خانصاحب نے ہی میری پرورش کی۔ میں ابھی کمسن ہی تھی جب میرے والد اور چچا نے ایک روز گھر میں یہ ذکر کیا کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے آج درس قرآن کریم کے بعد فرمایا ہے کہ میں نے مشرق، مغرب، شمال اور جنوب ہر سمت غور و فکر کے بعد حضرت مرزا صاحب کو مہدی موعود مانا ہے اور وہ سچے مامور من اللہ ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کو گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کیلئے مبعوث فرمایا ہے اسلئے میں آپ سب کو دعوت حق پہنچاتا ہوں کہ آپ بھی مامور زمانہ مہدی موعود پر ایمان لے آئیں۔
میرے والد اور چچا حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے مریدان خاص میں سے تھے۔ وہ پانچوں نمازیں اُن کی امامت میں ادا کرتے اور روزانہ عصر کے بعد سے مغرب تک اُن کے درس القرآن و حدیث میں شامل ہوتے۔ کبھی کبھی مجھے بھی ہمراہ لے جاتے اور درس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی خدمت میں بغرض دعا اور دست شفقت پھیرنے کے لئے پیش کردیتے۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نہایت مشفق انسان تھے۔ آپ کا چہرہ نہایت نورانی تھا۔ چونکہ میرے والد اور چچا صاحبان حضرت صاحبزادہ صاحبؓ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے فوراً ہی صدق دل سے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو اپنے پختہ ایمان لانے کے اقرار سے آگاہ کردیا۔
ایک روز حضرت صاحبزادہ صاحب اپنی درسگاہ میں جو قصبہ سیدگاہ سے تھوڑے ہی فاصلہ پر تھی درس قرآن کریم دے رہے تھے۔ دورانِ درس آپؓ نے فرمایا کہ لوگو ! یہی زمانہ حضرت مہدی موعود کے نزول کا ہے، تم کیوں ایمان نہیں لاتے کہ مہدی موعود قادیان میں مبعوث ہوچکے ہیں۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد میرے والد اور بڑے چچا المعروف بزرگ صاحب نے خود تو قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرلی جبکہ دوسرے چچا محترم مہروز خانصاحب کو افغانستان میں ہی رہ کر حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے اہل و عیال کی مدد کرنے کی تاکید کی۔
قریباً 1909ء میں میرے والد محترم جب مجھ سے ملاقات کے لئے قادیان سے سیدگاہ تشریف لے گئے تو میں نے ایک خواب دیکھنے کے بعد اپنے والد کے ہمراہ قادیان جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جبکہ اس سے قبل وہ مجھے لینے کے لئے دو بار قادیان سے آئے تھے لیکن مَیں نے جانے سے انکار کردیا تھا۔ اس دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت نورانی چہرے والے باریش بزرگ مجھے اپنے ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ چنانچہ میں اپنے والد کے ہمراہ قادیان آگئی۔
اُن دنوں چند لوگ مل کر قافلہ کی صورت میں سفر کیا کرتے تھے۔ ہمارا قافلہ کئی روز مسلسل سفر کرکے پھر بنوں پہنچا۔ اس دوران مسلسل پیدل چلنے سے میرے پاؤں زخمی ہوکر اُن میں آبلے پڑ گئے تھے۔ میرے والد مجھے کھانا بھی پیٹ بھر کر نہ کھلاتے تاکہ کہیں پیٹ کی تکلیف نہ ہوجائے اور اس طرح ہم قافلہ سے پیچھے رہ جائیں۔
بنوں میں میرے والد کے ایک دوست اور حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے ایک مرید رہتے تھے۔ میرے والد مجھے اُن کے گھر لے گئے تاکہ رات آرام سے گزر جائے اور اُس دوست کو تبلیغ بھی ہو جائے۔ مغرب کے وقت جب میرے والد مجھے گھر میں چھوڑ کر مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے چلے گئے تو خاتون خانہ نے میرے سامنے کھانا رکھا اور کہا کہ دیکھو تمہارا باپ تمہیں قادیان لے جا رہا ہے جہاں وہ تمہیں مرزائی بنا دے گا۔ اگر تم نے قادیان جاکر مرزائی ہونا ہے تو ہمارا کھانا نہ کھاؤ۔ ہاں اگر تم قادیان جانے سے انکار کردو تو میں اپنے خادم کو تمہارے ساتھ روانہ کرکے تمہیںتمہارے چچا اور چچی کے پاس سیدگاہ بھجوادوںگی۔ یہ سنتے ہی میرا چہرہ غیرت سے سرخ ہوگیا اور میں نے پہلے لقمہ کے لئے بڑھایا ہوا اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور گھر سے باہر دروازہ پر آکر اپنے والد صاحب کا انتظار کرنے لگی۔ جب والد صاحب واپس آئے تو میں نے کہہ دیا کہ میں نہ اس گھر میں رہوں گی نہ یہاں سے کھانا کھاؤںگی۔ جب والد صاحب نے پوری بات سنی تو وہ مجھے لے کر گھر والوں کو کچھ کہے سنے بغیر چل پڑے اور تھوڑے فاصلہ پر واقع ایک جھونپڑی میں رات بسر کی۔ اگلی صبح اپنے سفر پر پیدل روانہ ہوگئے اور کئی روز کی مسافت کے بعد میانوالی پہنچے۔ کشتیوں کے ذریعہ دریا عبور کرکے پھر سفر کرکے بٹالہ پہنچے اور یہاں سے پیدل قادیان آگئے۔
میرے والد مجھے لے کر میرے بڑے بھائی محترم محمد عبداللہ خانصاحب افغان کے گھر لے آئے، جو مجھ سے دس سال بڑے تھے اور پہلے ہی قادیان آچکے تھے۔ ان کی شادی 1909ء میں ایک غیرپٹھان عورت سے ہوئی تھی۔ مجھے بھاوجہ محترمہ اکثر گھر میں اکیلی چھوڑ کر کام پر چلی جاتی تھیں اور بھائی صاحب بھی نواب صاحب کے ہاں کام پر چلے جاتے تھے۔ ایسے میں جب میں گھر میں اکیلی ہوتی تو ہمسایہ گھروں کے بچے میرے زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے پاگل پاگل کہہ کر مجھے تنگ کرتے۔ میں خاموش رہتی اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتی کہ اے خدا میں تیری رضا اور خوشنودی حاصل کرنے اور حق کی تلاش میں آئی ہوں، مجھ پر جو بھی بیت رہی ہے اسے برداشت کرنے اور صبر کرنے کی توفیق عطا فرما۔ دو سال اسی تکلیف دہ ماحول میں گزرے اور اس کا اثر میری صحت پر بہت برا پڑا اور میں بیمار رہنے لگی۔ جس پر حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے فرمایا کہ اگر ان کی شادی کسی پختون سے کردی جائے تو ماحول کی گھٹن کم ہو جائے گی تو اس سے اس کی صحت پر اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس بات کا جب میرے والد صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا، حضور میری بچی ابھی چھوٹی ہے شادی کے قابل نہیں ہے۔ میں چونکہ بہت قد آور اور جسیم تھی اس لئے اپنی عمر سے کافی بڑی لگتی تھی۔تقریباً دو سال گزرنے کے بعد میری شادی حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے مولوی غلام رسول صاحب افغان سے کردی جو 1902ء میں نوجوانی کے عالم میں افغانستان سے ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے۔ آپ احمدیت کے فدائی تھے باوجود یکہ ان کے والد صاحب بار بار واپس آنے کے لئے پیغام بھیج چکے تھے اور ایک بار خود بھی انہیں لینے آئے تھے ، لیکن انہوں نے ہر بار یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اب میں قادیان سے واپس نہیں جاؤں گا۔ لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الاول کے سمجھانے پر آپ اپنے والد صاحب کے ساتھ واپس جانے پر رضامند ہوگئے تاکہ اپنی منگنی کے بارہ میں فیصلہ کرسکیں کیونکہ ان کے والد صاحب نے اپنے گاؤں میں بچپن میں ہی منگنی طے کر رکھی تھی۔ انہوں نے یہ کہہ کر رشتہ ختم کردیا کہ میں ابھی دینی علوم سیکھ رہا ہوں۔
چونکہ میرے خاوند مولوی غلام رسول صاحب افغان حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے قریبی شاگردوں میں سے تھے اور حضورؓ انہیں بیٹوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے میرے والد سے مولوی غلام رسول افغان کے لئے خود رشتہ طلب کیا اور اپنی بہو بناکر اپنے گھر میں لائے اور شادی کے تمام اخراجات خود برداشت کئے۔ کچھ عرصہ بعد میرے خاوند علیحدہ مکان لے کر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ تاہم حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے ہمیشہ مجھ پر دست شفقت رکھا۔ جب میرے ہاں پہلی بیٹی زینب کی ولادت ہوئی تو کمال شفقت کے ساتھ حضرت خلیفۃالمسیح الاول خود گھر تشریف لائے ، بچی کے کان میں اذان دی ، نام تجویز فرمایا اور چالیس دن تک باقاعدہ اپنے گھر سے مرغ کی یخنی بنواکر بھجواتے رہے۔
چند ماہ بعد حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کا وصال ہوگیا اور خلافت ثانیہ کا ظہور عمل میں آیا۔ میری بیٹی زینب کی صحت بہت اچھی تھی۔ میں اکثر حضرت اماں جان کی خدمت میں بیٹی کو ساتھ لے کر حاضر ہوا کرتی تھی۔ حضرت اماں جان نے میری بیٹی زینب کی صحت کو دیکھ کر اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں اپنے پوتے میاں ظفر احمد ابن حضرت میاں شریف احمد صاحب کو تمہارا دودھ پلوانا چاہتی ہوں۔ جس پر میں نے کہا میں اپنے خاوند سے اجازت لے کر بتاؤں گی۔ بھلا عقیدت و احترام کے جذبہ انتہا کی وجہ سے انکار کی مجال کس کو تھی لیکن میرے خاوند نے کہا کہ جس طرح عرب میں رواج تھا کہ عورتیں بچوں کو اپنے گھر میں لے آیا کرتی تھیں۔ تم بھی میاں صاحب کو اپنے گھر لے آؤ۔ یہ سن کر حضرت اماں جان نے فرمایا کہ وہاں بھی آپ کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔ میں یہاں اپنے گھر سے ملحقہ علیحدہ مکان میں انتظام کر دیتی ہوں تاکہ بچے کی والدہ کو بھی تسلّی رہے۔ میرے خاوند نے دودھ پلانے کی اجازت دی۔ اس طرح مجھے خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے ایک نونہال کی رضاعی ماں ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں محترمہ صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ بنت حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی رضاعی ماں ہونے کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا۔
میری پرورش چونکہ ایک جاہل معاشرہ میں ہوئی تھی اس لئے میں علم کی روشنی سے محروم تھی۔ لیکن قرآنی علوم حاصل کرنے کا مجھے بے حد شوق تھا اس لئے ہر وقت یہ دعا کرتی تھی کہ اے خدا مجھے قرآن پاک پڑھنے کی توفیق دے اور اس نور سے میرے سینے کو منور فرما تاکہ میں اس علم کے فیوض و برکات دوسروں تک بھی پہنچاؤں۔ سو جب میری پہلی بیٹی زینب چھ برس کی تھی اسے قرآن حکیم ناظرہ پڑھنے کے لئے استانی زینب صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالرحمان صاحب مصری کے پاس بٹھایا تو ساتھ ہی میں خود بھی شاگرد بن کر بیٹھ گئی۔ میں جلدی جلدی گھر کا کام کاج نپٹا کر باقاعدگی سے قرآن حکیم پڑھنے کے لئے بیٹی کے ہمراہ چلی جاتی۔ چنانچہ میں نے خدا کے فضل سے اپنی بیٹی زینب سے تین ماہ پہلے ہی قرآن کریم ختم کرلیا۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میری والدہ محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ نے قادیان میں بھی اور پھر پاکستان آکر بھی تدریس قرآن کریم کا سلسلہ تسلسل سے جاری رکھا اور وفات کے دن تک کبھی اسے منقطع نہ ہونے دیا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے بلکہ مجھے وصیت بھی کی کہ یہ سلسلہ آپ کی وفات کے بعد بھی ضرور جاری رکھوں۔ ایک وقت میں پچاس تک بچے بھی صبح و شام آپ سے قرآن پڑھنے آتے تھے لیکن آپ نے کبھی کسی بچے سے معاوضہ کا مطالبہ یا لالچ نہیں کیا بلکہ جس قدر زیادہ بچے پڑھنے آتے اتنا ہی آپ روحانی خوشی محسوس کرتیں۔ آپ کے پاس غرباء کے ایسے بچے بھی پڑھنے کیلئے آتے تھے جن کے کپڑے بدبودار اور خستہ حال ہوتے تھے۔ آپ اپنے ہاتھوں سے اُن کے کپڑے دھوتیں تاکہ وہ صاف ستھرے ہوکر قرآن کریم پڑھ سکیں۔ بہت سے بچوں کو نئے کپڑے بھی بنواکر دیئے۔ آپ کے بہت سے احمدی اور غیراحمدی شاگرد اس وقت بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔
آپ اپنی نمازیں اور تہجد پابندی سے ادا کرتیں۔ نہ صرف اپنا چندہ بروقت ادا کرتیں بلکہ اپنے ملنے کے لئے آنے والیوں سے بھی چندہ لیا کرتیں۔ ہالینڈ کی مسجد کے لئے جب تحریک ہوئی تو آپ نے گھر گھر جاکر اپنے احمدی اور غیراحمدی شاگردوں سے رقم اکٹھی کرکے مرکز میں ارسال کی۔ سب ہی آپ کا بہت احترام کرتے۔
آپ صاحب رؤیا و کشوف تھیں۔ ایک دفعہ جب محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (المعروف ایم ایم احمد) کی والدہ محترمہ نے آپ سے یہ کہا کہ میرا بیٹا مقابلہ کے امتحان کی تیاری کر رہا ہے، دعا کرو وہ پاس ہو جائے تو آپ کو دعا کے نتیجہ میں بتادیا گیا کہ محترم مرزا مظفر احمد صاحب مقابلہ کے امتحان میں پاس ہوگئے ہیں۔ چنانچہ آپ اگلی صبح حضرت امّ مظفر کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی خواب بیان کی۔ وہ مسکرائیں اور فرمایا کہ ابھی تو مقابلہ کا امتحان ہی نہیں ہوا۔ آپ نے کہا کہ امتحان چاہے جب بھی ہو، میرے مولا کریم نے مجھے بتادیا ہے کہ آپ کا بیٹا پاس ہے۔
ایک دفعہ قادیان میں حضرت اماں جانؓ کا کچھ زیور چوری ہوگیا تو حضرت امّ طاہرؓ نے آپ سے فرمایا کہ مَیں حضرت اماں جانؓ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں، میرے ملازم بھی حضرت اماں جانؓ کے گھر آتے جاتے ہیں، تم دعا کرو کہ اللہ غیب سے ایسا سامان پیدا کرے کہ چوری کا سراغ مل جائے۔ آپ نے کئی روز تک دعا کی تو خواب دیکھا کہ ایک ملازم لڑکا جو کسی گاؤں سے آیا تھا باغ میں گڑھا کھود کر زیور دفن کر رہا ہے۔ آپ نے یہ خواب حضرت امّ طاہرؓ سے بیان کی۔ انہوں نے اُس لڑکے کو بلاکر پیار سے سمجھایا تو وہ اپنی غلطی مان گیا اور اس طرح زیور مل گیا۔
محترمہ صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ اپنے بچپن کا یہ واقعہ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کی ایک رات جب ہم بچے صحن میں سوئے ہوئے تھے اور حضرت امّ طاہر اور محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ وہیں عبادت میں مشغول تھیں تو مَیں نے دیکھا کہ چندھیا دینے والی روشنی سے ہمارا صحن منور ہوگیا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ لیلۃالقدر کی روشنی ہے۔ مَیں نے لیٹے لیٹے شور مچادیا کہ میرے لئے دعا کریں۔ بعد میں عائشہ پٹھانی نے بتایا کہ یہ روشنی اُن کو بھی نظر آئی تھی اور وہ اُس وقت میاں طاہر احمد صاحب کے لئے دعا کر رہی تھیں۔ حضرت امّ طاہرؓ کہتی تھیں کہ مَیں بھی یہ روشنی دیکھ رہی تھی جو چند سیکنڈ تک رہی، رشید کے بولنے نے مجھے سب کچھ بھلا دیا اور مَیں نے اس کیلئے دعا کرنی شروع کردی۔
محترمہ عائشہ پٹھانی صاحبہ کی وفات 3؍اپریل 1981ء کو ننکانہ صاحب میں ہوئی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا جہاں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔ آپ کو پانچویں حصہ کی وصیت کرنے کی توفیق عطا ہوئی تھی۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ
مضمون نگار اپنے والد حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ افغان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کا پہرہ دینے کی سعادت عطا ہوئی اور حضورؑ کے وصال کے بعد مزار مبارک پر بھی آپؓ کو بغرض حفاظت مامور کیا گیا۔
آپؓ 1902ء میں قادیان آئے تھے۔ پھر حضور علیہ السلام کی ذاتی اور لنگر خانہ میں ایندھن اور سودا سلف لانے کی خدمت بلامعاوضہ بجالاتے رہے۔ مہمانوں کے دیگر کام کرنے کے علاوہ اُن کے کپڑے بھی دھو دیا کرتے تھے۔ ہر وقت دینی تعلیم کے حصول کے لئے کوشاں رہتے۔ شادی کے بعد آپؓ نے شیرفروشی کی دوکان کھول لی۔ آپؓ کو اتنی مہارت تھی کہ دودھ میں انگلی ڈال کر بتا دیتے کہ دودھ خالص ہے یا نہیں۔ آپؓ خالص دودھ مہیا کرنے میں مشہور تھے۔ قیام پاکستان کے بعد آپؓ ننکانہ صاحب آگئے اور یہاں بھی یہی کاروبار جاری رکھا۔ جب احمدیت کی مخالفت شروع ہوئی تو آپؓ گاہکوں سے بلند آواز میں کہتے کہ مَیں بھی مرزائی ہوں اور میرا دودھ بھی مرزائی ہے، سوچ سمجھ کر خریدو۔ چونکہ خالص دودھ پورے شہر میں صرف آپؓ کے ہاں ہی ملتا تھا اس لئے باوجود مخالفت کے لوگ آپؓ سے ہی دودھ لیتے تھے۔ جب ربوہ آباد ہوا تو آپؓ ربوہ منتقل ہوگئے اور یہیں دوکان بنالی۔
حضرت مولوی صاحبؓ کا انتقال 10؍مئی 1959ء کو ہوا اور آپؓ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں قطعہ صحابہؓ میں عمل میں آئی۔ آپؓ نے ساتویں حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی۔