ا بن رُشد
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 و 23؍اکتوبر 2004ء میں مکرم محمد زکریا ورک صاحب کے قلم سے قرطبہ کے جلیل القدر قاضی ابن رشدؒ کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
ابن رشد قرطبہ میں 1126ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد احمد رشد اور دادا محترم محمد رشد دونوں قرطبہ میں قاضی شہر رہ چکے تھے۔ دادا تو قرطبہ کی جامع مسجد کے امام الصلوٰۃ بھی تھے اور ایک کتاب المقدمات کے مصنف بھی۔ بچپن میں ابن رشد نے عربی زبان، شاعری، قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حدیث کی کتاب موطاامام مالک اپنے والد سے پڑھی اور پھر اس کو حفظ بھی کرلیا۔ پھر مختلف اساتذہ سے فقہ، اخلاقیات، ادب، فلسفہ اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ ساتھ ساتھ علم کلام اور علوم ادبیہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کو متنبی اور ابو تمام کے صدہا اشعارازبر تھے۔
قرطبہ اس وقت یورپ بلکہ تمام دنیا کا علمی مرکز تھا۔ یہاں کے خلیفہ الحکم دوم کی لائبریری میں چار لاکھ کتابیں تھیں جس کی کیٹالاگ چالیس جلدوں پر مشتمل تھی۔ الحکم اسلامی اندلس کے تمام حکمرانوں میں سے سب سے عظیم دانشور حکمران تھا۔ قرطبہ یونیورسٹی جو جامع مسجد کے اندر واقع تھی اس کے کئی شعبے تھے جیسے دینیات، فقہ، اسٹرانومی ، ریاضی اور میڈیسن۔ جو شخص یہاں سے تعلیم حاصل کرکے ڈگری لے لیتا اسے ترقی کے مواقع گارنٹی ہو جاتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ آج سے ایک ہزار سال قبل برطانیہ، فرانس، آسٹریا اور ناروے کے ممالک کا ایک بادشاہ ہوتا تھا جس کا نام جارج تھا اس نے اندلس کے خلیفہ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنی رعایا میں سے طلباء کو سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اندلس بھجوائے۔ خط کے آخر پر اس نے یوں دستخط کئے ’’آپ کا مخلص خادم جارج‘‘۔
قرطبہ کی یونیورسٹی میں ابن رشد نے فقہ اور طب میں تعلیم حاصل کی ۔ پھر طبابت کا کام پہلے قرطبہ اور پھر مراکش شہر میں شروع کیا۔ فلاسفی کی کتابیں اپنے طور پر پڑھتے رہے اور کچھ ہی عرصہ میں طب اور فقہ (لاء) میں سند تسلیم کئے جانے لگے ۔ قرطبہ اور مراکش دونوں شہر اس وقت سیاسی خلفشار میں مبتلا تھے ۔ آپ 22 سال کے ہوئے تو قرطبہ کی بجائے اشبیلیہ (Seville) دارالخلافہ بن گیا۔ سلطان ابو یعقوب یوسف (1163-1184ء) نے جب ابن رشد کو اشبیلیہ کا قاضی 1169ء میں مقرر کیا تو آپ کو روزگار کا تحفظ مل گیا اور آپ تصنیف و تالیف کے کام میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔ 1171ء میں 47 سال کی عمر میں آپ قرطبہ کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے۔ قرطبہ جیسے علمی اور ثقافتی شہر میں جاکر آپ خوش ہوئے نیز آپ کا خزینہ کتب بھی اس شہر میں تھا۔ 1182ء میں آپ کو شاہی طبیب مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد سلطان المنصور (1148-1199ء) حکمران بنا۔ اس نے ابن رشد کو دربار میں بہت عزت دی لیکن دونوں کا باہمی احترام کا تعلق 1195ء میں اس وقت یکلخت ختم ہوگیا جب سلطان نے فلسفہ ، منطق اور حکمت کی کتابوں کو سپین اور مراکش میں نذرآتش کرنے کا فرمان جاری کیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ابن رشد نے کتاب ’’الحیوان‘‘ کی شرح میں جملہ جانوروں کا ذکر کیا تو زرافہ کے متعلق لکھا کہ میں نے اس جانور کو شاہ بربر کے شاہی باغ میں دیکھا تھا ۔ امیرالمومنین کی بجائے سلطان کو شاہ بربر کا خطاب ناگوار گزرا۔ ابن رشد نے صفائی پیش کی کہ پڑھنے والے نے اس لفظ کو غلط پڑھا ہے میں نے ملک البرین کا لفظ لکھا ہے یعنی دو ملکوں سپین اور مراکش کا بادشاہ ۔ یہ تو ضیح قابل قبول سمجھی گئی۔ مگر آپ کے دشمنوں نے آپ پر الحاد اور بے دینی کا الزام بھی لگادیا۔ چنانچہ قرطبہ کی جامع مسجد میں ایک عام اجتما ع ہوا جس میں علماء اور فقہاء نے اعلان کیا کہ یہ فلاسفر لوگ ملحد اور بے دین ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ابن رشد کو قرطبہ سے کچھ دور لوسینا کی بستی میں نظر بند کردیا گیا۔ جلاوطنی کے دوران ایک دفعہ ابن رشد اور آپ کا بیٹا قرطبہ کی مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے گئے تو بعض بازاریوں نے شوروغل کرکے دونوں کو مسجد سے نکال دیا۔ کئی شعراء نے طنز آمیز شعر بھی آپ پر لکھے۔
ابن رشد دو سال تک زیرعتاب رہے۔ 1197ء میں آپ کو یکلخت بحال کرکے اندلس کے صوبہ کا گورنر مقرر کردیا گیا ۔ فی الواقعہ ابن رشد کے معطل کئے جانے کی وجہ سیاسی تھی۔ سلطان نے کیس ٹیلین قوم کے بادشاہ الفانسو کے خلاف جنگ کا محاذ کھولا تھا اور اسے علماء کی سیاسی مدد کی ضرورت تھی اس لیے علماء کو خوش کرنے کے لئے یہ فتنہ برپا کیا گیا تھا۔ لیکن عمررسیدہ ابن رشد پراس فتنہ کا منفی اثر پڑا اور 10 دسمبر 1198ء کو آپ انتقال کرگئے۔ آپ کو مراکش کے باب تاغزوت کے قبرستان میں دفنایا گیا پھر تین ماہ بعد قرطبہ کے مقبرہ عباس میں آپکے آباؤاجداد کے گنبد میں دوبارہ تدفین ہوئی۔ آپ کا ایک بیٹا عبداﷲ ابن رشد شاہی طبیب تھا۔ اس نے کتاب حیلۃالبرء تصنیف کی تھی ۔ دوسرا بیٹا احمد ابن رشد پیشہ کے لحاظ سے قاضی تھا اور ذی مرتبت فقیہ، نہایت ذہین اور فیاض انسان تھا۔
ابن رشد ایک عالم باعمل، نہایت باحیا، کم سخن اور پاکباز انسان تھے۔ بہت فراخدل اور منکسرالمزاج تھے۔ شاہی دربار سے تعلق ہونے کے باوجود کوئی مال و دولت جمع نہ کیا۔ مطالعہ کے اس قدر رسیا تھے کہ فرمایا: ’’زندگی میں مَیں صرف دو دن مطالعہ نہ کر سکا جس دن میری شادی ہوئی اور جس روز والد کی وفات ہوئی‘‘۔ اپنے دشمنوں سے بھی عدل کا سلوک کرتے۔ ان کا مقولہ تھا: ’’اگر میں صرف دوستوں کو دوں تو میں نے وہ کام کیا جس کو میرا دل چاہتا تھا۔ سخاوت یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے جس کو طبیعت مشکل سے گوارا کرتی ہے ‘‘۔ بہت بردبار تھے۔ ایک بار ایک شخص نے مجمع عام میں آپ کو برا بھلا کہا تو آپ نے اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس کی بدولت آپ کو حلم وعفو کے آزمانے کا موقع ملا۔ اس کے صلے میں اس کو کچھ رقم بھی دی لیکن نصیحت بھی کی کہ کسی اَور سے یہ سلوک نہ کرنا کیونکہ ہرکوئی اس کے احسان کا قدردان نہ ہوگا۔
کئی سال تک قاضی رہے لیکن فطری طور پر رحمدل ہونے کی بناء پر کسی کو سزائے موت نہ دی ۔ جب کبھی ایسا موقعہ آیا تو مقدمہ کسی اَور قاضی کے سپرد کردیا۔ خدا کی ذات پر مکمل یقین تھا۔ آپکا مقولہ ہے: “He who studies anatomy increases his belief in God.”
تصنیفات: اسلامی لٹریچر میں ابن سینا کو الشیخ الرئیس، الکندی کو الفیلسوف، الغزالی کو الامام اور ابن رشد کو قاضی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سلطان المنصور کے شاہی فرمان پر ابن رشد کی بہت سی کتب نذرآتش کی گئیں۔ تاہم ابن ابی اصیبعہ نے آپ کی پچاس کتابوں کے نام گنوائے ہیں جن میں ایک کثیر حصہ ارسطواور جالینوس کی کتب کی تشریح ہیں۔ اس فہرست میں فلسفہ، طب اور فقہ پر بھی کتب ہیں۔
ابن رشد فضل و کمال کے انسان کے تھے لیکن مشرق میں گمنام رہے کیونکہ فلسفہ کے ردّ میں امام غزالی کی کتاب کا مشرقی دانشوروں پر بہت اثر تھا جس کی وجہ سے فلسفہ و منطق کے علوم کی تحصیل کو لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ تاہم ابن رشد نے یورپ میں بہت شہرت حاصل کی اور آپکو شارح اعظم اور ارسطوئے ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ارسطو کی 38 کتابوں کی شرح اور تلخیص ہے۔
آپ عربی کے علاوہ کوئی اور زبان نہ جانتے تھے لیکن آپ کے بارہ میں دنیا کی ہر اہم زبان میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یورپ کی کئی زبانوں میں آپ کی کتب کے تراجم کئے گئے۔ 1480 ء تا 1580 ء کے عرصہ میں آپ کی کتابوں کے ایک سو تراجم ہوئے ۔ آپ کی کتابیں عربی اور لاطینی میں سپین کی اسکوریال لائبریری میں موجود ہیں۔ ایک کتاب میں (عربی نسخہ 879) میں آپ کی طب ، فلسفہ ، فقہ، کلام میں 80 کتابوں کی فہرست دی گئی ہے جن کے کل صفحات بیس ہزار بنتے ہیں۔ Renan نے 1852 ء میں آپ کی کل کتب 67 بیان کی ہیں جن میں 28 فلاسفی پر، 5 دینیات پر، 4 علم ہیئت پر، 2 گرائمر ، 8فقہ پر اور 20طب پر ہیں۔ طبّی کتب میں آپ نے یہ اہم انکشاف کیا کہ جس شخص کو چیچک ایک بار ہوجائے وہ اس کو دوبارہ لاحق نہیں ہوتی ۔ ایک کتاب میں سائیکالوجی پر اظہار خیال کیا ۔ علم مناظر میں آپ کا عظیم کارنامہ آنکھ کے Retinaکا فنکشن بتلانا ہے ۔
بحیثیت ہیئت دان آپ نے سب سے پہلے سورج میں دھبوں کا پتہ چلایا۔ آپ علم ہیئت میں مختلف تھیوریز کی تاریخ سے مکمل طور پر باخبر تھے چنانچہ ارسطو کی کتاب میٹافزکس کی شرح میں ثابت ابن قرۃ کے نظریہ الاقبال والادبار (Trepidation & Recessions) کی خود توضیح پیش کی ۔ نیز اجرام فلکی کے مشاہدہ کی اہمیت بیان کی۔ بحیثیت فلسفی آپ نے فلاسفی کے اچھا ہونے کے دلائل شریعت سے وضع کئے اور کہا کہ قرآن پاک میں فطرت کے مطالعہ پر زور دیا گیا ہے اور فطرت کے مطالعہ کے لئے منطق اور دوسرے سائنسی علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے خاص طور پر یونانی علوم کا۔ آپ کے چند اقوال یہ ہیں:
٭ کائنات ازل سے ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا ازل سے ہے۔
٭ عقل کے ذریعہ انسان حواس خمسہ کے بغیر حقائق اور صداقتوں کا شعور حاصل کرتا ہے۔
٭ خدا کا علم انسانی علم جیسا نہیں بلکہ علم کی اعلیٰ و ارفع قسم ہے جس کے بارہ میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ خدا کا علم اشیاء سے اخذ نہیں ہوتا۔
٭ ہمیشہ فلاسفی یعنی عقلیت اور مذہب اسلام میں مطابقت تلاش کرو۔ سائنسی علوم سے حاصل شدہ نتائج اور کتاب الٰہی دونوں صداقتیں ہیں اور ان میں مطابقت ہونی چاہئے۔