بابا مستری محمد اسمٰعیل صاحب (سر پیڑ)
ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان 8جون2004ء میں مکرم حکیم بدرالدین عامل صاحب کے قلم سے بعض درویشانِ قادیان کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔
پہلے محترم بابا جی کے بیٹے مستری محمد احمد صاحب 16 نومبر1947 ء کو قادیان میں درویشوں میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں پروگرام تھا کہ ہر دو ماہ بعد افراد بدل جایا کریں گے مگر بعد میں دونوں حکومتوں کے درمیان بعض قانونی الجھنوں کے باعث یہ ممکن نہ ہوا اور قادیان میں موجود افراد میں سے اکثریت کو تاحیات قادیان میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
جن افراد کے متبادل پاکستان سے آگئے ان کی تعداد 6 تھی اور ہندوستان کی جماعتوں سے متبادل تعداد میسر آجانے کے باعث قریباً 138 افراد کو واپس بھجوا دینا پڑا۔ مستری محمد احمد صاحب بھی واپس جانے والوں کی فہرست میں تھے۔ 5 مارچ 1948 ء کو آپ کے والد بابا مستری محمد اسمٰعیل صاحب آپ کے متبادل کے طور پر قادیان پہنچ گئے اس لئے اسی کنوائے میں انہیں پاکستان بھجوا دیا گیا۔
بابا جی ایک ماہر حداد (لوہار) تھے اور گرم کام کرتے کرتے انہیں دوران سرکا عارضہ لاحق ہوگیا ہواتھا۔ اس عمر کے جو بزرگ قادیان آئے تھے ان کے سپرد کوئی معین ڈیوٹی نہیں تھی۔ انہیں سلسلہ کے لئے دعائیں کرتے رہنے کے لئے فارغ چھوڑ دیا گیا تھا۔ اپنی مرضی سے بعض بزرگ اپنے لئے کوئی کام پسند کر لیتے تھے اور وہ کرتے رہتے تھے۔ بابا مستری محمد اسمٰعیل صاحب نے خود اپنے لئے بہشتی مقبرہ میں قبور کی صفائی کا کام پسند کیا تھا۔ اور بڑی باقاعدگی سے اس کام میں لگے رہتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے بہشتی مقبرہ میں ہی پہرہ داران والے کمرہ میں رہائش رکھ لی تھی۔
آپ کی وفات 8دسمبر 1970 کو ہوئی۔ تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔