بانی پاکستان اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان
ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کے ایک شمارہ میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب نے اپنے مضمون میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔
حضرت چوہدری ظفر اللہ خانصاحبؓ کا قائد اعظم محمدعلی جناح سے تعلق قیام پاکستان سے بیس سال قبل شروع ہوا جب آپؓ نے پنجاب کونسل کے منتخب ممبر کی حیثیت سے مسلمانانِ پنجاب کی بے لوث اور شاندار خدمات سرانجام دیں۔ پھر آپؓ انگلستان تشریف لے گئے اور وہاں مسلما نان ہند کے حقوق کو مدلل طور پر ممبرانِ پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کے سامنے پیش کیا۔ قائد اعظم آپؓ کی اس مساعی سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ پھر آپؓ مسلم لیگ کے صدر بنے اور مسلم لیگ کو مسلمانوں کی جماعت بنانے اور دونوں دھڑوں (جناح لیگ اور شفیع لیگ) کو پھر سے یکجا کرنے میں کوشاں رہے۔ اس سلسلہ میں آپؓ کی کارکردگی سے قائداعظم پوری طرح واقف تھے۔ پھر گول میز کانفرنسز کے دوران دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ بھی ملا۔ نیز چوہدری صاحبؓ جب وائسرائے کونسل میں قانون، تجارت، فنانس اور ریلوے کے وزیر تھے تو قائد اعظم بھی مرکزی اسمبلی کے نمایاں ممبر تھے۔ اور اس دوران دونوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چوہدری صاحبؓ اسمبلی میں جس طرح ممبران کے سوالات کے جوابات دیتے تھے، اس سے قائد اعظم آپؓ کی کارکردگی، معاملہ فہمی اور ذہانت سے پوری طرح آگاہ ہوچکے تھے۔
ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان تجارتی معاہدہ کے سلسلہ میں ایک وفد چوہدری صاحبؓ کی سربراہی میں انگلستان گیا تو نوابزادہ لیاقت علی خان بھی اس وفد کے ممبر تھے۔ اس معاہدہ کو بعد میں ’’اٹاوہ پیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں اس معاہدہ پر بحث کرتے ہوئے قائد اعظم نے چوہدری صاحبؓ کی مساعی کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’ میں اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے آنریبل سر ظفر اللہ خانصاحب کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا چاہتا ہوں … اور یوں کہنا چاہیے کہ میں گویا اپنے بیٹے کی تعریف کررہا ہوں۔ مختلف حلقوں نے انہیں جو مبارکباد دی ہے میں اسکی تائید کرتا ہوں۔‘‘
انگریز اور ہندو مخالفت کے باوجود مسلم لیگ اپنے اجلاس لاہور (مارچ 1940ء) میں علیحدہ وطن کا مطالبہ کرچکی تھی۔ اس سے قبل چوہدری صاحبؓ نے اس مطالبہ پر مشتمل پہلی بار مدلّل تفصیلی نوٹ تیار کیا جو 22؍فروری 1940ء کو وزیر ہند لارڈ زٹلینڈ کو بھجوانے کے لئے وائسرائے کو دیا گیا۔ اس میں یہ بھی درج تھا کہ اس نوٹ کی ایک نقل محمد علی جناحؒ کو بھجوائی جارہی ہے۔ نیز اس میں دو قومی نظریہ اور شمال مشرقی اور شمال مغربی فیڈریشنوں کے قیام کا نظریہ جس تفصیل اور وضاحت سے پیش کیا گیا تھا، یہ چیز حضرت چوہدری صاحبؓ کے ہم عصر وں یا پہلے آنے والوں کی کسی دستاویزیا بیان میں قطعاً موجود نہیں تھی۔
چوہدری صاحب انڈین فیڈرل کورٹ کے جج تھے تو قائد اعظم نے بطور جج بھی آپ کی قانونی مہارت کا مشاہدہ کیا تھا۔ آپؓ کو عبوری حکومت 1945ء میں مسلم لیگ کی اجازت سے ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے دستورکی تیاری کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ آپؓ کی بین الاقوامی امور میں مہارت ایسی تسلیم شدہ تھی کہ قائد اعظم نے آپؓ کو پنجاب باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لئے نامزد فرمایا۔ اس کمیشن میں آپؓ کی خدمات کو سراہتے ہوئے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ کے بانی ایڈیٹر جناب حمید نظامی نے لکھا ہے: ’’قائد اعظم کی خواہش تھی کہ ظفراللہ کمیشن کے سامنے ملّت کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں۔ اس لئے آپ نے بلا تامل یہ کام اپنے ذمہ لیا اور ایسی قابلیت سے سر انجام دیا کہ قائد اعظم نے خوش ہوکر آپ کو UNO میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر فرمادیا۔ جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپکا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا۔ … چنانچہ قائد اعظم نے چوہدری صاحب کو بلاتأمل پاکستان کا وزیر خارجہ بنادیا‘‘۔
قائد اعظم نے جب چوہدری صاحب کو اقوام متحدہ سے پاکستان بلوایا تو امریکہ میں پاکستان کے سفیر جناب ایم۔ایچ اصفہانی نے اپنے خط محررہ 15؍اکتوبر 1947ء میں قائد اعظم کو لکھا: ’’سر ظفراللہ نے فلسطین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی طرح وہ پاکستان کو صف اول میں لے آئے ہیں … ان کا کام ابھی تو شروع ہوا ہے وہ چلے گئے تو ہم یہاں رفاقت اور راہنمائی سے محروم ہوجائیں گے‘‘۔
قائد اعظم نے اس خط کے جواب میں لکھا: ’’جہاں تک ظفراللہ کا تعلق ہے ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر آجائیں اور جہاں ان کی ضرورت ہے اس کام کو ادھورا چھوڑ دیںاور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے میری طرف سے یہ بات آپ تک پہنچا دی ہوگی لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اہل افراد کی بہت کمی ہے خصوصاً ان جیسے مرتبہ مقام کے آدمیوں کی تو بہت ہی کمی ہے اور اس لئے ہوتا یہی ہے کہ جب بھی کوئی اہم مسئلہ حل کرنا ہوتا ہے تو ہماری نظریں لا محالہ ان کی طرف ہی اٹھتی ہیں‘‘۔
قائد اعظم نے آپؓ کو 25؍دسمبر1947ء کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر فرمایا۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے قائد اعظم کے حوالے سے لکھا: ’’یہ ایک کھلا راز ہے کہ ظفر اللہ خان نے اس عہدہ (وزارت خارجہ) کو قبول کرنے میں بڑی ہچکچاہٹ ظاہر کی‘‘۔ قائد اعظم کی پیشکش کے جواب میں آپ نے کہا کہ ’’اگر میری قابلیت اور دیانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی اَور صورت میں پاکستان کی خدمت کرنے کو تیار ہوں‘‘۔ اس پر قائد اعظم نے یہ تاریخی جواب دیا: ’’ آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مجھ سے ایسے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ عہدوں کے بھوکے نہیں ہیں‘‘۔ قائداعظم کا یہ جواب چوہدری صاحب کی قابلیت اور راستبازی کا ایک روشن ثبوت ہے۔
آپؓ کے متعلق قائد اعظم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ظفراللہ کا دماغ خداوند کریم کا زبردست انعام ہے۔ ظفر اللہ پاکستان کے ایک گوہر نایاب ہیں‘‘۔
یہ آپؓ کی عظیم الشان خدمات ہی تھیں کہ سینکڑوں مسلمان بچوں کا نام آپکے نام پر ظفراللہ خان رکھا گیا۔