براعظم آسٹریلیا میں احمدیت کی جدید تاریخ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ سالانہ نمبر 2006ء میں مکرم ثاقب محمود عاطف صاحب نے آسٹریلیا میں احمدیت کی حالیہ تاریخ کے بعض سنگ میل بیان کئے ہیں۔
٭ 1984ء میں آسٹریلیا کا پہلاجلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں 80؍افراد نے شرکت کی۔ 5 جولائی 1985ء کو محترم مولانا شکیل احمد منیر صاحب پہلے امیر ومبلغ کے طور پر آسٹریلیا تشریف لائے تو مسجد بیت الہدیٰ کی باقاعدہ تعمیر کا آغازہوا۔ جماعت کا پہلا میگزین ’’الھدیٰ‘‘ دسمبر 1985ء میں شروع ہوا۔ دسمبر 1986ء میں احمدیہ قبرستان قائم ہوا۔ 7؍ستمبر 1987ء کو جماعت آسٹریلیا میں رجسٹرڈ ہوگئی۔ مسجد بیت الھدیٰ سڈنی کا افتتاح 14؍جولائی 1989ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے نماز عید پڑھاکر فرمایا۔ 17؍جولائی 1991ء کو محترم محمود احمد شاہد صاحب بحیثیت امیر و مبلغ انچارج آسٹریلیا پہنچے۔
٭ مسجد کے ساتھ ایک بہت بڑے ہال کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2006ء میں اپنے دورہ آسٹریلیا کے دوران رکھا۔ اس وقت برسبین میں 10؍ایکڑ اور ایڈیلیڈ میں 20؍ایکڑ کے وسیع رقبے مساجد کی تعمیر کے لئے خرید لئے گئے ہیں۔ نیز میلبورن میں ساڑھے سات ایکڑ رقبہ خریدا گیا ہے جس پر ایک بہت بڑا دو منزلہ ہال پہلے سے موجود ہے۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے سولومن آئی لینڈز میں احمدیت کے قیام کی ذمہ داری جماعت آسٹریلیا کے سپرد فرمائی تھی۔ یہاں محترم موسیٰ بن مصران پہلے اعزازی مبلغ تعینات ہوئے اور نہایت نامساعد حالات اور شدید مخالفت میں دعوت الی اللہ کی۔ اب وہاں ڈیڑھ سو سے زائد مخلصین موجود ہیں۔ جماعت رجسٹرڈ ہے اور مشن ہاؤس بھی خرید لیا گیا ہے۔
٭ جماعت احمدیہ، آسٹریلیا کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیتی ہے۔ خدمت خلق کے کئی کام مستقل کئے جاتے ہیں۔ خدام خون کا عطیہ باقاعدہ دیتے ہیں۔ ہیومینیٹی فرسٹ رجسٹرڈ ہے۔ Deaf and Blind سوسائٹی کے لئے بھی ذیلی تنظیموں نے کافی کام کیا ہے۔ چند سال پہلے ایران میں زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے عطیہ دیا گیا تھا۔ پھر سونامی کے موقع پر انڈیا، سری لنکا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کی حکومتوں کو مجموعی طور پر بیس ہزار ڈالر کا عطیہ جماعت نے پیش کیا۔
٭ مسجد بیت الھدیٰ میں واقع لائبریری میں تین ہزار سے زائد کتب ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے اسے ’حسن موسیٰ لائبریری‘ کا نام عطا فرمایا ہے۔ 21 ؍اپریل 2006ء کو حضور انور نے مسجد بیت الہدیٰ کے احاطہ میں خلافت جوبلی ہال کا سنگ بنیاد رکھا۔ نیز برسبین میں ’’بیت المسرور کمپلیکس‘‘ کا افتتاح بھی فرمایا۔
٭ مضمون نگار نے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ آسٹریلیا 2006ء کے موقع پر دو نہایت ایمان افروز واقعات بھی بیان کئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کے ایک سکھ دوست اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے۔ IVF کے ذریعہ ان کی بیگم امید سے ہوئیں لیکن حمل کے آٹھویں ماہ بچہ پیٹ کے اندر ہی فوت ہو گیا۔ اس کے بعد پھر کافی دیر تک کوئی امید نہ بندھی تو انہوں نے حضوانورایدہ اللہ کی خدمت میں دعا کیلئے خط لکھنے کی درخواست کی۔ خاکسار نے خدمت اقدس میں سارے حالات لکھ کر دعا کی درخواست کی تو حضور انور نے جواباً ارشاد فرمایا کہ میں بھی دعا کروں گا، آپ بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ میں نے یہ خط اپنے دوست اور ان کی بیگم کو پڑھ کر سنا دیا۔
تقریباً دو ماہ بعد ہی میرے دوست نے خوشخبری سنائی اور کہا کہ ہم حضور انور کی خدمت میں مزید دعا کے لئے خط لکھنا چاہتے ہیں۔ خاکسار نے خدمت اقدس میں اُن کی طرف سے خط لکھا تو حضور کی طرف سے دعائیہ جواب موصول ہوا۔
آخر اللہ تعالیٰ نے 2؍نومبر 2005ء کو ان کو بیٹی سے نوازا۔ جب حضور آسٹریلیا تشریف لائے تو میرے دوست کی بیگم نے اپنی بیٹی کے ساتھ مسجد آکر حضور انور سے ملاقات کی اور کہا کہ یہ آپ کی دعائوں کی بدولت ہمیں اللہ نے عطا کی ہے، اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیں۔ حضور انور نے از راہ شفقت بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور فوٹو بھی بنوائی۔
دوسرا واقعہ ایک آسٹریلین خاتون Mrs. Juen Weissel کا ہے جو حضور انور سے ملاقات کے لئے اپنی بیٹی کے ساتھ مسجد بیت الھدیٰ تشریف لائیں۔ یہ خاتون خاکسار کی Bossبھی ہیں۔ حضور انور سے ملاقات ہوئی تو دونوں ماں بیٹیوں کے چہروں سے مسرت چھلک چھلک پڑتی تھی۔ حضور انور نے ان کو از راہ شفقت قلم بھی عطا کئے۔ بعد میں ان کی بیٹی نے کہا کہ حضور تو بہت پُراثر شخصیت کے مالک ہیں۔ پھر انہوں نے حضرت بیگم صاحبہ سے بھی ملاقات کی۔ جب مَیں دفتر گیا تو انہوں نے دوبارہ حضور انو رکی باتیں شروع کر دیں اور بہت تعریفیں کرتی رہی۔ میرے پوچھنے پر بے اختیاراس کے منہ سے نکلا کہ حضور کا چہرہ دیکھ کر لگتا ہے کہ He is the chosen one (یعنی وہ خدا کا منتخب بندہ ہے)۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں