’’براہین احمدیہ‘‘ — اعتراف
’’براہین احمدیہ‘‘ ہندوؤں اور عیسائیوں کی اس جارحانہ یلغار کے جواب میں لکھی گئی تھی جس سے اُس زمانہ کے مسلمان عاجز آ چکے تھے۔ لیکن اس نے جہاں برہموسماج کی تحریک اور عیسائیت کے غلبہ کے دعوے کو زمیں بوس کردیا وہاں مسلمانوں کے بدعقائد کی اصلاح کرکے ہر طبقہ فکر سے داد و تحسین بھی حاصل کی۔ اور حضرت اقدس علیہ السلام کی علمی اور روحانی فوقیت کا اعتراف مسلمانوں کے علاوہ غیروں نے بھی دل کھول کر کیا جس کی چند مثالیں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کی اِس خصوصی اشاعت کی زینت ہیں۔
٭ نامور صحافی سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار ’’سیاست‘‘ نے لکھا کہ عیسائیوں کے حملوں کا جواب دینے کے لئے مسلمانوں میں سے سرسید اور ان کے بعد مرزا غلام احمد صاحب اس میدان میں اترے۔ سرسید کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ انہوں نے ہر معجزے سے انکار کیا اور ہر مسئلہ کو بزعم خود عقل انسانی کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔
مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفینِ اسلام کے دانت کھٹے کردیئے۔ اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین لاجواب ہیں اور اگر وہ اپنی کامیابی سے متاثر ہوکر نبوت کا دعویٰ نہ کرتے تو ہم انہیں زمانہ حال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خادم مانتے۔
٭ معروف صحافی عبداللہ ملک اپنی کتاب ’’پنجاب کی سیاسی تحریکیں‘‘ میں سر سید احمد خان اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے طریق کار کا فرق بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’سچ یہ ہے کہ اس دور میں جن لوگوں کو سرسید نے متاثر کیا، ساتھ ہی ان کو اپنی تعلیمات سے ایک گونہ آزردہ بھی کیا۔ ان ہی آزردہ دلوں کو بہت حد تک مرزا غلام احمد نے اپنے طور طریقوں سے سمیٹا۔ سر سید نے عقل کی بنیاد پر قرآنی آیات اور مذہبی تعلیمات و عبادات کی جتنی توجیہات اور تاویلات کی تھیں مرزا غلام احمد نے ان کے پرخچے اڑا دیئے۔‘‘
٭ برہموسماج لیڈر دیونند ناتھ نے لکھا:
’’برہمو سماج کی تحریک ایک زبردست طوفان کی طرح اٹھی اور آناً فاناً نہ صرف ہندوستان بلکہ غیرممالک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔ بھارت میں نہ صرف ہندو اور سکھ اس سے متاثر ہوئے بلکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ نے بھی اس میں شمولیت اختیار کرلی۔ روزانہ بیسیوں مسلمان برہموسماج کے ساتھ نہ صرف سہمت تھے بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر تھے۔ لیکن انہی دنوں مرزا غلام احمد قادیانی نے جو مسلمانوں کے ایک بڑے عالم تھے ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھیں اور ان کو مناظرے کے لئے چیلنج کیا … جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو کہ برہموسماج کی تعلیم سے متاثر تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے بلکہ باقاعدہ برہمو سماج میں داخل ہونے والے مسلمان بھی آہستہ آہستہ اسے چھوڑ گئے‘‘۔
٭ مولوی ارشاد علی صاحب ناگپوری نے جو عیسائیت سے توبہ کرکے دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، پادری صفدر علی صاحب کو جوابی خط میں لکھا کہ پادری صفدر علی نے مجھے چیلنج دیا ہے کہ میں ان کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کی صداقت پر بحث کروں۔ … کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اگر ان کو اپنے دلائل اور عیسائیت کی صداقت پر پورا اعتماد ہے تو پھر وہ اس وقت کہاں تھے جب کہ مولوی غلام احمد صاحب قادیانی نے میدان مناظرہ میں کھڑے ہوکر بہادر شیر کی طرح ان کو للکارا ۔ اس چیلنج کا آپ لوگوں پر اس قدر اثر تھا کہ کسی پادری کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ آپ کے مقابل پر آتا۔