’’براہین احمدیہ‘‘ کے مالی معاونین
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خدائی بشارت کے تحت جب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے لئے تحریک فرمائی تو ان میں نواب شاہجہان بیگم صاحبہ فرمانروائے بھوپال بھی تھیں جو 1868ء میں باضابطہ طور پر سریر آرائے سلطنت ہوئیں اور آپ کا عقد ثانی مولوی صدیق حسن خان صاحب کے ساتھ عمل میں آیا جنہیں بعد میں اعزازی خطاب ’’نواب‘‘ دیا گیا۔ نواب شاہجہان بیگم صاحبہ جون 1901ء میں انتقال کرگئیں۔ نواب صدیق حسن خان صاحب قنوج کے رہنے والے ایک ذی علم انسان تھے۔انہوں نے کتب خریدنے کا وعدہ کیا تھا لیکن جب حضور علیہ السلام نے انہیں کتب بھجوائیں تو انہوں نے یہ سوچ کر واپس بھجوادیں کہ عیسائیت کی تردید میں لکھی گئی کتاب کی مدد کرنے سے حکومت ناراض ہوسکتی ہے۔ انہوں نے پیکٹ کھول کر پھر اس بُرے طریق پر بند کیا تھا کہ کتب پھٹ بھی گئی تھیں۔ چنانچہ جب یہ پیکٹ اور اُن کا خط حضورؑ کی خدمت میں واپس پہنچا تو حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ جو اُس وقت وہاں موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ حضورؑ چہل قدمی فرما رہے تھے۔ آپؑ کا چہرہ متغیّر اور غصّہ سے سرخ ہوگیا۔ آپؑ خاموشی سے ٹہلتے رہے کہ اچانک آپؑ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کرلو‘‘۔ چند ہی ماہ گزرے تھے کہ نواب صاحب پر ایک سیاسی مقدمہ قائم ہوا اور نوابی کا خطاب چھین لیا گیا اور نہایت خطرناک الزامات عائد کئے گئے۔ تب مصیبتوں کے پہاڑ دیکھ کر حافظ محمد یوسف صاحب نے حضرت اقدسؑ سے دعا کروانے کا مشورہ دیا۔ مولوی محمد حسین نے بھی سفارش کی۔ پہلے تو حضورؑ نے دعا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے، اب گورنمنٹ کو راضی کرلیں۔ لیکن پھر نواب صاحب کی طرف سے معذرت بھی کی گئی تو حضورؑ نے دعا کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ توبہ کریں خدا تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے، حکومت کے اخذ سے بچ جاویں گے۔ … پھر نواب صاحب نے براہین کی خریداری کی درخواست کی لیکن حضورؑ نے ردّ کردی اور فرمایا کہ میں نے رحم کرکے ان کے لئے دعا کردی ہے اور خداتعالیٰ کے فضل سے وہ اس عذاب سے بچ جائیں گے، میرا یہ فعل شفقت کا نتیجہ ہے لیکن ایسے شخص کو جس نے اس کتاب کو اس ذلّت کے ساتھ واپس کیا میں اب کسی قیمت پر بھی کتاب دینا نہیں چاہتا یہ میری غیرت اور ایمان کے خلاف ہے۔ نیز فرمایا کہ ان لوگوں کو میں نے جو تحریک کی تھی وہ خدا تعالیٰ کے مخفی اشارہ کے ماتحت اور ان پر رحم کرکے تھی ورنہ میں نے ان لوگوں کو کبھی امیدگاہ نہیں بنایا، ہماری امیدگاہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی کافی ہے۔ چنانچہ حضورؑ کی دعا قبول ہوئی اور نواب صاحب حکومت کے اخذ سے بچ گئے، نوابی کا خطاب بھی بحال ہوگیا لیکن موت نے ان کا خاتمہ کردیا۔
’’براہین احمدیہ‘‘ کے مالی معاونین میں نواب مرزا محمد علاؤالدین احمد خان صاحب بہادر فرمانروائے ریاست لوہارو بھی شامل تھے جو مرزا اسداللہ خان غالب کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے، آپ نے 31؍اکتوبر 1884ء کو وفات پائی۔
معاونین میں ایک نام مولوی چراغ علی کا تھا لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے آنحضرتﷺ کی عظمت کے پیش نظر چراغ کا لفظ کسی دوسرے کے لئے منسوب ہونا پسند نہ کیا اور نام میں محمد کا اضافہ کردیا چنانچہ کتاب میں نام لکھا ہے ’مولوی محمد چراغ علی خان صاحب بہادر نائب معتمد مدارالمہام حیدرآباد دکن۔ مولوی صاحب 1845ء میں پیدا ہوئے اور 15؍جولائی 1895ء کو بمبئی میں انتقال کیا۔آپ عربی، فارسی، انگریزی پر عبور رکھتے تھے اور لاطینی، یونانی، عبرانی اور کالڈی بھی جانتے تھے۔ مولوی عبدالحق المعروف بابائے اردو نے مولوی صاحب کی کتاب کے مقدمہ میں درج چند ادھورے خطوط سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ گویا حضرت اقدسؑ نے براہین احمدیہ کی تصنیف میں مولوی صاحب سے کوئی علمی مدد بھی لی تھی۔ فی الواقعہ مولوی صاحب نے مالی معاونت کی ہے جس کا ذکر حضورؑ نے بھی فرمایا ہے۔
مالی معاونین میں نواب نظیرالدولہ احمد علی خان صاحب بہادر بھوپال بھی تھے جن کا انتقال 1902ء میں ہوا۔ نیز نواب علی محمد خان صاحب بہادر لدھیانہ بھی تھے جو اوائل زمانہ میں ہی فوت ہوگئے لیکن حضورؑ کی قبولیت دعا کے بڑے معتقد تھے۔ آپ ریاست جھجر کے رئیس تھے۔ ریاست ضبط ہوچکی تھی اس لئے لدھیانہ میں رہائش رکھتے تھے۔ اسی طرح مرزا سعید الدین احمد خان صاحب بہادر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر فیروزپور کا بھی نام حضورؑ نے تحریر فرمایا ہے۔
حضرت خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب بہادر وزیر اعظم دستور معظم ریاست پٹیالہ کا ذکر کرتے ہوئے حضورؑ نے فرمایا کہ اس کار خیر میں آج تک سب سے زیادہ انہی سے اعانت ظہور میں آئی ہے۔ اسی طرح کئی اور نام بھی حضورؑنے درج فرمائے ہیں لیکن ایک نام جو درج نہیں فرمایا وہ حاجی ولی اللہ سیشن جج کپورتھلہ کا ہے جنہیں حضورؑنے کتاب بھجوائی اور آپکی حضورؑ سے خط و کتابت بھی رہی۔ آپ جب رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ گئے تو براہین احمدیہ ساتھ تھی جو آپ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی سے سنا کرتے تھے۔ گو حاجی صاحب کی ارادت کسی پنہانی معصیت کی وجہ سے بعد میں شکوک میں بدل گئی لیکن حضرت منشی صاحبؓ اور دیگر سامعین کو حضورؑ سے ایسی عقیدت ہوگئی کہ کپورتھلہ میں براہین احمدیہ کا باقاعدہ درس حضرت منشی صاحبؓ نے شروع کردیا اور اگرچہ حاجی صاحب تو تعلق منقطع کربیٹھے لیکن ان کے کئی عزیز اور رشتہ دار حضورؑ کی غلامی میں آگئے۔
کئی مالی معاونین کے بارے میں حضورؑ کو قبل از وقت خبر دے دی گئی جس کے دوسرے احباب بھی گواہ بنائے گئے۔ ان میں نواب اقبال الدولہ اقتدارالملک قیصر ہند سر وقارالامراء محمد فضل الدین خان، عبداللہ خان آف ڈیرہ اسماعیل خان اور محمد افضل خان صاحب بھی شامل تھے۔ ایک ہندو سردار عطر سنگھ صاحب رئیس اعظم لدھیانہ جنہیں تعلیم و تعلّم کی سرپرستی کے اعتراف میں ملاذالعلماء و الغفلاء اور مہامد پادھیائے کا خطاب بھی دیا گیا تھا، مالی معاونین میں شامل تھے۔
مذکورہ بالا کے علاوہ بھی ایک لمبی فہرست ہے جن کا ذکر ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کے ایک مضمون میں مکرم عاصم جمالی صاحب نے کیا ہے۔