برطانیہ میں تاریخ اسلام
نو سو سال قبل انگلستان کے بادشاہ اوفاؔ نے اپنے ملک میں پہلا باقاعدہ سکہ رائج کیا۔ سونے سے تیار کیا جانے والا یہ سکہ برٹش میوزیم میں آج بھی موجود ہے جس کے ایک طرف بادشاہ کا نام درج ہے اور دوسری طرف کلمہ طیبہ کندہ ہے۔ امکان ہے کہ درپردہ بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔ جبکہ عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ چونکہ بادشاہ ان پڑھ تھا اس لئے ممکن ہے اسے مسلمانوں کا کوئی سکہ پسند آ گیا ہو جس پر کلمہ درج ہو اور اسی لئے اُس نے اُس سکہ پر درج تحریر کو رائج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہو۔
محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب نے رسالہ ’’البصیرت‘‘ بریڈفورڈ کی خصوصی اشاعت 1996ء میں ’’مسجد فضل لندن کی ابتدائی تاریخ‘‘ بیان کرنے سے پہلے اسلام کے انگلستان میں نفوذ کے ضمن میں یہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ملکہ الزبتھ اوّل کے زمانہ میں جب ہسپانیہ کے بحری بیڑے سے خطرہ لاحق ہوا تو ملکہ نے عثمانی سلطنت سے مدد طلب کی۔ چنانچہ عثمانی جرنیل انگلستان پہنچے۔ انہیں برائٹن میں ٹھہرایا گیا جہاں انہوں نے اپنی قیام گاہ کے ایک کمرہ کو مسجد میں تبدیل کر کے دیواروں پر کلمہ طیبہ تحریر کیا۔ 1924ء میں حضرت مصلح موعودؑ نے بھی اس کمرہ کو دیکھا۔
تقریباً 1890ء میں مسٹر عبد اللہ کوئلم نامی ایک انگریز نے اسلام قبول کر کے لورپول میں ایک کمرہ کو مسجد میں تبدیل کر کے تبلیغ شروع کی۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے ورثاء نے اُن کا مکان فروخت کردیا۔
1896ء میں ڈاکٹر لائیٹنر نے ہندوستان میں چندہ جمع کرکے ووکنگ میں ایک مسجد بنائی جو اب تک قائم ہے۔
1914ء میں حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ نے انگلستان میں احمدیہ مسلم مشن کا سنگ بنیاد رکھا اور 1920ء میں مسجد فضل لندن کے لئے ایک قطعہ زمین خریدا گیا۔ 19؍ اکتوبر 1924ء کو سیدنا حضرت مصلح موعودؑ نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور 1926ء میں اس مسجد کی تعمیر کی مکمل ہوئی۔ یہ مسجد نہ صرف اسلامی تبلیغ بلکہ ہندوستان میں مقیم مسلمانوں کی آزادی کا مرکز بھی بن گئی۔ بہت سے مسلم اور غیر مسلم راہنما یہاں تشریف لاتے رہے جن میں شاہ فیصل، محمد علی جناحؒ، علامہ اقبال، شاہ لیبیا ادریس، لائبیریا کے صدر ٹب مین، سر فیروز خاں نون، سر عبد القادر، مولانا غلام رسول مہر اور کئی مشہور مستشرقین مثلاً منٹگمری واٹ، کینتھ کریگ اور سر آرتھر فلبی شامل ہیں۔ شاہ ایران نے اس مسجد کے لئے ایک قطب نما تحفۃً بھجوایا تھا۔