برکات خلافت
ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ مئی 1999ء میں خلافت کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے مکرم لئیق احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ برطانیہ اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ 5؍جولائی 1967ء کو ربوہ میں خاکسار کو سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے شرف ملاقات سے نوازا۔ یہ ملاقات خاکسار کی انگلستان میں بطور مبلغ سلسلہ روانگی سے متعلق تھی۔ حضور نے بہت سی دعاؤں اور نصائح سے نوازا اور فرمایا کہ جماعت میں یہ عام تحریک کریں کہ خلافت سے زندہ تعلق رکھیں، حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ کے پاس احباب جماعت بکثرت دعا کیلئے جایا کرتے تھے لیکن آپؓ انہیں ہمیشہ یاد دلاتے تھے کہ دعاؤں کا حقیقی مرکز آج خلیفہ وقت ہیں اور میری ساری دعائیں اُس وقت تک سنی نہیں جاسکتیں جب تک وہ خلافت کے دروازہ سے ہوکر نہ گزریں۔
حضورؒ کی مراد تھی کہ خلیفہ راشد کے مقاصد عالیہ کے تابع جو دعائیں ہوں گی وہی شرف قبول حاصل کریں گی اور حضرت مولانا راجیکی صاحب ؓ بھی احباب کو متوجہ فرماتے رہتے تھے کہ دعاؤں کے حقیقی مرکز سے وابستہ ہوجاؤ، خلافت کے در کے فقیر بن جاؤ، خلافت کی اطاعت کا جؤا اپنی گردنوں پر ڈال لو، پھر خیر ہی خیر ہے۔ امام وقت جو تحریک فرمادیں اسے باقی چیزوں پر مقدم کرلو۔ گویا یہ پیغام
الاِمامُ جُنََّّۃٌ یُقَاتَلُ مِن وَرَائِہ
کی تفسیر تھا۔
گلاسگو میں جولائی 1967ء میں محمد ایوب صاحب جماعت کے صدر تھے۔ بہت ہنس مکھ، مرنجاں مرنج دوست تھے۔ ایک روز مشن ہاؤس (63؍ میلروز روڈ) میں سیڑھیوں کے پاس کھڑے تھے۔ ان کے ہاں بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں، کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ موضوع سخن انہی کی ذات تھی۔ کوئی انہیں مشورہ دے رہا تھا کہ فلاں علاج کروائیں تو بیٹا ہوگا۔ خاکسار نے کہا کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے لکھا ہے کہ اپنی بیٹی کا نام بشریٰ رکھیں تو ممکن ہے خدا آئندہ بیٹے سے نواز دے۔ یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سیڑھیوں سے نیچے تشریف لائے اور فرمایا خدا تو بے نیاز ہے، صرف بیٹی کا نام بشریٰ رکھ دینے سے آئندہ لازماً بیٹا ہو، یہ ضروری نہیں۔ اور پھر حضورؒ نے دریافت فرمایا کس ضمن میں یہ بات ہو رہی ہے۔ عرض کیا گیا کہ حضور یہ ایوب صاحب کھڑے ہیں۔ ان کے ہاں صرف بیٹیاں ہی ہوتی ہیں، بیٹا نہیں ہوتا۔ فرمایا مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ میں بھی دعا کروں گا، آپ مجھے یاد کرواتے رہیں۔ محمد ایوب صاحب بے تکلّف دوست تھے۔ ہنس کے عرض کرنے لگے، حضور پھر بیٹی ہوگئی تو!۔ حضور نے فرمایا بندہ کا کام اپنے مولیٰ کریم سے مانگنا ہے، اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ آپ مجھے دعا کیلئے یاد کرواتے رہیں۔ چند ماہ بعد محمد ایوب صاحب نے حضورؒ کو اطلاع دی کہ میری بیگم امید سے ہیں۔ حضور بیٹے کیلئے دعا کریں۔ بچے کی ولادت میں ابھی تین ماہ باقی تھے۔ حضورؒ نے انہیں خط لکھا کہ بیٹے کا نام ابراہیم رکھ لیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو بیٹے سے نوازے گا اور سچ مچ خدا کی قرنا کی یہ بات پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں صحتمند بیٹے سے نوازا جس کا نام انہوں نے ابراہیم ہی رکھا۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ نعیمہ جمال صاحبہ آف ھیز (یوکے) کی والدہ صادقہ حیدر صاحبہ حضورؒ سے ملیں اور اس ملاقات میں زار و قطار رونے لگیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے ہر قسم کے معائنوں کے بعد بتایا ہے کہ ان کے ہاں آئندہ کسی اولاد کی توقع نہیں۔ ان سے بڑھ کر ان کے میاں کی خواہش ہی نہیں بلکہ پُرزور مطالبہ تھا کہ بیٹا ہو۔… اس پر حضورؒ کو بہت رحم آیا اور حضور نے بڑے درد کے ساتھ دعا کی اور انہیں بڑے وثوق سے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید اولاد سے نوازے گا ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تمہارے رحم کی حالت ایسی ہے کہ اولاد ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ ان کے ہاتھ میں اس وقت ایک سیاہ رنگ کا بیگ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ تمہاری Tubes گَل سڑ کے اس بیگ کی طرح ہوچکی ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا ہم پھر بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اعجازی طور پر انہیں بیٹے سے نوازا تو ولادت سے بہت پہلے حضورؒ نے انہیں ارشاد فرمایا کہ ہونے والے بچہ کا نام صادق احمد رکھ لیں اور پھر امۃالسلام منصورہ پیدا ہوئیں جو اب منصورہ منیب احمد کہلاتی ہیں۔