بعض نواحمدیوں کا قابلِ رشک اخلاص

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اکتوبر 1998ء میں مکرم نسیم سیفی صاحب اپنے ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے بیرون پاکستان کے بعض نواحمدی احباب کے قابل رشک اخلاص سے لبریز واقعات پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ انگلینڈ کے مکرم بلال نٹل صاحب نے جب قبول احمدیت کی توفیق پائی تو اپنے لئے جس نام کا انتخاب کیا وہ ایک حبشی کا نام تھا یعنی ’’بلال‘‘۔ پھر جس طرح حضرت بلالؓ اذان دیا کرتے تھے، اسی طرح آپ بھی یہ خدمت نہایت شوق سے بجالاتے ہیں۔

مکرم نسیم سیفی صاحب

سوئٹزرلینڈ کے عبدالرشید فاگل صاحب نے نائیجیریا میں قیام کے دوران احمدیت قبول کی تھی۔ انہوں نے ایک مقامی اخبار میں ہماری کتب کا اشتہار پڑھ کر کتب منگوائیں اور پھر خط و کتابت کے ذریعے کچھ استفسارات کئے اور بیعت کرلی۔ پھر وہ چھ سات سو میل کا سفر کرکے لیگوس احمدیہ مشن تشریف لائے۔ مضمون نگار کا بیان ہے کہ اُن کے یورپین ہونے کے پیش نظر سوچا گیا کہ اِن کا انتظام کسی اچھے سے ہوٹل میں کردینا چاہئے۔ چنانچہ ہوائی اڈے سے انہیں ایک ہوٹل میں لے جایا گیا۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو کہنے لگے کہ یہ مشن ہاؤس تو نہیں معلوم ہوتا، میں تو اسلئے یہاں آیا ہوں کہ دن رات قریب رہ کر علمی اور عملی فائدہ حاصل کروں۔ چنانچہ پھر انہیں مشن ہاؤس میں لایا گیا۔
ایک بہن ناصرہ زمرمن کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور وہ قرآن کریم کا ڈَچ زبان میں ترجمہ کر رہی تھیں جب اُن کی توجہ اسلام کی طرف ہوئی حتّٰی کہ ابھی ترجمہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے احمدیت قبول کرلی۔ نائیجیریا کی آزادی کے جشن کے سلسلہ میں جو وہ حکومت کی دعوت پر نائیجیریا آئیں تو اُن کی ملاقات مضمون نگار سے بھی ہوئی۔ اپنے چند روزہ قیام کے دوران انہوں نے اخباری نمائندوں کو اپنے احمدی ہونے اور اسلام کے بہترین مذہب ہونے کے بارے میں انٹرویو دیئے اور ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام میں اسلام کی خوبیاں بیان کیں۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ نائیجریا میں دعوت الی اللہ کے کام کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہالینڈ واپس جاتے ہی انہوں نے نائیجیریا آنے کیلئے پروگرام بناکر کوشش شروع کردی اور پھر وہاں آکر جماعتی ہدایت کے مطابق کام شروع کردیا۔ انہوں نے احمدیہ اخبار ’’ٹرتھ‘‘ کی خوب قلمی معاونت کی۔ پھر وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے سوڈان چلی گئیں اور وہاں تبلیغ میں سرگرم ہوگئیں۔
مضمون نگار افریقی احمدیوں کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ غانا کے موقع پر جب مالی قربانیاں پیش کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو بہت ایمان افروز نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختلف جماعتیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں اور انفرادی طور پر لوگ اپنی توفیق سے بڑھ کر پیش کرتے ہیں۔
1955ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے تو نائیجریا کی جماعت نے اپنے ایک نمائندہ Mr.A.G.Kuku کو حضورؓ کی عیادت کے لئے یورپ بھجوایا۔ مسٹر کوکو نے اخلاص کا جو نمونہ یورپ میں دکھایا اُس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطاب میں نہایت خوشی کا اظہار کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں