بغداد

اسلامی حکومت کے پانچ سو سال تک مرکز رہنے والے شہر بغداد سے متعلق ایک تفصیلی مضمون مکرم محمد زکریا ورک صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16 و 17؍اپریل 2003ء میں شامل اشاعت ہے۔

جناب زکریا ورک صاحب

زمانہ قدیم میں عراق کو میسوپوٹیمیا کہا جاتا تھا اور دریائے دجلہ و فرات کے درمیانی علاقہ کو Fertile Crecsent ۔ چونکہ انسانی تہذیب نے یہاں جنم لیا اس لئے اس کو Cradle of Civilizationبھی کہا جاتا ہے۔ 4ہزار قبل مسیح میں یہاں بسنے والی سومیرین قوم کے لوگوں نے لکھنا شروع کیا اور پہیہ بھی ایجاد کیا۔ اسی قوم کے شہروں Uruk اور Erech کا ذکر بائبل میں آیا ہے۔ یہیں بابل شہر آباد ہوا اور یہیں اُر (Ur) شہر تھا جس میں حضرت ابراہیمؑ رہا کرتے تھے۔ سکندراعظم نے بھی بغداد سے بیس میل دور ایک شہر بسایا تھا۔ دجلہ کے مشرقی کنارہ پر میدائینؔ بھی تھا جو ایران کی ساسانی حکومت کا دارالخلافہ تھا۔ بغداد کی بنیاد عباسی خلیفہ المنصور نے 762ء میں رکھی۔ شہر دائرہ کی شکل کا تھا اس کے گرد 80؍فٹ اونچی اور 40؍فٹ چوڑی فصیل تھی جس میں چار دروازے تھے۔ چار سال میں شہر کی تعمیر پر پانچ لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ شہر کا سرکاری نام دارالسلام تھا لیکن گول شہر مشہور ہوا جبکہ شعراء نے اسے الزوراء بھی لکھا۔ یہ شہر 750ء سے 1258ء تک مسلمانوں اور دنیا کی نگاہوں کا مرکز رہا۔ 37 عباسی خلفاء نے یہاں خلافت کی۔
ایران کے قریب ہونے کی وجہ سے ایرانی فیشن جلد ہی یہاں رائج ہوا۔ بہت سی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کے باوجود دو چیزیں مستقل موجود رہیں۔ ایک مذہب اسلام اور دوسری عربی زبان۔
بغداد کا روشن ترین خلیفہ ہارون الرشید 786ء سے 806ء تک مسند خلافت پر بیٹھا اورسیاسی شہرت کے ساتھ اقتصادی خوشحالی اور علمی کارناموں کے ذریعہ عزت کمائی۔ اُس نے فرانس کے بادشاہ شارلیمان کو ایک (واٹر) گھڑی تحفۃً بھجوائی تھی جو یورپ میں آنے والی پہلی گھڑی تھی۔ ہارون کی وفات پر بیت المال میں 990 ملین دینار موجود تھے۔ سکنڈے نیویا میں عباسی دور کے سکے برآمد ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ عرب تاجر اس قدر دُور کا سفر کرتے تھے اور یہ کہ دینار کو بین الاقوامی کرنسی کا درجہ حاصل تھا۔
المنصور نے آٹھویں صدی میں لاطینی، سنسکرت، فارسی اور سریانی زبانوں کا علم عربی میں ترجمہ کروانے کا کام شروع کروایا تھا جو مامون کے دور میں اختتام کو پہنچا۔ پھر ان تراجم کی نقول ہوئیں۔ یورپ میں یہ کام بارھویں صدی میں شروع ہوا جب بغداد سے یہ علمی ذخیرہ اسلامی سپین میں منتقل ہوا۔ریاضی، اسٹرانومی کے علاوہ کئی علوم ہندوستان سے عربوں کے ذریعہ یورپ پہنچے۔ صفر کا ہندسہ عربوں نے ایجاد کیا۔ شطرنج بھی ہندوستان سے ایران کے راستہ عربوں میں پہنچی اور وہاں سے یورپ آئی۔تراجم کے لئے مامون نے 830ء میں ایک اکیڈمی بیت الحکمۃ کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں سائنسی تحقیق کا جدید مرکز بن گئی۔ یہاں ایک رصدگاہ بھی قائم تھی۔ ہر قوم اور مذہب کے سائنسدان یہاں آتے۔ مامون کی وفات 833ء کے بعد اُس کے بیٹے المعتصم کے دور میں اکیڈمی پر زوال آگیا تاہم اُس کے بیٹے المتوکل نے خطیر رقم صرف کرکے اکیڈمی کو دوبارہ جاری کیا۔ اُس کے دور تک ترجمہ شدہ کتب کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ چکی تھی اور درجنوں نئی تحقیقی کتب لکھی گئی تھیں۔ اگرچہ یہ دور یورپ میں جہالت کا دَور تھا۔
بارھویں صدی میں یورپ میں عربوں کے علوم کی بنیاد پر تحقیق اور سائنس کا جو دَور شروع ہوا وہ پندرھویں صدی تک قریباً سارے یورپ کو منور کرگیا۔ عربی سے علمی کتب کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہوا تو بھی کئی عربی کتب گزشتہ صدی تک یورپین چھاپہ خانوں میں شائع ہوتی رہیں۔ دوسری طرف بغداد کی خوشحالی سے حسد کرتے ہوئے جنگجو قوموں نے بغداد پر حملے کرنے شروع کردیئے اور 1218ء میں چنگیز خان نے اور 1256ء میں ہلاکو خان نے حملہ کرکے شہر کو خس و خاشاک کردیا۔ 10؍فروری 1258ء کو بغداد نے ہتھیار ڈالے تو شہر بھر کے کتب خانوں کو جلاکر راکھ کردیا گیا اور بچ جانے والی کتابوں کو دجلہ میں بہادیا گیا۔ 1401ء میں تیمور لنگ نے بھی حملہ کرکے باقی کسر نکال دی۔
سلطنت عثمانیہ کے زیراثر عراق تین صوبوں میں تقسیم تھا اور بغداد ایک صوبہ کا دارالحکومت تھا۔ 1921ء میں فیصل ابن شاہ حسین نے اس کو اپنا صدر مقام مقرر کیا لیکن 1958ء میں بادشاہت ختم کرکے عراق کو ریپبلک بنادیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں