بلڈ پریشر

ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ لندن مارچ 1999ء میں مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب کا بلڈپریشر کے بارہ میں ایک مضمون شائع ہوا ۔ سادہ زبان میں بلڈ پریشر جسم میں خون کا دباؤ بڑھ جانے کو کہتے ہیں اور یہ عمر، نسل اور ماحول کے زیر اثر بدلتا رہتا ہے۔ مثلاً افریقہ کے باشندوں کا بلڈپریشر عموماً زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جوان لوگوں کا نارمل بلڈپریشر 80/120 ہے۔ اور اگر یہ 100/160 ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ بلڈ پریشر زیادہ ہے یا اگر 90/140 ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ بارڈر لائن ہے اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ لیکن ساٹھ پینسٹھ برس کی عمر میں 95/160 نارمل کہلاتا ہے۔
بلڈ پریشر عموماً ورزش، گھبراہٹ، خوف اور نامناسب ماحول میں بڑھ جاتا ہے اور ان چیزوں کے دور ہوجانے کے بعد خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے اور اسکے لئے کسی دوا کی ضرورت نہیںہوتی۔
بنیادی طور پر اس کی تین اقسام ہیں: پہلی قسم Essential Hypertension میں بیماری کی وجہ معلوم نہیں ہوسکتی اور تقریباً 90فیصد مریضوں میں یہی ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات موروثی ہونے کے علاوہ ماحول کے زیر اثر بھی ہو سکتی ہیں جن میں موٹاپا اور نمک کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔
دوسری قسمSecondary Hypertension میں بلڈپریشر کی زیادتی کی وجوہات عام طور پر معلوم ہوتی ہیں مثلاً گردوں کی بیماریاں یا جسم میں موجود مختلف قسم کے غدود کی بیماریاں۔ اسی طرح دل کی بیماری، زچگی اور بعض ادویات کا استعمال بھی بلڈپریشر میں اضافہ کرتے ہیں۔ بلڈپریشر کے دس فیصد مریض اسی قسم کا شکار ہوتے ہیں۔
تیسری قسم میں مریض کا بلڈپریشر ڈاکٹر اور ہسپتال کا ماحول دیکھ کر بڑھ جاتا ہے۔ اِسے White Coat Hypertension کہتے ہیں۔ مخصوص ماحول سے باہر آنے کے نتیجے میں یہ ختم ہو جاتا ہے۔
بلڈپریشر بڑھ جانے کی کئی علامات ہیں اور تمام علامات یا کسی علامت کا موجود ہونا ہر دفعہ ضروری بھی نہیں ہوتا۔ تاہم قابل ذکر علامات میں سر کا درد، پیشاب کا بار بار آنا، بار بار نکسیر پھوٹنا، بار بار پسینہ آنا اور دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، اپنے دل کی دھڑکن کو خود محسوس کرنا، موت کا خوف اور چھاتی میں درد شامل ہیں۔ اگر بلڈپریشر بہت زیادہ بڑھ جائے تو اُلٹی، سخت سر درد، جھٹکے، فالج، بیہوشی یا یکدم حرکت قلب کا بند ہوجانا ہوسکتا ہے جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
بلڈپریشر کی تشخیص بہت ہی آسان ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر یہ ایک دفعہ بڑھ جائے تو عموماً بقیہ ساری زندگی اس کی دوا استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اس کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے بازار میں کئی دوائیں دستیاب ہیں۔ اکثر مریض کچھ دن دوا کا استعمال کرکے پھر ترک کر دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُن کا بلڈ پریشر اب نارمل ہوگیا ہے۔ لیکن یہ ایک بڑی غلطی ہے کیونکہ دو چار دن کے بعد جب دوا کا اثر خون میں ختم ہوگا تو بلڈپریشر بڑھ جائے گا اور زیادہ نقصان کا باعث بنے گا۔ دوا ترک کرنے کے بعد بھی بلڈپریشر کا نارمل ہونا صرف اس وجہ سے تھا کہ دوائی کی کچھ مقدار خون میں موجود تھی۔
مریض کو بعض احتیاطیں بھی پیش نظر رکھنی چاہئیں جو علاج میں مدد دیں گی۔ مثلاً: وزن کم کرنا، روزانہ ورزش کرنا، نمک کا استعمال کم کرنا اور سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کرنا۔
ماہرین کے مطابق ایک جوان آدمی کو ہفتہ میں 3 بار نصف گھنٹہ جاگنگ کرنا چاہئے اور بوڑھوں کو اپنی سیر میں اضافہ کر دینا چاہئے۔ اگر مریض علاج اور احتیاطوں کی طرف قدم نہیں بڑھاتا تو بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جن میں فالج، بینائی کا ضائع ہونا، دماغ کی شریان کا پھٹ جانا، دل کی حرکت کا بند ہو جانا اور گردوں کا فیل ہو جانا شامل ہیں۔
بلڈپریشر کے دوران چکنائی سے پرہیز لازم ہے اور ایسی اشیاء سے بھی جو چکنائی میں تلی ہوئی ہوں۔ اسی طرح کیک، پیسٹری وغیرہ سے بھی۔ اگر جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی ہو تو گوشت کم کھانا چاہئے اور مچھلی اور مرغی کا استعمال زیادہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح گردے، کلیجی، دل سے بھی پرہیز کیا جائے اور گوشت کھانا ہی ہو تو چربی اچھی طرح اتار دیں اور دودھ بھی بغیر بالائی والا استعمال کریں۔ اپنی غذا میں سبزیوں اور دالوں کا زیادہ استعمال کریں اور اپنے وزن میں اضافہ نہ ہونے دیں۔ اسی طرح مریض کو اپنے آرام کا خیال رکھنا چاہئے اور روزانہ چھ سے سات گھنٹے سونا چاہئے۔ بے آرامی سے بھی بلڈپریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں