بنی اسرائیل میں لوہے اور تانبے کا دور
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جولائی 1998ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھتے ہیں کہ لوہے اور تانبے کا استعمال انسانی تاریخ میں اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اُس پر بِنا رکھتے ہوئے تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے- قرآن کریم کے مطابق حضرت داؤد کے لئے لوہے کو نرم کردیا گیا تھا اور حضرت سلیمان کے لئے تانبے کا چشمہ پگھلایا گیا تھا-
بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد چالیس سال فلسطین میں داخل ہونے کی کوشش میں گزارے اور پورے علاقے پر اُن کا تسلّط کئی صدیوں میں ممکن ہوسکا تھا- اس کی وجہ بعض اور قوموں کا بھی فلسطین پر قبضہ کرنے کا خواب تھا- ایک قوم فلستیوں کی تھی جو بحیرہ روم کے جزیرے کریٹ سے آکر فلسطین کے ساحلی علاقوں میں آباد ہوگئی تھی- یہ ایک مشترکہ بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے بلکہ ہر شہر کا ایک سردار تھا اور قومی معاملات سرداروں کی کونسل طے کیا کرتی تھی- کنعان پر قبضے کے لئے فلستیوں اور بنی اسرائیل کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں اور اکثر میں فلستیوں کا پلّہ بھاری رہا اور کئی مرتبہ بنی اسرائیل ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے اور محکوم بنے- اس فوقیت کی وجہ یہ تھی کہ فلستیوں کو لوہے کا کام آتا تھا حتّٰی کہ اسرائیلی اپنے اوزاروں کو تیز کروانے کے لئے بھی فلستیوں کے پاس ہی جاتے تھے- اُس وقت تک بنی اسرائیل بھی کسی ایک بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے لیکن جب بنی اسرائیل کا بہت سا حصہ فلستیوں کا محکوم بن گیا تو بنی اسرائیل کے بڑوں نے ایک بادشاہ کے تحت متحد ہونے کا فیصلہ کیا- اس طرح قریباً 1050ق م میں ساؤل کو بنی اسرائیل کی تاریخ کا پہلا بادشاہ بنایا گیا اور اُس کی قیادت میں جنگوں کا سلسلہ ایک نئے سرے سے شروع ہوا-
آخر ایک بڑی جنگ کے لئے فلستیوں کی فوجیں یروشلم سے 25 کلومیٹر دور شوکہ کے مقام پر جمع ہوئیں- دونوں فوجوں کا مقابلہ افسدمیم کے مقام پر ہوا- اب بھی بنی اسرائیل کے پاس تلواروں کی بہت کمی تھی- جنگ سے پہلے فلستیوں کی طرف سے ذرّہ میں ملبوس دیوہیکل جولیت نکلا اور بنی اسرائیل کی طرف سے بادشاہ کے بار بار انعام کے اعلان کے باوجود کوئی نہ نکلا- آخر ایک کم عمر نوجوان کے اصرار پر اجازت دے دی گئی اور بادشاہ نے اپنی ذرّہ اتار کر اُس کو دیدی- نوجوان نے ہتھیار کے طور پر فلاخن کا انتخاب کیا- یہ ایک چمڑے کا پٹہ تھا جس کا ایک سرا ہاتھ سے باندھ دیا جاتا تھا اور دوسری طرف ایک پتھر باندھا جاتا تھا اور چرواہے جنگلی جانوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے اپنے پاس رکھتے تھے- جولیت کی توجہ نوجوان کی لاٹھی پر ہی رہی اور نوجوان نے فلاخن سے پتھر پھینکا جو جولیت کے سر پر لگا اور وہ زخمی ہوکر گر گیا- نوجوان نے بڑھ کر جولیت کی تلوار سے ہی اُس کا کام تمام کردیا- بائبل کے مطابق یہ نوجوان حضرت داؤد تھے جنہوں نے جولیت کو قتل کیا- قرآن کریم میں بھی حضرت داؤد کے جالوت کو قتل کرنے کا ذکر ملتا ہے-
مشرک توہم پرست ہوتا ہے اور جولیت کا قتل اتنا غیرمتوقّع تھا کہ فلستیوں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ بھاگے تو بنی اسرائیل نے پیچھا کرکے بہت کو ختم کردیا- لیکن فلستیوں کی قوت اب بھی باقی تھی اور اُن کی لوہے کی برتری بھی- چنانچہ جنگوں کے ایک سلسلے کے بعد یزرعیل کے مقام پر بنی اسرائیل کو شکست ہوئی- ساؤل اور اُس کا بیٹا بھی مارے گئے- حضرت داؤد اس جنگ میں شامل نہیں تھے بلکہ بہت دور عمالیق قوم سے برسر پیکار تھے- ساؤل کی موت کے بعد اُنہیں بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا گیا- تب بنی اسرائیل کے نئے اتحاد نے فلستیوں کو فیصلہ کن شکست دی اور وہ آئندہ کم از کم سو سال تک سر نہ اٹھا سکے- اس کے بعد بنی اسرائیل کے لئے لوہے کا استعمال کوئی راز نہ رہا اور بنی اسرائیل پیتل سے لوہے کے دور میں داخل ہوگئے-
چنانچہ بائبل میں بنی اسرائیل کو ارض موعود کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ ’’اور تجھ کو کسی چیز کی کمی نہ ہوگی کیونکہ اس ملک کے پتھر بھی لوہے کے ہیں اور وہاں کے پہاڑوں سے تو تانبہ کھود کر نکال سکے گا‘‘- قرآن کریم کے مطابق یہ پیشگوئی حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کے دور میں پوری ہوئی-