بڑھاپے کی آمد اور لمبی عمر کا حصول!
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین جولائی اگست 2015ء)
(مرتبہ: عبادہ عبداللطیف)
حضرت نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ قوی مومن ضعیف مومن سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے‘‘۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مضبوط اعصاب اور اچھی صحت رکھنے والا مومن خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق زیادہ بہتر طور پر اور عمدگی سے ادا کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو جسمانی اور روحانی قویٰ اور صلاحیتیں بخشی ہیں ان کا صحیح استعمال اور انہیں درست حالت میں رکھنا بھی شکرگزاری کا ایک حصہ ہے۔ یوں تو ہرانسان جو ا س دنیا میں آیا ہے اس نے اپنی عمر گزار کر آخر وفات پا کر اس دنیا سے رخصت ہوناہے۔ لیکن طبعی طور پر ہر انسان یہ چاہتاہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ اس پر بڑھاپے کے آثار ظاہر نہ ہوں بلکہ اس کے تمام جسمانی اعضاء تندرست اور سلامت رہیں۔ اور اس کے لئے وہ مختلف قسم کی ورزشیں کرتے اور ادویات بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ اس دَور میں اس موضوع پر کافی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں نیشنل جیوگرافک نومبر 1997ء میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔
مضمون نگار لکھتا ہے کہ ا ب سائنس نے اس میدان میں بھی اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کرنا شروع کر دیا ہے اور بہت سے سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح بڑھاپے کی کنہہ تک پہنچا جائے اور پھر اس عمل کو روکا جائے یا کم از کم آہستہ کردیا جائے۔ پرانے زمانہ میں روم کے رہنے والوں کی اوسط عمر 22سال تھی۔ اب دنیا کی اوسط عمر 65 سال ہے جن میں سیرالیون میں سب سے کم یعنی 38 سال اور جاپان میں سب سے زیادہ یعنی 80 سال ہے۔ لیکن انسان کی اوسط عمر آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور 2030ء تک امریکہ میں 85 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد موجودہ تعداد سے دگنی ہو جائے گی۔
دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں پرعمل درآمد کرنے سے پیدائش کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ جبکہ طبی میدان میں ترقی سے اوسط عمر میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بوڑھوں کی تعداد بڑھی ہے۔ اس طرح معاشرہ میں ایک عدم توازن پیدا ہوا ہے اور بوڑھے اور کمزور لوگوں کونوجوان نسل کی طرف سے ان کے حقوق مناسب طورپر نہیں مل رہے ۔ چنانچہ اب بعض ممالک کی توجہ اس طرف ہوئی ہے اوراس میں پہل سنگاپور نے کی ہے جہاں یہ قانون بنایا گیا ہے کہ والدین قانونی طور پر اپنے بچوں سے اپنی نگہداشت کا حق مانگ سکتے ہیں۔ یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے Tribunal for the Maintenance of Parents کہلاتے ہیں ۔
موجودہ تحقیقات جو بڑھاپے پر ہورہی ہیں ان میں کئی پہلو ایسے سامنے آئے ہیں جن سے انسانی جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کی وضاحت ہوتی ہے ۔ اس میدان میں امریکہ کے شہر بالٹی مور میں National Institute of Aging میں بہت تحقیق ہو رہی ہے۔ ایک بات تو یہ سامنے آئی ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کا دماغ چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نظر ، کان، ناک، زبان،جلد، دل اور ہڈیاں اور عضلات کمزور ہو جاتے ہیں۔ اب سائنسدان اس کوشش میں ہیں کہ معلوم کریں کہ یہ تمام تبدیلیاں جسم میں کیوں نمودار ہوتی ہیں۔ اس کے لئے ایک سائنس دان نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جسم کے Pituitary Gland سے ایک ہارمون HGH (Human growth hormone) نکلتا ہے جس کی مقدار عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک تجربہ میں بارہ آدمیوں کو اس ہارمون کے ٹیکے لگائے گئے توبڑھاپے کے عمل کی رفتار میں نمایاں کمی ہو گئی۔ لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ آن کھڑا ہواکہ بعض منفی اثرات مثلاً اعصابی بیماریاں، چھاتیوں کا مَردوں میں بڑھ جانا اور ذیابیطس جیسی علامات نمودار ہو گئیں اور جیسے ہی یہ ٹیکے بند کئے گئے بڑھاپے کا عمل بڑی تیزی سے دوبارہ شروع ہو گیا۔
پھر سائنس دانوں کی توجہ HGHکے علاوہ دوسرے ہارمونز پر بھی ہوئی۔ ان میں DHEA (یعنی Dehydro Epiendo Stetone) اور Melatonin شامل ہیں۔ اور اب یہ خیال تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ بڑھاپے کا ذمہ دار کوئی ایک ہارمون نہیں ہے بلکہ مختلف قسم کے ہارمونز ہیں۔
بڑھاپے کی ان تحقیقات میں جانوروں پر بھی تحقیق ہو رہی ہے ۔ جانوروں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب تک بعض جانور بچہ جننے کی صلاحیت رکھتے ہیں زندہ رہتے ہیں اورجب ان میں یہ صلاحیت مفقود ہوجائے ان کی طبعی موت آ جاتی ہے۔ جانور وں میں جو مختلف گروہ ہیں ان میں دودھ پلانے والے جانور وں میں انسان کی طبعی عمر سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ شاید معاشرتی زندگی ہے جس میں بڑے بوڑھے چھوٹے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور نوجوان بوڑھوں کو سنبھالتے ہیں۔ انسانوں میں سب سے لمبی عمر پانے کا اعزاز فرانس کیJeanne Calment کو حاصل ہوا جس نے 122 سال کی عمر پائی۔
بڑھاپے کے عمل کو تیز کرنے کے بارہ میں کئی نظریات ہیں جن میں سے ایک Gene Programming کا نظریہ ہے ۔یعنی انسان کے خلیات میں عمر کا پروگرام رکھ دیا گیا ہے اور اسی پروگرام کے تحت بڑھاپے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
ایک دوسرے نظریہ میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ آکسیجن جو ویسے تو حیات کے عمل کے لئے بہت ضروری ہے موت کا پیغام اس صورت میں سامنے لاتی ہے کہ جب خلیات آکسیجن اور غذا سے توانائی حاصل کرتے ہیں تو آکسیجن کے بعض مالیکیول برقی طور پر باردار ہو جاتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل(Free redical) کہلاتے ہیں اور یہ خلیات کے توڑ پھوڑ کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔ نتیجۃً جو آکسیجن حیات بخش ہوتی ہے وہی اپنے جلو میں موت کا سامان لے کر آتی ہے ۔
ماہرین ان مختلف نظریات پر غور کر رہے ہیں اور ان کی تحقیقات میں کچھوے کی بڑی اہمیت ہے۔ کچھوا ایک ایسا جانور ہے جو پچاس سال سے لے کر ایک سو سال تک زندہ رہتاہے اور جب تک زندہ رہتا ہے اس پر بڑھاپا نہیں آتا۔ اور اس کا جسم بڑھاپے کی کمزوری کا شکار نہیں ہوتا، نہ ہی انڈے دینے بند کرتا ہے۔ بلکہ اسی طرح انڈے دیتے دیتے مر جاتا ہے۔
1960ء کی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ ایسے جانور جن کی عمریں لمبی ہوتی ہیں ان میں خلیات کی تقسیم زیادہ ہوتی ہے جبکہ چھوٹی عمر پانے والے جانوروں میں خلیات کی تقسیم کم ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ خیال پیدا ہوا کہ خلیات میں عمر کے خاتمہ کے لئے باقاعدہ پروگرام مرتب ہوتا ہے اور خلیات کی تقسیم کی تعداد مقرر ہوتی ہے۔ کچھوے ایسے جانور ہیں جن کے جسم میں بڑھوتی کا عمل مستقلاً ہوتا رہتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خلیات لمبی عمر کے لئے پروگرام کئے گئے ہیں۔ ا س خیال کے تحت یہ نظریہ کہ بڑھاپے کے لئے خلیات میں باقاعدہ پروگرامنگ ہوتی ہے تقویت پاتا ہے۔
دوسرا نظریہ کہ جسم میں شکست و ریخت کی رفتار جو آکسیجن کی وجہ سے ہوتی ہے بڑھاپے کی ذمہ داری ہو بعض دیگر تجربات سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کچھووں میں میٹابلزم (Metabolism) کی رفتار کم ہوتی ہے اور یہ بھی ان کی لمبی عمر کی ایک وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔ بہت سے ایسے جانور ہیں جن کا میٹابلزم بہت سست رفتار ہے اور وہ لمبی عمر پاتے ہیں ۔لیکن اس کے بالمقابل بعض ایسے پرندے بھی ہیں جو لمبی عمر رکھتے ہیں اور ان کا میٹابلزم بہت تیز رفتار ہے ۔ (غذا کا جزوِ بدن ہونا میٹابلزم (Metabolism)کہلاتا ہے)۔
جانور وں میں ایک تجربہ میں بعض Nematodes پر (جوبے ریڑھ کی ہڈی کے پیٹ میں ملَپ وغیرہ قسم کے کیڑے ہوتے ہیں) تجربہ کیا گیا کہ ان کے تیرہ ہزار Genes میں سے ایک Gene میں تبدیلی کی گئی جس کے نتیجہ میں وہ اپنی اوسط عمر 20 دن کی بجائے 40 دن زندہ رہتے ہیں۔ چنانچہ اس Gene کو Gene-1 کا نام دیا گیاہے۔
ایک اور طریق جس سے Gene کا عمر پر اثر معلوم ہو سکتا ہے اس بات کا مطالعہ ہے کہ کسی آدمی کے والدین کی کتنی عمر تھی۔ طبعی عمر پانے والے والدین کے بچوں کی اس نظریہ کے مطابق عمریں لمبی ہونی چاہئیں۔
بڑھاپے کے عمل کو آہستہ کر نے کے بارہ میں ایک اور تحقیق میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کم کھانے سے عمر لمبی ہوتی ہے ۔ چوہوں پر تجربات میں جب انہیں 60 فیصد کم غذا د ی گئی تو ان کی عمر میں 50 فیصد کا اضافہ ہو گیا۔ اسی طرح کے کامیاب تجربات بندروں پر بھی کئے گئے ہیں۔
ایک اور مطالعہ میں ورزش کا جسم پر اثر بھی بڑھاپے کے عمل کو کم کرتا ہے۔ اور اس سے وہی فائدہ ہوتا ہے جو HGHکے ٹیکے لگانے سے ہوتا ہے۔ لیکن ورزش سے میٹابلزم بھی تیز ہوتا ہے اور آکسیجن کے فری ریڈیکلز زیادہ تیزی سے بنتے ہیں جو خلیات کی شکست و ریخت کا موجب ہو جاتے ہیں۔ مگر قدرت نے اس کا انتظام اس طرح کیا ہے کہ بعض ایسے کیمیکلز جسم میں پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو ان فری ریڈیکلز کو جذب کرکے ان کے نقصان دہ اثرات سے جسم کو بچاتے ہیں۔ ان میں بعض خامرے (Enzymes) مثلاً Superoxide Dimutase, اور Catalase شامل ہیں جو جسم خود تیار کرتا ہے۔ ان کے علاوہ وٹامن ’سی ‘اور’ای‘ کا بھی یہی کام ہے۔
ایک مطالعہ میں ہفتہ میں صرف دو بار ورزش کرنے سے بوڑھوں میں بہت مفید نتائج ظاہر ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
یہ مقولہ کہ ’استعمال کرو یا ضائع کر دو‘ درست ہے۔ بڑھاپے کے عمل کوروکنے کے لئے دماغ اور جسم دونوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ معاشرہ میں جہاں بوڑھوں کے گرد دوست احباب زیادہ موجود ہوں اورمشکل حالات میں ایک دوسرے کے کام آنے والے ہوں وہاں تنائو کے ہارمون (Stress Harmones) کم پائے گئے ہیں جو بڑھاپے کے عمل کو تیز کرنے کا موجب ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از نیشنل جیوگرافک نومبر 1997ء)
ان تمام تحقیقات سے اسلامی تعلیم کی خوبصورتی بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہ تعلیمات انسان کی روحانی ہی نہیں جسمانی صحت اور نشوونما کے لئے بھی کیسے اعلیٰ درجہ کی ہیں اورکس طرح انسان کی مادی و ظاہر ی خیر اور بھلائی اور فلاح و بہبود کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ مثلاً یہ ہدایت کہ حلال اور طیب کھائو، کھائو اور پیو مگر اسراف نہ کرو، حد سے آگے نہ بڑھو، حضرت نبی اکرم ﷺ کی ہدایت ہے کہ ابھی بھوک باقی ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لو ۔ یہ سب انسان کے فائدے کی نصیحتیں ہیں۔ نماز، روزہ عبادات روحانی ہی نہیں بلکہ جسمانی فوائد بھی رکھتی ہیں۔ والدین خصوصاً بوڑھے والدین سے محبت اور حسن سلوک کی خاص تاکید بھی ہمارے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ دماغی صلاحیتوں کو بڑھاپے کے بداثرات سے بچانے کے لئے یہ ہدایت کیسی واضح ہے کہ مہد سے لحد تک علم حاصل کرو۔ پھر اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو آہستہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے بداثرات سے بچا تو جا سکتا ہے لیکن ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُالْمَوْت‘ بھی ایک حقیقت ہے او ر موت سے کسی کو مفر نہیں ۔ البتہ انسان کے لئے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے نتیجہ میں یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی اجل مسمّیٰ کو پہنچ جائے اور اس سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ (بشکریہ الفضل ربوہ)
بڑھاپے کا عمل آہستہ کرنے کی سعی کرنے کا ایک مقصد دراصل عمر میں اضافہ کرنے کی خواہش بھی ہے۔ اسی طرح لمبی عمر کے ساتھ ساتھ آخری سانس تک صحت و توانائی کا حصول بھی ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ اپنی غذا اور ورزش وغیرہ سے بھی مدد لیتا ہے۔ اسلام نے اسی لئے حلال اور طیّب غذا کے استعمال پر زور دیا ہے کیونکہ حرام غذا انسانی جسم کے لئے نقصان کا باعث ہوتی ہے جبکہ حلال اور طیّب غذا کو انسان کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی نشوونما کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں غذاؤں کے انسانی نفسیات اور روحانیت پر اثرات کے بارہ میں بھی انکشافات فرمائے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں غذا کا حصول ہی باعث برکت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح لمبی عمر کے حصول کے بارہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک آسان طریقہ بیان فرمایا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں:
’’عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفا داری کے ساتھ اعلائے کلمہ دین حق میں مصروف ہوجاوے اور خدمت دین میں لگ جاوے اور آجکل یہ نسخہ بہت ہی کام کرتا ہے کیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔‘‘