بہادر بیٹا ناصر محمود شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2010ء میں مکرمہ ع۔عارف صاحبہ نے سانحہ لاہور میں شہید ہونے والے اپنے بیٹے مکرم ناصر محمود صاحب کا مختصر ذکرخیر کیا ہے اور شہدائے لاہور کی ربوہ میں تدفین کے موقع پر اہل ربوہ کے جذبات کی منظرکشی کرنے کی کوشش کی ہے۔
آپ رقمطراز ہیں کہ لاہور سے لائے جانے والے ہر شہید کو موٹر وے سے اترتے اور پھر ربوہ داخل ہوتے ہی والہانہ طور پر خوش آمدید کہنے والے چہروں پر طمانیت، صبرورضا کا اظہار دکھائی دیا۔
اے اہل ربوہ! تمہارے آنگن میں کھلنے والے پیارے بچوں نے پیار کی زنجیر بنا کر ہمارے پیاروں کو لے لیا۔ ہونٹوں پر پپڑی جمے ہاتھوں میں جگ اور گلاس لئے ہر آنے والے کو پانی پیش کر رہے تھے۔ یہ کیسا خوش آمدید کا منظر تھا۔ خاموش نگاہیں، بہتے آنسو، آنکھوں میںکئی سوال۔ ہر دکھی دل محسوس کررہا تھا۔ خاموشی کی یہ زبان سب کچھ کہہ گئی: یہ میرا بھی دکھ ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔ یہ میرا بھائی ہے۔ یہ والدین کا سہارا ہے۔ یہ میرے سر کا تاج ہے۔ یہ پیارے بچوں کا سائبان شفقت بھرا ہاتھ ہے۔ یہ پیاری بہنوں کا مان ہے یہ پُرخلوص دوست ہے۔ دوستوں کا مان ہے۔ یہ میرا پیارا بیٹا ناصر محمود شہید ہے جسے تم نے پھولوں کی طرح سنبھالا۔ یہ میری گود کا پالا ہوا پھول۔ اہل ربوہ میرے پیارے ناصر کی طرح ہر ناصر کا استقبال کررہے تھے۔ ان کی خاموش نگاہیں کہہ رہی تھیں۔ اے اہل لاہور! اے لاہور سے آنے والو لہو و نور سے نہا کر آنے والو تم ہمارے جسم ہمارے وجود کا حصہ ہو۔ ہم سب ایک ہیں۔ ہمارا دکھ، ہمارے بہتے آنسو، ہماری سسکیاں اور ہمارے زخم ایک ہیں۔ شہید ناصر محمود کا چمکتا چہرہ بند آنکھیں کہہ رہی تھیں: امی! ایسا استقبال تو مقدر والوں کا ہوتا ہے۔
مطمئن پُرسکون نیند سویا ہوا۔ باپ تعارف کرا رہا تھا۔ میراشیر۔ میرا لعل۔ اس نے سینے پر گولی کھائی۔ اس نے اپنی جان دے کر کئی جانیں بچائی ہیں۔ یہ میرا ناصر آج اتنا پیارا اور خوبصورت لگ رہا ہے کہ اتنا پیارا پہلے کبھی نہ تھا۔ میرا ناصر ماں کا لخت جگر آخری منزل کی طرف رواں دواں۔ قدم من من بھر کے ہوگئے۔ اٹھ ہی نہیں رہے۔ مگر آخری دیدار یہی تصویر تو زندگی کے آخری سانس تک آنکھوں میں بسی رہے گی۔ پیارے ناصر کے ساتھ ساتھ کئی شہداء سب کے چہروں پر وہی سکون۔ سب کے چمکتے چہرے۔ جم غفیر نے جنازہ پڑھا۔ اعلان ہوا۔ پیارا ناصر اپنی منزل کی طرف جارہا تھا۔ ربوہ کے پیارے اطفال نے وہاں بھی استقبال کیا۔ پانی ہر ایک کو پیش کیا جارہا ہے۔ ہر آنکھ سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ ہر سانس ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کررہی ہے۔ قطار اندر قطار یہ جنتی وجود، یہ پاکیزہ روحیں اپنی آخری آرام گاہ میں جا پہنچیں۔
پیارا بیٹا ناصر محمود صبح غسل کرکے نیا لباس شرٹ پتلون اور نئے ہی بوٹ پہن کر گھر سے نکلا، یاد آیا پرفیوم نہیں لگایا، واپس آکر پرفیوم لگایا۔ بھائی کے ساتھ دفتر سے نماز جمعہ کے لئے مسجد گیا۔ اپنی طرف بڑھتے ہوئے ہینڈ گرنیڈ کو دیکھ کر اتنا فوری فیصلہ کر ڈالا۔ اپنی جان بچانے کی بجائے کئی گھروں کو اجڑنے سے بچالیا۔ آگے بڑھا اور ہاتھ سے گرنیڈ کو واپس اسی طرف پھینکنے کی کوشش کی مگر گرنیڈ پھٹ جانے کے نتیجے میں شہادت کا رتبہ پاگیا اور اس طرح بہادری کا نشان بن گیا، اپنے خاندان کی تاریخ بن گیا۔
ناصر شہید کا بھائی خود زخمی ہونے کی وجہ سے بھائی کو کندھا نہ دے سکا۔ جنازہ نہ پڑھ سکا۔ ناصر شہید پیارے پیارے پھول جیسے بچے ساتھ تھے۔ جھکی کمر سے باپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ اور بہتے آنسوؤں سسکتی آہوں سے الوداع کیا۔
یہ ربوہ کے باسی فرشتے نما انسان جنہوں نے ایک رات میں قطار اندر قطار شہداء کی آرام گاہیں بنا دیں۔ تابوت، سفید لباس اور ان کے ناموں کی پلیٹیں بنا دیں۔ ان کے عزیز و اقارب کے لئے شامیانے اور کرسیاں لگا دیں۔ جنازہ کے لئے وسیع لان کھول دیئے۔ یہ سب اتنی جلدی کیسے ہوا یہ انسانی طاقت سے باہر ہے، ایک قبر کھود کر گورکن تھک جاتا ہے اور یہاں ایک سو قبریں۔ ہر خادم نے اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کیا، اپنی طاقت سے اپنی جرأت اور خلوص و محبت سے یہ سب کام ہوا۔ اتنا مکمل اور وسیع انتظام اتنی مکمل تنظیم، مکمل وجود۔ انہیں کون شکست دے سکتا ہے۔ یہ انسان خدا کو ماننے والے ہی نہیں بلکہ خدا پر مکمل یقین رکھنے والے، اس کے سامنے گڑگڑانے والے وجود ہیں۔
ہمارے شہید اپنے لہو سے وہ چراغ روشن کر گئے ہیں۔ جنہیں مؤرخ برسوں یاد رکھے گا۔ ہر گھر کی تاریخ وہاں سے شروع ہوگی۔ ہر نسل فخر سے ذکر کرے گی۔ ہر بیوہ وقار سے جئے گی۔ ہر یتیم خودداری سے زندگی گزارے گا۔ ہر بہن مان سے اور ہر بھائی دوسرے کے لئے جئے گا۔ والدین کا عصا آنے والی نسلیں بنیں گی۔ یہ داستانیں آنے والی نسلیں سنیں گی اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔