تخت ہزارہ کے پانچ روشن ستارے
ربوہ سے ساٹھ کلومیٹر دور ضلع سرگودھا میں تخت ہزارہ واقع ہے جو پنجاب کی لوک داستانوں میں رانجھے کا گاؤں شمار ہوتا ہے۔ کُل آبادی قریباً چار ہزار ہے اور یہاں احمدیوں کے قریباً ساٹھ گھر ہیں۔ ایک فراخ احمدیہ مسجد ان احمدیوں کی روحانی تربیت کا مرکز ہے۔ کچھ سال پہلے ملاّ اطہر شاہ نے یہاں احمدیوں کے خلاف مقدمہ بازی کے ساتھ ساتھ گالی گلوچ اور سب و شتم کا بازار گرم کردیا۔ آخر 10؍نومبر 200ء کو عصر کے بعد وہ ایک جلوس لے کر احمدیوں کے گھروں کے باہر گالیاں دیتا اور دلآزار نعرہ بازی کرتا ہوا احمدیہ مسجد پہنچا۔ عشاء کی نماز کے بعد ایک منصوبہ کے تحت جب گاؤں کی دیگر چار مساجد میں یہ جھوٹا اعلان ہوا کہ احمدیوں نے اطہر شاہ کو قتل کردیا ہے تو گاؤں کے دو اڑہائی سو مسلح افراد نے پولیس کی موجودگی میں احمدیہ مسجد پر حملہ کردیا۔ چار احمدی موقع پر شہید ہوگئے جن کے چہرے کلہاڑیوں سے مسخ کرکے اُن کی لاشوں کو گھسیٹ کر چھت پر سے نیچے گلیوں میں پھینک دیا گیا۔ ایک زخمی ہسپتال جاکر شہید ہوگئے۔ مسجد کو بھی شہید کرکے آگ لگادی گئی۔ اس سانحہ کے بارہ میں محترم یوسف سہیل شوق صاحب کے قلم سے ایک تفصیلی رپورٹ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 و 14؍دسمبر 2000ء میں شامل اشاعت ہے۔
محترم ماسٹر ناصر احمد صاحب
آپ جماعت تخت ہزارہ کے امیر اور سیکرٹری مال تھے اور ہنگامہ کے وقت مسجد کی چھت پر پہرہ دے رہے تھے۔ ہمسایہ مکانوں سے عورتوں نے جلوس کے تیور دیکھ کر اُنہیں کہا کہ وہ بھاگ کر اپنی جان بچالیں تو انہوں نے جواب دیا کہ مَیں ہرگز یہاں سے نہیں جاؤں گا، آج ہی تو قربانی کا وقت ہے۔
آپ کی عمر 38 سال تھی، ایک مڈل سکول میں ٹیچر تھے۔ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ تہجد گزار اور جماعتی کاموں میں پیش پیش تھے۔ کئی بار ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ شہادت کے روز انہوں نے خطبہ جمعہ میں حالات کا ذکر کرکے جماعت کو بہت سی نصائح کیں اور یہ بھی کہا کہ اگر قربانی دینے کا وقت آیا تو سب سے پہلے مَیں قربانی دوں گا۔
آپ کی والدہ نے بتایا کہ آپ بہت نیک، نیک بخت اور فرمانبردار بچے تھے۔ آپ کی اہلیہ نے بتایا کہ دنیا سے ایک دن یوں بھی چلے جانا ہے، مَیں خوش نصیب ہوں کہ خدا نے میرے سرتاج کو یہ رتبہ عطا فرمایا۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ مَیں بچوں کو اس لئے ساتھ زیادہ نہیں لگاتا کہ میرے بعد مجھے یاد کرکے اداس نہ ہوں۔ بہت لمبی نمازیں پڑھتے تھے۔ میرے دل میں وہم آتا کہ ایسے لوگوں کو خدا جلد بلالیا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اولاد نہ ہوتی تھی۔ ہم نے یہ کہہ کر خدا سے اولاد مانگی کہ اسے تیری راہ میں وقف کریں گے چنانچہ دونوں بچے واقف نو ہیں۔
محترم نذیر احمد صاحب رائے پوری
آپ کی عمر 65 سال تھی، زمیندارہ کا کام کرتے تھے، پنجوقتہ نمازیں مسجد میں ادا کرتے اور فارغ وقت بھی وہیں گزارتے۔ بہت شفیق آدمی تھے اور دعوت الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے۔ غیرازجماعت بھی آپ کی تعریف کرتے تھے۔
محترم عارف محمود صاحب
آپ محترم نذیر احمد صاحب رائے پوری شہید کے فرزند تھے۔ تیس بتیس سال عمر تھی۔ مسجد کی دکانوں میں تیل کی ایجنسی چلاتے تھے۔ خدام الاحمدیہ میں معتمد اور ناظم اصلاح و ارشاد تھے۔ دعوت الی اللہ کے شوقین اور دین کی غیرت رکھتے تھے۔ آپ نے امیر صاحب کی ہدایت پر ہنگامہ کے شروع ہونے سے نصف گھنٹہ پہلے اپنے گھر جاکر پولیس کو فون کیا اور اُس وقت اپنی بیوی سے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر جان قربان کرنے کا وقت آیا تو دیکھ لینا، مَیں سب سے پہلے جان قربان کروں گا۔ یہ کہہ کر وہ بھاگتے ہوئے مسجد چلے گئے۔ راستہ میں کئی لوگوں نے روکا لیکن آپ نے جواب دیا کہ اب آگے جانے کا وقت ہے، پیچھے جانے کا نہیں…۔ سب سے پہلے شہید ہونے کا اعزاز آپ کو حاصل ہوا۔ آپ کی اہلیہ نے بتایا کہ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ دعا کرو خدا مجھے اپنے دین کے لئے کچھ کرنے کا موقع دے، مجھے فخر ہے کہ مَیں ایک شہید کی بیوہ ہوں۔
عزیزم مبارک احمد
آپ محترم جمال الدین صاحب کے بیٹے تھے، آپ کی عمر پندرہ سال تھی اور دسویں جماعت کے طالبعلم تھے اور ناظم اطفال تھے۔ نماز میں باقاعدہ اور جماعتی کاموں میں شوق سے حصہ لیتے تھے۔ مشتعل ہجوم سے ڈرنے کی بجائے دیوانہ وار مسجد کی طرف دوڑتے ہوئے پہنچے اور جان قربان کردی۔
عزیزم مدثر احمد
آپ نویں جماعت کے طالبعلم تھے اور میٹرک کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے خواہش مند تھے۔ بہت لائق تھے اور ہر جماعت میں اوّل آتے تھے۔ آپ کے والد مکرم منظور احمد صاحب کاشتکاری اور آڑھت کا کاروبار کرتے تھے جو ملاّ اطہر شاہ کی وجہ سے ٹھپ ہوچکا تھا۔ ہنگامہ کے دن عشاء کی نماز اپنی والدہ کے ساتھ مسجد جاکر پڑھی اور پھر والدہ کو گھر چھوڑ کر خود مسجد کی طرف چلے گئے۔ راستہ میں دوستوں نے روکا لیکن آپ نے جواب دیا کہ مَیں خدا کے گھر کی حفاظت کروں گا اور واپس نہیں جاؤں گا۔ آپ کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ آپ کے والد نے بڑے عزم سے کہا کہ میرے باقی بچے بھی راہِ خدا میں شہید ہوجائیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔
اسی طرح دو اَور احمدی جو بھائی ہیں، مختار احمد صاحب اور خالد احمد صاحب، مسجد کی طرف دوڑے لیکن راستہ میں مخالفین کے قابو میں آگئے۔ خالد صاحب کو شدید زخمی کردیا گیا اور مختار صاحب بھی زخمی ہوئے لیکن خود کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح ایک 75 سالہ احمدی بزرگ بھی پہرہ دینے کے لئے مسجد کی طرف آرہے تھے کہ ہجوم نے اُن کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور اپنی طرف سے مار کر اُنہیں پھینک دیا۔ وہ بھی ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ ایک احمدی مکرم وسیم احمد صاحب جو مسجد کی چھت پر تھے اور حملے کے دوران زخمی ہوکر مربی ہاؤس کے لان میں نرم زمین پر تاریکی میں گر گئے اور بچ گئے۔ انہوں نے بعد میں گلوگیر آواز میں کہا کہ مَیں بدقسمت تھا جو راہ مولا میں قربان ہونے سے محروم ہوگیا۔
حملہ آور جب مسجد کو آگ لگانے کے بعد بھاگ گئے تو پولیس نے مسجد کی ناکہ بندی کرلی اور کسی احمدی کو مسجد کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی۔ ایسے میں چند احمدی عورتیں جرأت کرکے مسجد تک پہنچ گئیں اور آگ بجھانے میں کامیاب ہوگئیں۔ انہوں نے پولیس والوں کی منت سماجت کی کہ وہ انہیں شہداء کے چہرے دیکھنے دیں لیکن یہ اجازت نہ ملی اور انہیں سختی سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ لیکن ان شہادتوں کے بعد بھی بچ رہنے والے جوان افسوس کرتے ہیں کہ ہم بدقسمت شہادت کا رتبہ نہ پاسکے اور اگر پھر کبھی موقع ملا تو ہم اپنے بھائیوں سے ملنے میں کوتاہی نہ دکھائیں گے۔