تعارف کتاب : ’’گُلہائے محبت‘‘


(فرخ سلطان محمود)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22 فروری 2019ء)
سرورق : گُلہائے محبت (اردو)
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی حسین یادیں
مصنّفہ : حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (اُمّ متین)
مرتّب: مکرم سیّد غلام احمد فرخ صاحب
پبلشر : اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ
شائع شدہ : لندن
ایڈیشن : اوّل
تاریخ طباعت: 2018ء
تعداد صفحات: 115
قیمت : 1£ ۔ ایک پاؤنڈ سٹرلنگ (برطانیہ میں)

آج مجھے ایک مختصر مگر نہایت خوبصورت اور محبتوں سے پُر کتاب کا تعارف کروانے کی سعادت حاصل ہورہی ہے جس میں ایک ایسے بابرکت وجود کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جس کے بارہ میں خبریں صحفِ سابقہ میں ہزاروں سال سے محفوظ چلی آتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس وجود باسعود سے متعلق اصدق الصادقین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی یہ پیش خبریاں سینکڑوں سال سے محفوظ ہیں۔ اور پھر گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کے دوران میں آنے والے اولیائے اُمّت بھی اس کی خوشخبری کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں۔ اور پھر اُس عظیم المرتبت وجود، امام الزّمان سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند دلبند اور گرامی ارجمند کے جو فضائل حسنہ پیشگوئی مصلح موعود میں بیان کئے گئے ہیں اُن سے ایک ایسے مطہّر وجود کی تصویر سامنے آتی ہے جو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایسے روحانی مراتب عالیہ پر فائز ہوگا اور گویا مَظْھَرُالْحَقِّ وَالْعَلآء کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ کا نمونہ ہوگا اور آسمانی تائیدات اُس کی ذات اقدس میں اپنی بھرپور شان کے ساتھ جلوہ گر نظر آئیں گی اور ایک عالَم کو گواہ ٹھہرائیں گی۔

فرخ سلطان محمود

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مصلح موعود جیسے عظیم الشان منصب پر فائز ہونے والی ذی جاہ شخصیت کے بارہ میں لب کشائی کرنے اور اُس کے عالیشان مناقب اور فضائل حسنہ پرکچھ رقم کرنے سے تو ایک ماہرِ گفتار اور پختہ قلمکار بھی خود کو زبان و بیان میں عاجز، قلّتِ الفاظ سے دوچار اور اظہار میں بے بس پائے گا۔
A5 سائز کے محض 115 صفحات پر مشتمل اور درجن بھر عناوین سے مرصّع ’’گُلہائے محبت‘‘ ایک مختصر سی کتاب ہونے کے باوجود اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں ایسے وجود کے اخلاقِ فاضلہ کا بیان ہے جس کا غیرمعمولی روحانی مقام تاریخِ عالم اور اسلامی تاریخ کا ایک اَنمول حصہ بن چکا ہے۔ یہ کتاب سیرت کے حوالے سے لکھی جانے والی کتب میں اس لئے بھی ممتاز مقام رکھتی ہے کہ یہ صرف سنی سنائی یا پہلے سے محفوظ روایات پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ محبت کرنے والی ایک بیوی کا اپنے ذی شان خاوند کے لئے براہ راست مشاہدات کا اظہار ہے۔ گویا اخلاق حسنہ سے مزیّن اور خدمت کے لئے ہمہ وقت کمربستہ ایک زوجہ کا اپنے اُس خاوند کے لئے خراج تحسین ہے جس کی زندگی میں ہر دنیاوی محبت کے پس پردہ محض عشق حقیقی ہی کارفرما رہا۔
اس کتاب کی اہمیت و افادیت سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کی روشنی میں بھی غیرمعمولی ہوجاتی ہے۔ جو آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں…‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 418)
’’گُلہائے محبت‘‘ حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (المعروف حضرت چھوٹی آپا) کے (مطبوعہ اور غیرمطبوعہ) رَشحات قلم ہیں جنہیں (حضرت سیّدہ چھوٹی آپا کے نواسے) برادرم مکرم سیّدغلام احمد فرخؔ صاحب نے نہایت محبت اور محنت سے اکٹھا کرکے افادۂ عام کے لئے کتابی صورت میں شائع کرنے کی توفیق پائی ہے۔ آپ نے اس کتاب کو اپنی مرحومہ والدہ محترمہ امۃالمتین بیگم صاحبہ (جو محترم سیّد میر محمود احمد صاحب کی اہلیہ تھیں) کے نام معنون کیا ہے۔ مرتّب نے کتاب کا اختتام اپنے ہی ایک مضمون پر کیا ہے جس میں حضرت سیّدہ چھوٹی آپاؒ اور سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت کے چند نئے پہلو روشن نظر آتے ہیں۔

سیّد غلام احمد فرخ صاحب

’’عقیدت کے یہ چند پھول‘‘ انتہائی سادہ اندازِ بیاں اور شستہ و رواں تحریر میں پیش کئے گئے ہیں۔ روزمرّہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو قلمبند کرکے بیان کرنے کا انداز ایسا بے تکلّفانہ، عام فہم اور مؤثر ہے کہ جس کے لفظ لفظ سے سچائی کی ایسی خوشبو آتی ہے کہ تصنّع کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ حضورؓ کی مقدّس سیرت پر اظہار خیال کرنے والی ہستی کا اسم گرامی ہی ’’مریم صدیقہ‘‘ تھا اور جنہیں حضورؓ نے شادی کے بعد ہمیشہ اُن کے دوسرے نام ’صدیقہؔ‘ سے ہی یاد فرمایا۔ (گلہائے محبت صفحہ 16)
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی اپنے ربّ کے حضور عاجزانہ اداؤں اور التجاؤں کے ساتھ ساتھ اپنے جاں نثار غلاموں کے لئے پُرشفقت دعائیں اور آرزوئیں اس کتاب کے ہر ورق پر گلہائے رنگارنگ کی صورت جلوہ افروز نظر آتی ہیں۔ اس کتاب کے مضامین پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے قبل حضرت سیّدہ چھوٹی آپا کی زبان سے ہی اُس احسانِ عظیم کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں جو خداتعالیٰ نے ایک پاک و نورانی وجود، قدرت و رحمت اور قربت کے نشان اور مثیل مسیح کی زوجیت میں لاکر آپؒ پر کیا۔ حضرت سیّدہ چھوٹی آپاؒ کی عمر شادی کے وقت سترہ سال تھی۔ آپؒ فرماتی ہیں:

چُن لیا تُو نے مجھے ’’ابن مسیحا‘‘ کے لئے
سب سے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا

یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے جو آپؑ نے بزبان حضرت اُمّ المومنینؓ فرمایا تھا۔ ’’اپنے مسیحا‘‘ کی جگہ ’’ابن مسیحا‘‘ لگاکر مَیں بھی جتنا خداتعالیٰ کا شکروں کم ہے۔ …… مَیں کیا اور میری ہستی کیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ اُس کے احسان اور انعام کا تصوّر کرکے بھی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سر آستانہ الُوہیت پر جھک جاتا ہے اور منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے:

مَیں تو نالائق بھی ہوکر پا گیا درگہ میں بار

(گلہائے محبت صفحہ 12)

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سیّدنا مصلح موعودؓ کی ذات گرامی جسے خداتعالیٰ نے زکی غلام فرماتے ہوئے اپنا قرب خاص عطا کرنے کی بشارت دی تھی، واقعتاً زندگی بھر اپنے پیارے ربّ پر توکّل کا ایسا نمونہ تھی جس نے دیکھنے والوں کے دلوں کو بھی ایمان اور ثباتِ قدم میں روزافزوں بنائے رکھا۔ حضرت سیّدہ چھوٹی آپا بھی اُن خوش قسمت افراد میں سے تھیں جنہوں نے سراپا متوکّل اور کامل الایمان وجود کے حُسن و احسان کے پُرکیف نظارے شب و روز ملاحظہ کئے اور پھر ہماری تقویّتِ ایمان کے لئے اپنی زبان و قلم سے اُن کا اظہار بھی فرمادیا۔ حضرت سیّدہ تحریر فرماتی ہیں:
اللہ پر جو حضرت مصلح موعودؓ کو ایمان تھا، اس کی ابتدا بیان کرتے ہوئے آپؓ خود فرماتے ہیں کہ ’ 1900ء میں جب مَیں گیارہ سال کا ہوا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خداتعالیٰ پر ایمان کیوں لاتا ہوں؟ مَیں دیر تک اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچے کو اُس کی ماں مل جائے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہوگیا۔ مَیں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اُس وقت مَیں بچہ تھا اب مَیں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔‘
تاریخ خلافتِ ثانیہ شاہد ہے کہ آپؓ کسی بڑے سے بڑے ابتلاء پر نہیں گھبرائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو الہاماً بتادیا کہ آپؓ ہی مصلح موعود ہیں تو آپؓ نے فرمایا: خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ مَیں محمد رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔ دنیا زور لگالے، وہ اپنی طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کرلے، عیسائی بادشاہ بھی اور اُن کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہوجائے، پھر بھی مَیں خداتعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیامیٹ کردے گا۔

(گلہائے محبت صفحہ 21-23)

مذکورہ بالا الفاظ میں سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ، دعوت الی اللہ کی اُس جوت کا بھی اظہار فرمایا ہے جو خداتعالیٰ نے آپؓ کے دل میں لگائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انسانی نفسیات کا بہترین ادراک رکھنے والوں میں سے شامل اس بابرکت وجود نے غلامانِ مسیح میں عشق و ولولہ کی اس تپش کو منتقل کرنے کے لئے بے شمار عملی اقدامات فرمائے جن میں سے ایک ذیلی تنظیموں کا قیام بھی ہے۔ مظلوم طبقہ نسواں کے حقوق کے لئے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے کارہائے نمایاں کے اثرات تو قیامت تک جاری و ساری رہیں گے۔ لیکن احمدی خواتین کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے دعوت الی اللہ کے عملی جہاد میں پیش قدمی کرنے کا جو شعور آپؓ نے عطا فرمایا وہ آپؓ کے ایسے کارہائے نمایاں میں سے ایک ہے جس کے نتیجہ میں اسلام احمدیت کی دائمی فتوحات کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہے۔ خوشگوار عائلی زندگی اور آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت کے حوالہ سے آپؓ کے ارشادات اور گرانقدر واقعات میں سے نہایت ادب کے ساتھ ایک انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔ یہ انتخاب اس حقیقت کا بھی غمّاز ہے کہ سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق حسنہ ہر پہلو سے اپنی خداداد نفسی طاقتوں کی انتہا تک پہنچے ہوئے تھے۔ اور آپؓ کے قلبِ مطہّر میں محبتِ الٰہی ایسی جاگزیں تھی جو اِس پاک نفس کی زندگی کے ہر زاویہ میں جھلکتی تھی۔ آپ ؓ نے عورتوں کو بارہا اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ تمہارا مقصد دینی تعلیم حاصل کرنا ہونا چاہئے تاکہ دین کی اشاعت میں تمہارا حصہ ہو۔ جب شادی ہو تو اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت ہو۔ آپ نے اُن کو قرآن مجید، احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنے اور امور خانہ داری سے واقفیت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا: ’’ایک عورت ہے جو اپنی عمر کو ریاضی کے مسئلے سیکھنے میں گزار دے اور بچوں کی تربیت اور خانہ داری کے فرائض کو چھوڑ دے تو اُسے عقلمند یا علم سیکھنے والی کون کہے گا۔ مرد تو ایسا علم سیکھنے کے لئے مجبور ہے کیونکہ اس نے روزی پیدا کرنی ہے۔ مگر عورت کو ریاضی کے سوال حل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ علم نہیں یہ جہالت ہے۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ 44)
لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا حقیقی مقصد بیان کرتے ہوئے حضورؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’تعلیم جو تم پاتی ہو اس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے۔ اگر نوکری کروگی تو بچوں کو کون سنبھالے گا؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیت بد ہوتی ہے۔ … جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر ان کے لئے رشتے ملنے مُشکل ہوجاتے ہیں۔ ہاں اگر لڑکیاں نوکریاں نہ کریں اور پڑھائی کو صرف پڑھائی کے لئے حاصل کریں۔ اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کرلیتی ہے تو ہم قائل ہوجائیں گے کہ اس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘

(گلہائے محبت صفحہ 48)

یہ کتاب بلاشبہ اُن کتابوں میں سے ایک ہے جن میں قاری کی دلچسپی ابتداء سے آخر تک یکساں برقرار رہتی ہے۔ قلیل الحجم ہونے کے باوجود ایک ہی نشست میں اس کتاب کا مکمل مطالعہ اس لئے مشکل ہے کہ بہت سے مقامات پر پڑھنے والا ایسی پاکیزہ ہستیوں کی یادوں کے دریا میں خود کو ڈوبا ہوا پاتا ہے جس سے نکلنے کی سعی کرنے کے بجائے اس میں ڈوبتے ہی چلے جانے کو جی چاہتا ہے۔ گھریلو ماحول میں حضور اقدسؓ کے بے تکلّفانہ انداز معاشرت، حسِ مزاح، خدمت خلق اور دین کی خدمت کی تڑپ کی تصویر کشی کرتے ہوئے حضرت سیّدہ چھوٹی آپاؒ نے متعدد واقعات بیان فرمائے ہیں۔ آپؒ فرماتی ہیں:
٭ ایک دفعہ میرا اور حضور کا کھانا پکانے کا مقابلہ ہوا۔ کھانا تیار ہونے پر مَیں نے حضورؓ کو کہا کہ میری sauce آپ کی sauce سے زیادہ اچھی ہے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ واقعی تمہاری ساس (حضرت امّاں جانؓ) میری ساس سے زیادہ اچھی ہیں۔ (گلہائے محبت صفحہ 95)
٭ اسی طرح ایک مرتبہ میرا اور حضورؓ کا دال پکانے کا مقابلہ ہوگیا۔ مَیں نے عام روایتی طریق سے دال پکائی لیکن حضورؓ نے مرغی کی یخنی میں دال پکائی جو ظاہر ہے بہت مزیدار تھی۔ جب کہا گیا کہ اس طرح تو ہم بھی بناسکتے تھے تو حضورؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا تو پھر بنالینی تھی!۔(ایضاً صفحہ 95)
٭ عام طور پر ہومیو یا دیسی طبیب اپنی دوائی کے ساتھ انگریزی دوائی کھانے سے منع کردیتے ہیں۔ آپؓ کا یہ طریق نہ تھا۔ فرماتے تھے: سب کھاؤ جو طریقِ علاج پسند ہو۔ شفا تو اللہ تعالیٰ نے دینی ہے۔ اپنے سب بچوں کے متعلق خواہش تھی کہ طب اور ہومیو پیتھک طریق علاج سیکھیں، خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ حکمت کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ سب کو سیکھنی چاہئے یہ ہمارا خاندانی علم ہے۔ مجھے کچھ عرصہ ہومیوپیتھک پڑھائی۔ اکثر مستورات دوائی لینے آتی رہتیں۔ ان کی علامات توجہ سے سنتے اور دوائی بتاتے۔ بعض دفعہ مصروف ہوتے تو مجھے ارشاد ہوتا کہ سب علامات نوٹ کرو پھر کتاب میں سے دوائی دیکھ کر مجھ سے مشورہ کرلو۔ (ایضاً صفحہ 82-83)
٭ عطر بنانا آپ کا ایک محبوب شغل تھا۔ ناک کی حس اتنی تیز تھی کہ عطر سونگھ کر بتادیتے تھے کہ اس میں کیا اجزاء ہیں۔ ایک دفعہ فرمایا کہ مَیں دودھ کا گھونٹ پی کر بتاسکتا ہوں کہ بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے۔ (ایضاً صفحہ 83)
٭ زمیندارہ سے دلچسپی خاندانی چیز تھی۔ سب پیشوں میں سے آپ کو یہی پسند تھا اور اکثر اس کا اظہار فرماتے کہ میری خواہش ہے میرے بچے دین کی خدمت کریں اور ساتھ زمیندارہ کریں، آزاد پیشہ ہے، اس کے ساتھ خدمت دین کی طرف پوری توجہ دے سکتا ہے۔ (ایضاً صفحہ 83)
حضرت سیّدہ چھوٹی آپاؒ کا ساری جماعت احمدیہ پر اور خصوصاً آنے والی نسلوں پر یہ احسان ہے کہ اگرچہ ہم اپنی ظاہری آنکھوں سے اُس بابرکت وجود کو نہیں دیکھ پائے لیکن اس کتاب کے مطالعہ نے بارہا ایسی تصویرکشی کردی کہ ذہن و روح میں شاید وہی نقشہ جاری ہوگیا جس کے زیراثر حضرت سیّدہ نے تربیت اولاد کے حوالہ سے کئی اہم واقعات رقم کئے ہیں۔ مثلاً آپ لکھتی ہیں:
٭ کئی دفعہ انتہائی مصروفیت کے باوجود بچوں کو گود میں اُٹھاکر بہلاتے اور لوریاں دیتے ۔ گلے سے لگاکر ٹہلتے ہوئے نہایت پیارے انداز میں نہایت خوبصورت آواز سے آپؓ یہ پڑھتے تھے:

بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ
کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ
صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ آلِہٖ

یہ آپ کے محبوب اشعار تھے جوآپ گنگنایا کرتے تھے۔ گو اِن کے علاوہ اَور اشعار بھی پڑھتے مَیں نے سُنا ہے۔ آواز اتنی پیاری تھی کہ کیسا ہی بچہ رو رہا ہو، فوراً خاموش ہو جاتا تھا۔‘‘ (گلہائے محبت صفحہ 78)
٭ اولاد سے باوجود انتہائی محبت کے اگر کوئی ایسی بات ملاحظہ فرماتے جس میں احمدیت کے لئے غیرت کا سوال ہوتا تو بے حد ناراض ہوتے۔ (گلہائے محبت صفحہ 54)
٭ گھر کے سب بچے بچیوں کی شادیاں بہت ہی سادگی سے ہوئیں، کبھی کوئی رسم وغیرہ نہیں ہوئی۔ ایک بچی نے سہیلیوں سے سنا کہ سہرا بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو باندھتے ہیں۔ سہرا منگوالیا۔ حضورؓ کو پتہ چلا تو ناراض ہوئے کہ ہم نے تو دنیا کے لئے نمونہ بننا ہے۔ پھر سہرا منگوایا اور باورچی خانہ کی طرف چلے کہ چولہے میں ڈال دیں۔ راستہ میں حضرت اُمّ المومنینؓ بیٹھی تھیں۔ اُن کے دریافت کرنے پر سارا واقعہ بتادیا۔ وہ فرمانے لگیں’’میاں شادی کا سامان تو سہاگ کی نشانی ہوتا ہے۔ جلاؤ نہ، پھینک دو‘‘۔ چنانچہ آپؓ نے قینچی منگواکر سہرا کتر کر پھینک دیا اور جہاں رسوم کو ترک کرنے کا سبق دیا وہاں یہ تربیت بھی کی کہ حضرت اُمّ المومنینؓ کا احترام کرتے ہوئے اُن کے فرمانے کے مطابق عمل کیا۔ (ایضاً صفحہ 55)
٭ اسی طرح ایک دفعہ ایک بچی نے ایک بلاؤز خرید لیا اور یہ خیال نہ کیا کہ نیم آستین ہے۔ حضورؓ کو معلوم ہوا تو قینچی منگواکر اُس بلاؤز کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ (ایضاً صفحہ 55)
اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بارہا یہ احساس ہوا کہ شریعت کی اس قدر پابندی کے ساتھ ساتھ دل کے حلیم وجود کو بنی نوع انسان کی ہمدردی بھی اتنا بے چین رکھتی تھی کہ اُس نے نہ صرف اپنے ماحول میں بسنے والے ہر ذی روح کے لئے اور اپنے علاقہ کے ہر کس و ناکس کیلئے بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مسیح محمدی کی جماعت کے ہر وجود کے لئے اپنی آغوشِ رحمت ہمیشہ وا کئے رکھی۔ چنانچہ کتاب کی زینت بہت سے واقعات اس امر کا ثبوت ہیں۔ حضرت چھوٹی آپاؒ بیان فرماتی ہیں:
٭ افرادِ جماعت آپؓ کو اپنی بیویوں، اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں سے بہت زیادہ پیارے تھے۔ اُن کی خوشی سے آپؓ کو خوشی پہنچتی تھی اور اُن کے دکھ سے مَیں نے بارہا آپؓ کو کرب میں مبتلا ہوتے دیکھا۔
مصلح موعود کے متعلق پیشگوئی تھی کہ دل کا حلیم ہوگا۔ کارکنوں کے صحیح رنگ میں کام نہ کرنے پر اکثر ناراض بھی ہوئے، سزا بھی دی مگر مجھے معلوم تھا کہ ناراض ہوکر خود افسردہ ہوجاتے تھے۔ مجبوری کی وجہ سے سزا دیتے کہ ان کو صحیح طریق پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی عادت پڑے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی کام وقت پر ختم نہ ہونے پر دفتر کے بعض کارکنوں کو ہدایت دی کہ جب تک کام ختم نہ ہو گھر نہیں جانا اور پھر اندر آکر کہنا کہ فلاں کے لئے کچھ کھانے کو بھجوادو وہ گھر نہیں گیا بیچارہ دفتر میں کام کر رہا ہے۔
٭ آپؒ مزید لکھتی ہیں کہ قادیان کا ذکر ہے میری شادی کے شاید ایک سال بعد کا۔ حضورؓ نماز پڑھ کر مسجد سے آرہے تھے۔ حضرت امّاں جانؓ کے صحن میں کسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت آپؓ کے انتظار میں کھڑی تھی۔ آپؓ آئے تو اُس نے بات شروع کردی۔ حضورؓ کھڑے ہوئے توجہ سے سنتے رہے۔ میری طبیعت خراب تھی۔ مَیں کھڑی نہ رہ سکی، پاس تخت پر بیٹھ گئی۔ جب وہ عورت بات ختم کرکے چلی گئی تو آپ نے فرمایا کہ تم کیوں بیٹھ گئی تھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی ماننے والوں اور قربانی کرنے والوں میں سے ہیں، مَیں تو اُس کے احترام کے طور پر کھڑا ہوگیا اور تم بیٹھ گئیں۔ مَیں نے بتایا کہ میری طبیعت بہت خراب تھی۔ آپ نے فرمایا طبیعت خراب تھی تو تم چلی جاتیں۔ اس واقعہ سے آپؓ کی جماعت کے لوگوں سے محبت پر روشنی پڑتی ہے اور یہ بھی کہ آپ اصلاح اور تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ’’گلہائے محبت‘‘ اُس مطہّر نفس کے شب وروز کی ڈائری ہے جس میں دن بھر ہمہ جہت عملی جہاد، اَنتھک مشقّت اور ذہنی عرقریزی میں مصروف رہنے کے بعد اُس کی راتیں اپنے ربّ کے حضور عاجزانہ گریہ و زاری میں گزرتی نظر آتی ہیں۔ پس اس ناتواں وجود نے جس طرح دنیاوی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کی بلاشبہ وہ ایک ایسی مشیّتِ الٰہی تھی جو خالقِ کائنات کا قرب خاص رکھنے والوں کے لئے ہی جاری ہوا کرتی ہے اور اُن کے بارے میں دی جانے والی غیرمعمولی آسمانی بشارات پر مہرِصداقت ثبت کرتی ہے۔
بے شک سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے ربّ کی آغوشِ رحمت میں محو استراحت ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن اُن انمول یادوں کے سہارے زندگیاں بسر کردینے والے ہزاروں انسان آج بھی روئے زمین پر موجود ہیں۔ آج بھی اُس پاک وجود کی یادیں اُس کے غلاموں کے دلوں میں ایک ایسا تلاطم پیدا کردیتی ہیں جو اُن کی آنکھوں سے چھلک چھلک جاتا ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو دل و جان سے اُس شفیق آقا پر فدا تھے اور اُسی کی سلگائی ہوئی عشق حقیقی کی لَو میں جلتے چلے جانے کے بعد وہ بھی اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہوچکے ہیں۔ حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ کا بابرکت وجود بھی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ آپؒ خود بیان فرماتی ہیں:’’30 سال کا عرصہ اُن کے ساتھ گزارا۔ کہنے کو تو تیس سال تھے لیکن مَیں تو یہی کہوں گی:

روئے گُل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شُد
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد

(ترجمہ: ابھی تو پھول کا جی بھر کے دیدار بھی نہ کر پائے تھے کہ موسمِ بہار ختم بھی ہوگیا۔ افسوس کہ پلک جھپکتے ہی صحبتِ یار ختم ہوگئی)‘‘۔ (ایضاً صفحہ 74)
اسی طرح حضورؓ کی وفات کے تقریباً ایک ہفتہ کے بعد حضرت سیّدہ چھوٹی آپاؒ نے اپنی ڈائری میں درج ذیل دو اشعار لکھے جو شاید آپؒ ہی کے ہیں:

چند ہی دن کی جدائی ہے یہ مانا لیکن
بدمزہ ہو گئے یہ دن بخدا تیرے بعد
یہ تمنّا ہے جدا ہو کے بھی خدمت میں رہوں
زندگی میری رہے وقفِ دعا تیرے بعد

(گلہائے محبت صفحہ 94)

خداتعالیٰ حضرت سیّدہؒ کی تربت پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے کہ انہوںنے اس پاکیزہ روح کے بعض ایسے اوصاف بیان کئے جو شاید کوئی اَور بیان نہ کرسکتا۔
خدا کرے کہ ہمارا شمار بھی اُن غلامانِ خلافتِ احمدیہ میں ہوجائے جنہوں نے اپنی زندگیوں کے ہر مرحلے پر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی طرف سے بلند ہونے والی آواز پر لبّیک کہنے کی سعادت پائی اور پھر قرآن کریم کی دعا تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ کی قبولیت کو اپنی روحانی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ آمین

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں