تعلیم الاسلام کالج ۔ ایک تاریخ
انگریزی سہ ماہی رسالہ ’’النحل‘‘ امریکہ (شمارہ اوّل 2006ء) میں مکرم ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں تفصیل سے تعلیم الاسلام کالج کے اجراء اور اس کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تعلیم الاسلام کالج کا قادیان میں قیام اس بناء پر ہوا کہ جو طالبعلم مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں زیر تعلیم تھے ان کے سکول سے فارغ ہونے کے بعد انہیں وہی دینی ماحول کالج کی سطح پر بھی مہیا کیا جاسکے ۔ کالج کا افتتاح 28 مئی 1903ء کو ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ ناسازیٔ طبع کے باعث اس میں شامل نہ ہوسکے اور حضورؑ کے ارشاد پر حضرت مولوی نور الدین ؓ نے افتتاح فرمایا۔ حضورؑ نے اُس وقت بیت الدعا میں دعا کرنے کا وعدہ بھی فرمایا۔
اگرچہ تعلیم الاسلام کالج کا قیام جماعت کے لئے مالی لحاظ سے ایک بڑا بوجھ تھا لیکن دعاؤں اور احبابِ جماعت کی مالی امداد کے ساتھ اخراجات کو پورا کیا جاتا رہا۔ حضرت مولوی مفتی محمد صادق صاحبؓ نے بھی جماعت کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ ایک طالبعلم کی فیس کے اخراجات برداشت کریں ۔ اگرچہ کالج کے تعلیمی نتائج کافی مثبت تھے لیکن وائسرائے انڈیا لارڈ کرزن نے جب ’’یونیورسٹی ایکٹ‘‘ پاس کیا تو اس میں یہ درج تھا کہ جو کالج یونیورسٹیوں سے منسلک ہونا چاہتے ان کے لئے اچھی مالی حالت، تربیت یافتہ سٹاف اور مستقل عمارت رکھنے کی شرائط بھی ہوں گی۔ چونکہ تعلیم الاسلام کالج ان شرائط پرپورا نہیں اترتا تھا اس لئے اسے 1905ء میں بند کرنا پڑا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اس حوالہ سے بھی مشورہ فرمایا کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے، کالج کو دوبارہ جاری کیا جائے۔ لیکن تبلیغ و تعلیم کے دیگر امور کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی گئی۔ آخر 33ویں سالانہ مجلس شوریٰ کے دوران حضورؓ نے احمدیوں کو کالج کھولنے کے لئے مالی تحریک فرمائی جس میں ہزاروں روپے نقد وصول ہوئے اور ہزاروں روپے کے وعدے کئے گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے سربراہی میں کالج کمیٹی کے نگرانِ اعلیٰ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تھے۔ سرکاری جائزہ ٹیم نے بھی قادیان کا دورہ کیا اور آخر تعلیم الاسلام انٹر کالج قادیان کا افتتاح 14 ؍جون 1944ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فرمادیا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ ایم۔اے (آکسن) اس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔
کالج کا اجراء بھر پور طریقے سے کیا گیا اور جلد ہی بی۔اے اور بی۔ایس۔ای کی کلاسز بھی شروع ہوگئیں۔ کیمسٹری اور فزکس کی لیبارٹریاں تعمیر کی گئیں۔ بہت ہی کم وقت میں کالج نے پڑھائی اور دیگر شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ کالج میں دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ طالبعلم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مجالس عرفان سے بھی مستفیض ہوتے۔مسجد نور میں باقاعدگی سے نمازیں اداکرتے اور صحابہؓ سے ملاقات کرکے ان کی دعاؤں سے فیضیاب ہوتے۔ہر طالبعلم شام کو کھیلوں میں بھی حصہ لیتا۔ طلبہ کے نتائج اور رپورٹس اُن کے والدین کو بھجوائے جاتے۔ 1944ء میں فضل عمر ہاسٹل بننے سے پہلے دارالانوار گیسٹ ہاؤس کو ہاسٹل کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ 30؍جون 1947ء کو گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کیا گیا جو یکم جولائی سے لے کر 27ستمبر 1947ء تک تھیں۔لیکن یہ دن کالج کا آخری دن ثابت ہوا۔ کیونکہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے باعث کالج ایک عرصہ تک بند رہا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہجرت کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ کالج کازیادہ تر سٹاف پاکستان ہجرت کر آیا تھا جبکہ کچھ کو وہیں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ڈیوٹی کے دوران ایک طالبعلم محمد منیر خان شامی صاحب کو سکھوں نے شہید بھی کردیا۔
حضورؓ کے ارشاد پر حضرت مرزا ناصر احمدصاحبؒ نے پاکستان میں کالج کے اجراء کی کوشش شروع کردی۔ کالج کمیٹی بھی دوبارہ تشکیل دی گئی تاکہ مالی فنڈز اکٹھے کئے جاسکیں۔ لیکن ہجرت کی وجہ سے جماعت کی مالی حالت کمزور تھی اور اکثریت بیروزگار تھی اس لئے کالج کمیٹی نے رپورٹ پیش کی کہ کالج کا اجراء ابھی ممکن نہیں۔ اس پر حضورؓ نے آبدیدہ ہوکر فرمایا: ’’آپ کو مالی فنڈز کی فکرہے اور مجھے اپنے نوجوانوں کی۔ کالج ہر حال میں کھولا جائے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا‘‘۔
حضورؓ نے مکرم چوہدری محمد علی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ کالج کے لئے جگہ تلاش کریں۔ جبکہ پروفیسر میاں عطاالرحمن صاحب اور مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب کو قادیان سے پاکستان ہجرت کرنے کو فرمایا اور انہیں کالج کیلئے آرٹیکلز اور ضروری اشیاء کی فہرست لانے کو فرمایا۔ جلد ہی سیمنٹ بلڈنگ میں کالج کا دفتر شروع ہوگیا اور ساٹھ طلبہ ابتدائی طور پر داخل کرلئے گئے۔ کچھ ماہ بعد کالج کو سکھ نیشنل کالج میں منتقل کردیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد DAV کالج کی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ لیکن یہ عمارت چونکہ پناہ گزینوں کے قیام کے باعث بہت خستہ حال ہوچکی تھی چنانچہ اس کی مرمت کروانے پر ، کالج کی کتب خریدنے اور لیبارٹریاں بنوانے پرہزاروں روپے لاگت آئی۔ ان دشواریوں کے باوجود طالبعلموں کی تعداد 267 ہوگئی ۔ ایک ہی سال میں تعلیم الاسلام کالج کا شمار لاہور کے اونچے کالجوں میں ہونے لگا۔ جلد ہی کالج کی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔ شہنشاہ ایران کے دورہ پر جن طلباء نے آپ کو گارڈ آف آنر پیش کیا ان میں اکثر تعلیم الاسلام کالج کے طلبہ تھے۔ فٹ بال، والی بال، بیڈمنٹن اور تیراکی کی ٹیموں نے کالج کے لئے تمغے جیتے۔ کالج کی طرف سے ایک رسالہ “Young Economist” جاری ہوا جو بعد میں ’’المنار‘‘ کے نام سے شائع ہوتا رہا۔ تعلیم الاسلام کالج لاہور کا پہلا سیمینار 2؍اپریل 1950ء کو ہوا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی شرکت فرمائی اور اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیشہ ترقی کی کوششیں کرنی چاہئیں ، اور خدا سے دعا کرتے ہوئے ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتے رہنا چاہئے ۔آپؓ نے فرمایا کہ اچھے نتائج تب ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں جب صحیح وقت پر صحیح قدم اٹھایا ہو۔
مخالفین نے تعلیم الاسلام کالج بند کروانے کی کوششیں بھی ہمیشہ کیں لیکن کالج کی ترقی کو روک نہ سکے۔ طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی اور پانچ سو تک پہنچ گئی۔ 1953ء میں احمدیوں کے خلاف فسادات میں احمدی طالبعلم مکرم جمال احمد صاحب کو شہید بھی کردیا گیا۔ اور مخالفین کو خوش کرنے کے لیے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایات پر ربوہ میں کالج کی بنیاد رکھی گئی اور اسے جلد ہی لاہور سے یہاں منتقل کردیا گیا۔ تعلیم الاسلام کالج ربوہ کا افتتاح 6دسمبر 1954ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا اور اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہاں پر مذہبی آزادی ہوگی اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا طالبعلم داخلہ لے سکے گا۔ ہر طالبعلم اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرے گا اور طالبعلم کو عبادت کرنے کے لئے حکم دینا اس کے مذہب میں مداخلت نہیں ہے۔ نیز کالج کسی بھی قسم کے احتجاجی جلوس نہیں کرے گا۔ بات چیت کرنے کے ذریعہ معاملات حل کرنے کے لئے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔
پھر کالج کی لائبریری بھی تعمیر کی گئی جس میں ہر قسم کے اخبارات و رسائل مہیا کئے گئے۔ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خانصاحبؓ نے اپنی ذاتی لائبریری عطیہ کے طور پر پیش کی۔
فضل عمر ہاسٹل چار عمارتوں میں تقسیم تھا۔ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب وارڈن اور مکرم سعید اللہ خان صاحب سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ہاسٹل میں کامن روم بھی تھا جس میں اخبارات و رسائل اور انڈور گیمز کیلئے انتطامات تھے۔ ہاسٹل میں انٹرنیشنل طالبعلم بھی رہائش پذیر تھے جن کا تعلق انڈونیشیا، غانا، صومالیہ، نائیجیریا، ماریشس اور تنزانیہ سے تھا۔
تعلیم الاسلام کالج اپنے پروگراموں کی حیثیت سے پورے پاکستان میں مانا جاتا تھا۔ انٹر کالج ڈیبیٹ میں ملک بھر سے طالبعلم حصہ لیتے تھے۔ تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم نے یہ ڈیبیٹ کئی بار جیتی۔ کالج میں تین اردو کانفرنسوں کا انعقا د بھی کیا جاتا رہا جن سے پاک و ہند کے اردو علماء خطاب کرتے۔ آل پاکستان باسکٹ بال چیمپئن شپ بھی منعقعد ہوتی جس میں پاکستان بھر سے ٹیمیں شامل ہوتیں۔ آل پاکستان کشتی رانی کے مقابلے دریائے چناب میں ہوتے، تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم نے پنجاب یونیورسٹی کی چیمپئن شپ کئی سال تک مسلسل جیتی۔ اس کے علاوہ کئی چیدہ سائنسدان، ادیب و شاعر بھی کالج میں مہمان کے طور پر آکر خطاب کیا کرتے۔ مختلف مضامین کی سوسائٹیز بھی قائم تھیں جن کی ماہانہ میٹنگ دریائے چناب پر پکنک کی صورت میں منعقد کی جاتی۔
بعد میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری کی تعلیم کے لئے نیوکیمپس تعمیر کیا گیا جس میں فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹریاں بنائی گئیں۔فزکس کی لیبارٹری 1967ء میں تعمیر کی گئی جب کہ کیمسٹری کی زیر تعمیر تھی جب 1973ء میں حکومت نے سیاسی وجوہات پر تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی تحویل میں لے لئے جس کے بعد سے نہ ختم ہونے والا انحطاط کا سلسلہ جاری ہے۔