تفسیر صغیر کی تکمیل واشاعت اور مقبولیت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍فروری 2010ء میں مکرم نصیر احمد قمر صاحب کے قلم سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ تفسیر صغیر سے متعلق ایک جامع مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کو اپنی عمر کے آخری دَور میں سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ حضور کی زندگی میں آپ کے ذریعہ پورے قرآن مجید کاایک معیار ی اور بامحاورہ اردو ترجمہ مع مختصر مگر جامع نوٹس کے ساتھ شائع ہوجائے۔ سفر یورپ 1955ء سے واپسی کے بعد اگرچہ حضور کی طبیعت اکثر ناسا ز رہتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ موعود کی روح القدس سے ایسی زبردست تائید فرمائی اور آپؓ نے جون 1956ء میں مری کے پہاڑوں پر ترجمہ قرآن املاء کرانا شروع کیا جو خدا کے فضل سے 25؍اگست 1956ء کو مکمل ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ا س تر جمہ کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : ’’میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اُردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھاگیا جتنا اس میں رکھا گیاہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے اتنے تھوڑے عرصہ میں ایساعظیم الشان کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمادی‘‘۔
حضر ت سیدہ ا ُمّ متین صاحبہ (حرم حضرت مصلح موعودؓ ) فرماتی ہیں: ’’خداتعالیٰ کی آپؓ کے متعلق پیشگوئی کہ ’کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو‘، اپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ جن دنوں تفسیر صغیر لکھی ،نہ آرام کا خیال رہتاتھا نہ سونے کا ، نہ کھانے کا۔ بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہوجائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھتے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہو گئی اور لکھتے چلے گئے۔ تفسیر صغیر تو لکھی ہی آپ نے بیماری کے پہلے حملہ کے بعد یعنی 1956ء میں۔ … ڈاکٹر کہتے تھے آرام کریں ، فکرنہ کریں، زیادہ محنت نہ کریں۔ لیکن آپ کو ایک دُھن تھی کہ قرآ ن کے ترجمہ کا کام ختم ہوجائے۔بعض دن صبح سے شام ہو جاتی اور لکھواتے رہتے۔ کبھی مجھ سے املا ء کرواتے۔ مجھے گھر کا کام ہوتا تو مولوی محمد یعقوب صاحب مرحوم کو ترجمہ لکھواتے رہتے۔ آخر ی سورتیں لکھوا رہے تھے … کہ مجھے تیز بخار ہوگیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ متواتر کئی دن سے مجھے ہی ترجمہ لکھوا رہے ہیں۔میرے ہاتھوں ہی سے یہ مقدس کام ختم ہو۔ مَیں بخار سے مجبور تھی۔ ان سے کہا کہ مَیں نے دوا کھالی ہے آج بالکل بخار اتر جائے گا۔ دو دن آپ بھی آرام کر لیں۔ آخری حصہ مجھ سے ہی لکھوائیں تا مَیں ثواب حاصل کرسکوں۔ نہیں مانے کہ میری زندگی کا کیا اعتبار۔ تمہارے بخار اترنے کے انتظار میں اگر مجھے موت آجائے تو!؟ سارا دن ترجمہ اور نوٹس لکھواتے رہے اور شام کے قریب تفسیر صغیر کا کام ختم ہوگیا‘‘۔
جب حضورؓ ترجمہ اور نوٹس املاء کروا چکے تو حضورؓ کی خدمت میں سارا ترجمہ خوشخط لکھوا کر پیش کر دیا گیا۔ نظرثانی میں مدد کے لئے حضورؓ نے مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب اور مکرم مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب انچارج شعبہ زود نویسی کو ا رشاد فرمایا کہ دونوں اصحاب مع ضروری کتب لغت و تفاسیر کے روزانہ صبح ساڑھے آٹھ بجے حاضر ہو جایا کریں۔ یکم رمضان المبارک 1957ء کو حضور نے ترجمہ پر نظر ثانی کا کام شروع کیا اور صحت کی پرواہ کئے بغیر سخت محنت کرتے ہوئے رمضان میں ہی کام ختم کر لیا۔ اور 31؍مئی 1957ء سے 15؍جون 1957ء تک تیسری بار مسوّدہ کو ملاحظہ فرمایا۔ کام روزانہ صبح آٹھ بجے سے دو بجے دوپہر تک مسلسل جاری رہتا۔ حضورؓ روزانہ ایک پارہ کا ترجمہ ملاحظہ فرماکر اس کی تصحیح فرماتے اور تفسیری نوٹس میں مناسب اضافہ فرماتے۔ اس دوران حضورؓ ڈاکٹروں کی ہدایت کے باوجود کھانا کھانے کی بھی پرواہ نہ کرتے اور مقررہ کام ختم کئے بغیر نہ اٹھتے۔
ترجمہ اور مختصر تفسیر کا مسوّدہ تیار ہو جانے کے بعد حضورؓ نے قرآن مجید کے عربی متن کی کتابت کے لئے حضرت منشی عبدالحق صاحبؓ (والد محترم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب) اور اردو ترجمہ اور نوٹس کے لکھنے کے لئے محترم قریشی اسماعیل صاحب کا ا نتخاب فرمایا۔ حضرت منشی صاحبؓ کی عمر اس وقت اسّی سال کے لگ بھگ تھی اور آپ انتھک محنت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن حضورؓ کو اُن کا خط پسند تھا چنانچہ حضورؓ کی قوت قدسیہ ،توجہ اور دعاکی برکت سے یہ معجزہ ہوا کہ ہر دو کاتبوں نے صرف تین ماہ کی مختصر مدت میں کتابت کا کام ختم کر لیا۔
طباعت کاکام مولانا جلال الدین صاحب شمسؔ مینجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ کے سپرد ہوا جو 15؍اکتوبر تک مکمل ہوگیا۔ حضور کی خدمت میں جب نمونہ کی کتاب پیش کی گئی تو حضورؓ کے ارشاد پر مولوی ابوالمنیرنورالحق صاحب نے اس کا انڈیکس پندرہ دن میں مرتب کردیا جو ابتدا میں شامل ہوا اور یوں 15نومبر تک 1466 صفحات کی تفسیر مع انڈیکس ایک ہزار کی تعداد میں طبع ہو کر تیار ہوگئی۔جلد بندی کا کام مکرم محمدعبداللہ صاحب جلد ساز ربوہ نے کیا۔
حضرت مصلح موعود ؓنے تفسیر صغیر کی فروخت اور آئندہ طباعت کا کام ادارۃ المصنفین ربوہ کے سپرد فرمایا۔ یہ ا دارہ نومبر 1957ء کو معرض وجود میں آیا تھا اوراس کے قیام کی اغراض میں سے ایک ا ہم غرض تفسیر صغیر کی اشاعت کا وسیع پیمانہ پر انتظام کرناہے۔ چنانچہ 1957ء سے 1984ء تک تفسیر صغیر کی طباعت و اشاعت کا کام یہی ادارہ سرانجام دیتا رہا۔ 1958ء میں تفسیر صغیر کے مزید تین ایڈیشنز شائع ہوئے اور مارچ 1966ء میں اس کا پانچواں ایڈیشن عکسی اعلیٰ کتابت اور نفیس طباعت کے ساتھ شائع ہوا۔
تفسیر صغیر پہلی بار 1957ء میں نہایت عجلت میں چھپی تھی جس کی وجہ سے کتابت اور پروف ریڈنگ کی کچھ اغلاط رہ گئی تھیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ ا لمسیح الثانیؓ نے 1965ء میں طباعت کی اغلاط کو دُور کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقررفرمائی جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین۔ مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ اور مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب شامل تھے۔ کمیٹی کے ا رکان نے فیصلہ کیا کہ مولانا شمس صاحب سار ی تفسیر چیک کریں اور قابل اصلاح امور کی فہرست بنادیں اور پھر مولوی ابوالمنیر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحبؒ موصوف کو شروع سے آخر تک لفظاً لفظاً تفسیر صغیر کا ترجمہ اور تفسیری نوٹس پڑھ کر سنائیں اور قابل اصلاح امور کی اصلاح کرد ی جائے۔ چنانچہ جب وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو نوٹس سناتے ہوئے سورۃ نور کی آیت استخلاف پر پہنچے تو اس دن حضرت مصلح موعودؓ کا وصال ہوگیا۔ اور خدائی تقدیر کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب خلیفۃ المسیح الثالث منتخب ہوگئے۔ اس عظیم ذمہ داری سے قبل آپؒ نہایت بشاشت سے دن اور رات کے مختلف حصوں میں کئی کئی گھنٹے نوٹس سننے اور غوروفکر کے بعد اصلاح کرنے میں صرف کرتے تھے لیکن خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آپؒ کے لئے تفسیر کے کام کے لئے وقت نکالنا مشکل ہوگیا۔ اس پر آپؒ نے فیصلہ فرمایاکہ مولوی ابوالمنیر صاحب بقیہ کام سرانجام دیں اور جو امر قابل استفسار ہو وہ آپؒ سے پوچھ لیاجائے۔
حضورؒ کے ارشاد کی تعمیل کی گئی اور قابل اصلاح امور کی درستگی کے بعد حضورؒ نے تفسیر صغیر کو دوبارہ لکھوانے اور بلاکوں پر چھپوانے کی اجازت عطا فرمادی۔
نوٹس کی دوبارہ کتابت جناب منشی غلام جیلانی صاحب ساکن ننکانہ نے کی۔ بلاکس اینگریکو لاہورنے نہایت پیار اور محبت سے تیار کئے اور طباعت کا انتظام مکرم جناب محمد طفیل صاحب مدیر نقوش لاہور نے اپنے نقوش پریس میں کمال درجہ عقیدت کے ساتھ کیا۔ یہ تفسیر آرٹ پیپر پر شائع ہوئی اور جلد پر خوبصورت پلاسٹک کور بھی چڑھایا گیا۔ جس دن ابتدائی ستّر نسخے ربوہ پہنچے وہ مجلس مشاورت کا پہلا روز تھا چنانچہ حضورؒ نے افتتاحی خطاب میں اس نئے عکسی ایڈیشن کی خوشخبری احباب کو دی اور جملہ مراحل طباعت کا تذکرہ فرمایا ۔
تفسیر صغیر کی اشاعت سے دنیائے ترجمہ قرآن مجید میں ایک انقلاب آ گیا۔ کیونکہ یہ ترجمہ ایسا سلیس بامحاورہ اور آسان تھا کہ ہر شخص قرآن مجید کے بیان کردہ مفہوم کو بآسانی اخذ کرسکتا تھا۔ چنانچہ اسے اپنوں کے علاو ہ بیگانوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔
=…اخبار ’’امروز‘‘لاہور نے 30؍مئی 1966ء کی اشاعت میں لکھا: ’’اس وقت تفسیر صغیر پیش نظر ہے۔ یہ تفسیر احمدیہ جماعت کے پیشوا الحاج مرزا بشیرالدین محمود مرحوم کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے۔ قرآن کے عربی متن کے اردو ترجمے کے ساتھ کئی مقامات کی تشریح کے لئے حواشی اور تفسیری نوٹ دئے گئے ہیں۔ ترجمہ اور حواشی کی زبان نہایت سادہ اور عام فہم ہے۔ تفسیر صغیر حسن کتابت اور حسن طباعت کامرقع ہے‘‘۔
=…ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ لاہور 19؍جون 1966ء نے لکھا: ’’ … انجمن حمایت اسلام لاہور اور تاج کمپنی لمیٹڈ کی طرف سے قرآن حکیم کی طباعت میں جو خوش ذوقی کاثبوت دیا جاتا رہاہے وہ قابل تحسین ہے۔ تفسیر صغیر کی اشاعت سے اس روح آفرین سعی میں اضافہ ہواہے۔ قرآن پاک کا یہ نسخہ اول سے آخر تک اعلیٰ ترین آرٹ پیپرپر شائع کیا گیاہے۔ نسخ و نستعلیق دونوں خط فن کتابت کے عمدہ ترین نمونے پیش کر رہے ہیں۔ آفسٹ کی طباعت کے باعث صاف اور دیدہ زیب ہے۔ جلد عمدہ اور مضبوط اور اس پر پلاسٹک کا جاذب نظر غلاف ہے۔ تفسیر صغیر میں ترجمہ اور تفسیر امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ ترجمہ اور حواشی کی زبان عام فہم ہے تاکہ ہرعلمی استعداد کا آدمی اس سے مستفید ہو سکے۔ترجمہ اورتفسیر میں یہ التزام بھی ہے کہ جملہ تفاسیرمتقدمین آخر تک پیش نظر رکھی گئی ہیں۔… قرآن مجید کو اس خوبصورتی سے طبع کرا کے شائع کرنا ایک بہت بڑی خدمت اسلام ہے۔‘‘
=… رسالہ ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ کراچی ’’ قرآن نمبر ‘‘ نے قرآن مجید کے ’’اردو تراجم و تفسیر‘‘ کی فہرست میں 40ویں نمبر پر ’’تفسیر صغیر‘‘ کا تعارف پیش کیا۔
=… سردار دیوان سنگھ مفتون۔ ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ دہلی نے محترم گیانی عباداللہ صاحب کے نام اپنے خط میں لکھا کہ : ’’ابھی تفسیر صغیر بذریعہ پارسل ملی۔ …۔ میری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ تبلیغ و اشاعت کے اعتبار سے آپ کی جماعت نے جتنا کام پچھلے پچاس ساٹھ برس میں کیا اتنا کام دنیا کے مسلمانوں نے پچھلے تیرہ سو برس میں نہ کیا ہوگا۔ اسلام کی ا س عظیم الشان خدمت کی موجودگی میں احمدی جماعت کو اسلام کے لئے نقصان رساں کہنا انتہائی کذب بیانی ہے۔‘‘
تفسیر صغیر کے ا ب تک متعدد ایڈیشن پاکستان، بھارت اور UK سے شائع ہو چکے ہیں۔ 1994ء کے UK ایڈیشن میں بعض مقامات پر سابقہ ایڈیشنوں سے مختلف طریق اختیار کیا گیا۔ چنانچہ اس ایڈیشن کے شروع میں پبلشر ز نوٹ میں اس کی وضاحت اِن الفاظ میں کی گئی: ’’تفسیر صغیر کو کبھی بھی لفظی ترجمہ کے طور پر شائع نہیں کیا گیا تھا بلکہ ا س کا عنوان ظاہر کرتاہے کہ یہ تفسیری ترجمہ ہے۔ اس کے باوجود بعض حلقوں کی طرف سے بعض مقامات سے متعلق خصوصیت سے اعتراض اٹھایا گیا کہ ان جگہوں پر ترجمہ سے، نعوذباللہ، عمداً انحراف کیا گیاہے۔ اس لئے اس غلط فہمی کو دُور کرنے کی خاطر ان مقامات پر تفسیری نوٹ نیچے حاشیہ میں منتقل کر کے ترجمہ کے اُس انداز کو اختیار کیا گیاہے جو قرآن کریم کے دیگر تراجم کے بارہ میں جماعت نے ہمیشہ اختیار کیا ہے اور یہ الزام غلط ہے کہ گویا، نعوذباللہ، عمداً لفظی ترجمہ سے ا نحراف کیا گیاہے۔ اسی طرح کئی مقامات پر ترجمہ میں بریکٹس کا ا شتباہ تھا نیز معدودے چند جگہوں پر بعض الفاظ کا ترجمہ سہواً رہ گیا تھا اور بعض جگہوں پر ضمائر کا ابہام تھا اس لئے وہاں پرترجمہ میں ضروری ترامیم کی گئی ہیں۔ اس اشتباہ کے تدارک کے لئے کہ ا س ایڈیشن میں پہلے ایڈیشن کے مقابل پر غلطی سے بعض جگہ فرق پیدا ہوگیاہے ان مقامات کی فہرست آخر پر دے دی گئی ہے جہاں مذکورہ بالا تبدیلیاں کی گئی ہیں۔…چونکہ کوئی اور شخص ایسی تبدیلیوں کا مجاز نہیں تھا اس لئے موجود امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایسے تمام مقامات پرخود غور کرکے پوری احتیاط کے ساتھ کم سے کم ضروری تبدیلیاں تجویز فرمائی ہیں‘‘۔
یہ ترمیم شدہ ایڈیشن صرف ایک مرتبہ یوکے اور پاکستان سے شائع ہوا۔ ا س کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت پر سابقہ ایڈیشنز کے مطابق ہی طباعت کی جارہی ہے۔