تمباکونوشی ترک کرنے کی روشن مثالیں
اطاعت مومن کا خاص جوہر ہے۔ خصوصاً وہ اطاعت جو طبیعت اور عادت کے خلاف ہو اور جس حکم کی تعمیل کرنے میں تکلیف محسوس ہو اور دراصل اطاعت یہی ہے جس میں انسان نفس کو مار کر محبوب کی رضا کو حاصل کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء نے حقہ کو ناپسند فرمایا تو آپ کے متبعین نے اطاعت کے شاندار مظاہرے کئے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4 ستمبر 2009ء میں مکرم عبدالسمیع خانصاحب نے اپنے مضمون میں ایسے متعدد واقعات پیش کئے ہیں ۔
٭ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کے والدین اور دیگر رشتہ دار افیم وغیرہ کے عادی تھے انہیں دیکھ کر مولوی صاحب کو بھی عادت ہو گئی تھی۔ جب قادیان میں آئے تو حضرت مسیح موعود نے فرمایا: ’’ہمارے دوستوں کو نشہ آور اشیاء سے پرہیز کرنا چاہئے‘‘۔ تو آپ نے یکدم اس عادت کو ترک کردیا۔ پہلے تین دن تو ایسی حالت رہی کہ آپ میں اور مُردہ میں کوئی فرق نہ تھا۔ اس کے بعد چالیس دن تک سخت تکلیف اٹھائی اور بہت بیمار ہو گئے۔ ابھی نقاہت باقی تھی کہ مسجد مبارک میں نماز کے لئے تشریف لائے۔ حضورؑ نے فرمایا آپ آہستہ آہستہ چھوڑتے یکدم ایسا کیوں کیا۔ عرض کیا حضور جب ارادہ کرلیا تو یکدم ہی چھوڑ دی۔
٭ حضرت میاں فیاض علی صاحب کپورتھلویؓ بیان فرماتے ہیں کہ اوائل میں میں حقّہ بہت پیا کرتا تھا یہاں تک کہ پاخانہ میں بھی حقّہ ساتھ لے جایا کرتا تھا تب جاکر پاخانہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت اقدس جالندھر تشریف لائے۔ جماعت کپورتھلہ اور یہ خاکسار بھی حاضر خدمت ہوئے۔ وعظ کے دوران میں حقّہ کی برائی آگئی جس کی حضور نے بہت ہی مذمت کی۔ وعظ کے ختم ہونے کے بعد خاکسار نے عرض کی کہ حضور میں تو زیادہ حقہ پینے کا عادی ہوں۔ مجھ سے وہ نہیں چھوٹ سکے گا۔ ہاں اگر حضور دعا فرمائیں تو امید ہے کہ چھوٹ جائے۔ حضور نے فرمایا آؤ ابھی دعا کریں۔ سو آپ نے دعا کی اور اثناء دعا میں حاضرین آمین آمین کہتے رہے۔ حضور نے دیر تک خاکسار کے لئے دعا کی۔ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حقّہ میرے سامنے لایا گیا ہے۔ میں نے چاہا کہ ذرا حقّہ پیوں۔ جب میں حقّہ کو منہ سے لگانے لگا تو حقّہ کی نلی ایک سیاہ پھنیر سانپ بن گئی اور یہ سانپ میرے سامنے اپنے پھن کو لہرانے لگا۔ میرے دل میں اس کی سخت دہشت طاری ہوگئی۔ مگر اسی حالت رؤیا میں مَیں نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بعد میرے دل میں حقّہ کی انتہائی نفرت پیدا ہوگئی اور مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کی دعا کی برکت سے حُقّہ چھوڑ دیا۔
٭ حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی ایک برکت یہ بیان فرماتے ہیں کہ نشوں سے نجات مل گئی: ’’پوچھو کہ مرزا صاحب سے مل کر کیا نفع ہوا۔ اجی! بے نفع ہوئے کیا میں دیوانہ ہو گیا تھا کہ ناحق بدنامی کا ٹوکرا سر پر اٹھالیتا اور مالی حالت کو سخت پریشانی میں ڈال دیتا۔ کیا کہوں، کیا ہوا؟ مُردہ تھا زندہ ہو چلا ہوں۔ گناہوں کا اعلانیہ ذکر کرنا اچھا نہیں، ایک چھوٹی سی بات سناتا ہوں۔ اس نالائق کو تیس برس سے ایک قابل نفرت یہ بات بھی تھی کہ حقہ پیا کرتا تھا۔ بارہا دوستوں نے سمجھایا خود بھی کئی بار قصد کیا لیکن روحانی قویٰ کمزور ہونے کی وجہ سے اس پرانی زبردست عادت پر قادر نہ ہوسکا۔ حضرت مرزا صاحب کی باطنی توجہ کا یہ اثر ہوا کہ آج قریب ایک برس کا عرصہ ہوتا ہے کہ پھر اس کمبخت کو منہ نہیں لگایا۔
٭ حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: میں شروع میں حقّہ بہت پیا کرتا تھا۔ شیخ حامد علی بھی پیتا تھا۔ کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کردیا کہ یہ حقّہ بہت پیتا ہے۔ اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پاؤں دبانے بیٹھا تو آپؑ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حقّہ اچھی طرح تازہ کرکے لاؤ۔ جب شیخ حامد علی حقّہ لایا تو حضورؑ نے مجھ سے فرمایا کہ پیو۔ میں شرمایا۔ مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے۔ پیو کوئی حرج نہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا۔ پھر حضورؑ نے فرمایا: میاں عبداللہ! مجھے اس سے طبعی نفرت ہے۔ میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے بس میں نے اسی وقت سے حقّہ ترک کر دیا اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی۔ پھر ایک دفعہ میرے مسوڑھوں میں تکلیف ہوئی تو میں نے حضور سے عرض کیا کہ جب میں حقّہ پیتا تھا تو یہ درد ہٹ جاتا تھا۔ حضورؑ نے جواب دیا کہ ’’بیماری کے لئے حقّہ پینا معذوری میں داخل ہے اور جائز ہے جب تک معذوری باقی ہے‘‘۔ چنانچہ میں نے تھوڑی دیر تک بطور دوا استعمال کرکے پھر چھوڑ دیا۔ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورؑ نے مجھے گھر میں ایک توڑا ہوا حقّہ کیلی پر لٹکا ہوا دکھایا اور مسکرا کر فرمایا: ہم نے اسے توڑ کر پھانسی دیا ہوا ہے۔
٭ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ 1892ء میں جالندھر تشریف لے گئے تھے۔ حضور کی رہائش بالائی منزل پر تھی۔ کسی خادمہ نے گھر میں حقّہ رکھا اور چلی گئی۔ اسی دوران حقّہ گر پڑا اور بعض چیزیں آگ سے جل گئیں۔ حضور نے اس بات پر حقّہ پینے والوں سے ناراضگی اور حقّہ سے نفرت کا اظہار فرمایا۔ یہ خبر نیچے احمدیوں تک پہنچی جن میں سے کئی حقّہ پیتے تھے اور ان کے حقے بھی مکان میں موجود تھے۔ انہیں جب حضور کی ناراضگی کا علم ہوا تو سب حقّہ والوں نے اپنے حقّے توڑ دیئے اور حقّہ پینا ترک کردیا۔ جب عام جماعت کو بھی معلوم ہوا کہ حضور حقّہ کو ناپسند فرماتے ہیں تو بہت سے باہمت احمدیوں نے حُقّہ ترک کر دیا۔
٭ حضرت قاضی خواجہ علی صاحب لدھیانویؓ ؑ ایک زمانہ سے افیون اور حقّہ کے عادی تھے۔ موت سے پہلے قادیان ہی میں انہوں نے ان دونوں چیزوں کو ترک کردیا اور ایسی جوانمردی سے مقابلہ کیا کہ پھر ان کی طرف توجہ نہ کی۔ ان دیر سے لگے ہوئے نشہ کو یکدم چھوڑ دینے کی وجہ سے وہ بیمار ہوئے۔
٭ حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں: حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں بیٹھے تھے، ایک احمدی دوست نے پوچھا کہ حضور! حقّہ شراب جیسا ہے؟ حضورؑ نے فرمایا: ’’شراب جیسا نہیں، اُس سے کم‘‘۔ مَیں نہایت عادی تھا، میں اتنا ڈرا کہ قادیان میں حقّہ چھوڑ دیا۔
٭ 25 مارچ 1908ء کی صبح حاجی الٰہی بخش صاحب گجراتی حضرت مسیح موعود ؑکی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے عرض کی کہ مجھے قبل از بیعت پندرہ سال کی عادت افیون اور حقّہ نوشی کی تھی۔ بیعت کے بعد میں شرمندہ ہوا کہ اب تک مجھ میں ایسی عادتیں پائی جاتی ہیں۔ تب میں جنگل میں جا کر خدا کے آگے رویا اور میں نے دعا کی اور پھر یکدفعہ دونوں چیزوں کو چھوڑ دیا۔ نہ مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی اور نہ کوئی بیماری وارد ہوئی۔ حضورؑ نے فرمایا: یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ ایک احمدی یہاں آئے۔ انہیں ایسا واقعہ پیش آیا جس سے متأثرہو کر کہنے لگے۔ اب میں کبھی حقّہ نہیں پیوں گا اس کی وجہ سے آج مجھے بہت ذلّت اٹھانی پڑی۔ ان ایام میں یہاں عام طور پر حقّہ نہیں ملتا تھا … وہ تلاش کرتے کرتے مرزا امام دین کے حلقے میں چلے گئے۔
وہ ہمارے رشتہ دار تھے، حضرت مسیح موعودؑ کے چچازاد بھائی تھے۔ مگر سلسلہ کے سخت مخالف۔ حقّے کی خاطر جب وہ احمدی وہاں جابیٹھے تو مرزا امام دین نے حضرت صاحب کو گالیاں دینی شروع کردیں اور لگے ہنسی اور تمسخر کرنے۔ وہ حقے کی خاطر سب کچھ بیٹھے سنتے رہے۔ وہ کہتے ہیں اسی وقت میں نے دل میں ارادہ کرلیا کہ اب حقّہ نہ پیوں گا۔ اسی نے مجھے ذلیل کرایا ہے‘‘۔
٭ ملک منصور احمد صاحب عمر بیان کرتے ہیں: میرے دادا جان حضرت مولوی نور محمد صاحب ملتانیؓ کو خواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ حقّہ چھوڑ دیں۔ صبح اٹھ کر حقّہ ختم کر دیا اور اس وجہ سے شدید بیمار ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ صرف حقّہ پی کر بچ سکتے ہیں وگرنہ کوئی صورت بچنے کی نہیں۔ لیکن انہوں نے حقّہ نہ پیا اور فوت ہوگئے۔ وہ زمیندار تھے اور حقّہ کی بچپن سے عادت تھی۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’نہایت مخلص دوست ترگڑی کے شاعر محمد اسماعیل صاحب فوت ہوگئے ہیں۔ بہت جوش اور اخلاص رکھنے والے تھے ان کی بعض نظموں نے تبلیغ میں بہت مدد دی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی کتاب چٹھی مسیح کو بہت پسند کیا تھا۔ حقّہ کے بہت دشمن تھے۔ اس کے متعلق ہمیشہ بحث کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر آپ نے یہ عیب نہ مٹایا تو کیا مٹایا! گو ایک بات پر ہی زور دینا اصل دانائی نہیں لیکن ان کی غیرت ایمانی اور بدی سے نفرت کی وجہ سے ان کا یہ اصرار بھی بہت اچھا لگتا تھا‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے 1912ء میں ایک خطاب میں تمباکو نوشی چھوڑنے کی پُرزور تلقین فرمائی۔ اخبار ’’الحکم‘‘ لکھتا ہے: بہت سے آدمیوں نے حقّہ نوشی سے توبہ کرلی اور حقے ٹوٹ گئے۔ مدرسہ کے طالبعلموں میں سے جو سگریٹ نوشی کے عادی تھے۔ وہ اپنی توبہ کی درخواستیں پے درپے بھیج رہے ہیں۔ بعض کو اس قبیح عادت کے ترک سے تکلیف بھی ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کیلئے ایک نسخہ تجویز کیا ہوا ہے۔ میں اسے افادہ عام کیلئے درج کر دیتا ہوں۔ فرمایا کہ جب حُقّہ کی خواہش پیدا ہو تو چند کالی مرچیں منہ میں رکھ لو اس سے یہ تکلیف جاتی رہے گی۔ بہرحال خدا کے فضل کی بات ہے کہ یہ بلا ہمارے مدرسہ سے رخصت ہونے کو ہے بلکہ ہوچکی ہے۔
٭ حضرت مولوی فرزند علی خانصاحب نے 1909ء میں ایک جلسہ میں احمدیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ فرماتے ہیں: جلسہ کے بعد ہم لوگ بیٹھ گئے اور حقّہ کا دور چل پڑا۔ اس وقت تک میں حقّہ پیا کرتا تھا میں نے ایک احمدی سے دریافت کیا کہ حقّہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا کیا خیال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضور نے اسے حرام تو نہیں ٹھہرایا لیکن حضور اس کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ میرے دل نے اسی وقت یہ فتویٰ دیا کہ جس چیز کو امام مہدی نے ناپسند کیا اسے ترک کردینا چاہئے۔ چنانچہ اس مجلس میں بھی اس کے بعد میں نے حقّہ پینے سے پرہیز کیا اور گھر پر لوٹ کر کسی کو نہ بتایا کہ میں نے حقّہ نوشی ترک کردی ہے۔ حتیٰ کہ اس ارادے پر کوئی پچاس ایک گھنٹے گزر گئے۔ مجھے حقّہ نوشی کی عادت ترک کرنے میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی۔ بجز اس کے کہ کبھی سفر کے دوران میں جب دوسرے ہم سفر لوگ سگریٹ نوشی کرتے تو میرے دل میں بھی اس کی تحریک ہوتی۔ لیکن یہ عارضی کشش تھی جس کا مقابلہ میرا نفس آسانی کے ساتھ کرلیتا تھا۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ نے آغاز خلافت سے ہی احمدیوں کو تمباکونوشی چھوڑنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ الفضل لکھتا ہے: حضرت مصلح موعود کے دربار میں ایک تجویز پیش ہے۔ تمباکو امریکہ سے آیا تھا اس لئے بہتر ہے کہ اس کے خرچ کو اسی ملک میں اشاعت حق پر لگایا جاوے۔ پس جو احمدی تمباکو (سگریٹ، حقّہ) پیتے ہیں وہ اس لغو عادت کو چھوڑ دیں اور جو خرچ ماہوار تمباکو پر کرتے ہیں بطور کفارہ اس کا نصف اس فنڈ میں بالالتزام دیتے رہیں اور جو نہیں چھوڑ سکے وہ اپنے تمباکو کے ماہوار خرچ کے برابر چندہ اس فنڈ میں ہر مہینے جمع کرادیا کریں۔ پہلے یہ تجویز قادیان میں رائج ہوگی۔ اپنے گھر کو مسلمان کرکے پھر بیرونجات کے احمدیوں پر نگران مقرر ہوں گے جو ہر تمباکو نوش سے یہ رقم وصول کرکے داخل دعوت الی الخیر فنڈ کریں گے۔
چند دن بعد کے الفضل میں لکھا ہے کہ تمباکو کے متعلق تجویز پر عمل ہورہا ہے۔
٭ اخبار الحکم انہی ایام میں لکھتا ہے: حال میں حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں ایک سب کمیٹی اس غرض کے لئے قائم کی ہے کہ وہ حقّہ نوش احمدیوں سے حقّہ چھڑوائیں۔ حقّہ نوشی پر جس قدر وقت اور روپیہ خرچ ہوتا ہے وہ ایک ظاہر امر ہے۔ پھر اس سے جس قدر برے نتیجے پیدا ہوتے ہیں وہ بھی مخفی بات نہیں۔ اس لئے آپ نے اس برائی کو چھڑانے کی طرف توجہ فرمائی ہے اور جواحباب حُقّہ چھوڑیں وہ حُقّہ نوشی کے ماہوار اخراجات کے نصف کے برابر اس کے شکریہ میں ترقی اسلام فنڈ میں دیں اور جوحُقّہ نہیں چھوڑ سکتے وہ اسی قدر چندہ اس فنڈ میں دیں۔ یہ کیسی بابرکت بات ہے کہ ایک تو بدعادت سے بچاتے ہیں اور اس کی بجائے اموال کو نہایت ہی پاک اغراض میں صرف کرنے کی تحریک کرتے ہیں۔ ہر جگہ کی احمدی انجمنیں اس تجویز پر عمل کرنے کے لئے انسداد حقّہ نوشی کی پنچایتیں مقرر کریں۔ قادیان سے قریباً 8 روپیہ ماہوار چندہ اس مد میں جمع ہوچکا ہے۔ اگر ہماری تمام انجمنیں اس تجویز پر عمل کرنے لگیں تو میں سمجھتا ہوں کہ قریباً پانچ سو روپیہ ماہوار اس مد میں آمدنی ہونے لگے۔ قادیان کے بعد دوسری آواز دیکھنا کہاں سے آتی ہے۔
٭ ایک بار اٹھوال کے چند لوگوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی تو حضورؓ نے ان سے حقّہ نہ پینے، لڑائی جھگڑا نہ کرنے اور فحش نہ بکنے کا عہد بھی لیا۔
٭ جن احباب نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر حقّہ چھوڑ دیا تھا۔ الفضل میں ان کے نام بھی شائع ہوتے رہے۔ چنانچہ الفضل 24 فروری 1921ء میں 6 احباب اور 17 مارچ 1921ء میں 27 کے نام درج کئے گئے۔ نیز نائب ناظر صاحب صیغہ تربیت قادیان نے لکھا کہ اگر کسی دوست نے کسی خاص ترکیب سے حقّہ چھوڑا ہو تو اس سے بھی مطلع فرمائیں تاکہ دوسرے دوست اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔
پھر کچھ عرصہ کے بعد حقّہ چھوڑنے والے بعض احباب کے خطوط بھی شائع کئے گئے۔ ان میں سے دو خطوط ملاحظہ فرمائیں:
1 ۔ ’’جلسہ سالانہ پر حضور نے ترک حقّہ کا ارشاد جماعت کو فرمایا تھا۔ اسی دن سے اس کو کم کرنا شروع کردیا۔ خداوند کریم کے فضل سے اور حضور کی برکت سے یہ بدعادت رفع ہوگئی اور یکم اپریل سے بالکل ترک کردیا ہے۔ گو عمر رسیدوں کے واسطے حضور کے حکم پر کچھ رعایت جھلکتی تھی اور مجھ جیسے کمزور اور ساٹھ سالہ عمر کے واسطے ذرا مشکل تھا مگر میرے مولا نے محض اپنے فضل سے ہمت بندھائی کہ تعمیل حکم ہوجائے۔…‘‘ (نیاز مند محمد ابراہیم مدرس گولیکی۔ ضلع گجرات)
2 ۔ ’’خدا کے فضل سے حقّہ چھوڑ دیا ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ حقّہ چھوڑنے پر چند یوم تکلیف ہوا کرتی ہے۔ مجھے خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ بلکہ جب یہ سنا گیا کہ حضرت صاحب حقّہ سے منع فرماتے ہیں تو اپنے نفس کو کہا کہ اگر تم ایک معمولی سے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو جب ایک بڑا حکم دیا گیا تو پھر کس طرح عمل کرو گے۔ اسی بات نے میرے نفس کو شرمندہ کردیا اور حقّہ چھوڑنے پر کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ آپ دعا فرمائیں کہ خداتعالیٰ توفیق دے کہ اس کی طرف خیال ہی نہ ہو۔ حقّہ چھوڑنے سے چند ایک فائدے بھی ہوئے ہیں…‘‘۔ (جلال الدین مینیجر سنگر سیونگ مشین تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ )
٭ محمد ظفراللہ ناصر صاحب لکھتے ہیں: اگست 1948ء میں جب میں تیسری کلاس میں زیرتعلیم تھا تو اس نادانی کی عمر میں سگریٹ نوشی کی قبیح عادت میں مبتلاہوگیا۔ میرے والد صاحب بچوں میں اس عادت کے خلاف بڑے ناراض ہوتے اور بعض اوقات تشدد سے بھی کام لیتے۔ لیکن یہ عادت کم ہوجانے کی بجائے بڑھتی چلی گئی اور میں ایک Chain Smoker بن گیا۔ پچپن سال اس قبیح عادت میں گزرے کہ اگست 2003ء میں الفضل اخبار میں پڑھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی محفل میں ایک شخص کا سوال تھا کہ سگریٹ نوشی اور حُقّہ کے متعلق آپؑ کا کیا حکم ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ میرے آقا مکی مدنی ؐ کے وقت اس کا رواج نہ تھا اگر ہوتا تو آپ منع کردیتے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔
اُسی وقت مَیں نے اس بری عادت کو چھوڑنے کا مصمم ارادہ کیا اور میرے پاس جو سگریٹ کی ڈبیہ تھی اسے جیب سے نکالا اور سگریٹ توڑ کر پھینک دیئے۔ ایک چین سموکر کے لئے یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ لیکن میرے مصمم ارادہ نے اس ترکِ نشہ پر پورا عبور حاصل کرلیا اور الحمد للہ تین سال کے عرصہ میں اس بری عادت کو ترک کرچکا ہوں اور خیال بھی نہیں آیا۔
میرے سامنے میرے محترم چچا حکیم سلطان احمد صاحب مرحوم کی مثال بھی موجود تھی جو کہ بڑے اہتمام سے حُقّہ نوشی کا انتظام کرتے اور پیتے تھے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ناظم وقف جدید تھے تو آپ کا ان کے ساتھ ملاقات کا طویل دور چلتا۔ اسی دوران ان کا نشہ کے بارے میں تبصرہ ہوا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ یہ ایک مہلک بیماری اور سرطان میں مبتلا کرنے کی سیڑھی ہے۔ آپ نے حُقّہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن اس بری عادت کو چھوڑنے پر بیمار ہوگئے۔ ڈاکٹروں کے مشورہ پر آپ نے کہا کہ میں موت کو تو گلے لگالوں گا، لیکن اس قبیح عادت کو دوبارہ شروع نہیں کروں گا۔اس کہنہ سالی میں ان کا مصمم ارادہ ہی اس ترک نشہ میں کام آیا۔
٭ مولوی اللہ دتّہ صاحب نے جب اپنے والد محترم چوہدری حیات بخش صاحب کو تبلیغ کی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور ولی بڑی بڑی کرامتیں اور معجزے دکھاتے تھے۔ اگر حضر ت مرزا صاحب سچے ہیں تو کوئی معجزہ دکھاؤ اور اُن کی دعا سے میرا حُقّہ چھوٹ جائے تو میں احمدی ہو جاؤں گا۔ جس دن یہ باتیں ہورہی تھیں اسی دن چوہدری صاحب کو شدید بخار ہوا جو متواتر تین دن تک رہا۔ جب بخار اترنے پر آپ نے حُقّہ طلب کیا تو حقّہ پیش کئے جانے پر آپ نے شور مچانا شروع کردیا کہ حُقّہ مجھ سے دُور کردو مجھے اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے، اس کی بدبو سے میرا جگر باہر آنے لگا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ حُقّہ کو گھر سے باہر نکال دو مجھے بدستور بدبو آرہی ہے چنانچہ حُقّہ کو گھر سے نکال پھینکا اور اس طرح ان کی حُقّہ نوشی کی عادت چھوٹ گئی ۔ اسی دن چوہدری صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔
٭ رائے شمشیر خانصاحب جوئیہ ایک نوجوان تھے اور 1954ء میں احمدیت میں داخل ہوئے تھے۔ ان کو حُقّہ اور سگریٹ پینے کی سخت عادت تھی اور روزانہ اس پر کافی خرچ کرتے تھے۔ ماہ رمضان المبارک میں کسی نے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے حُقّہ نوشی اور سگریٹ کو لغویات قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ لغویات سے اعراض کرتے ہیں نیز فرمایا کہ اگر آنحضرتؐ کے زمانہ میں ہوتا تو آپؐ ضرور منع فرماتے۔ شمشیر خان صاحب نے یہ بات سنی تو حُقّہ اور سگریٹ کو ترک کر دیا۔ رائے صاحب موصوف کا پھر یہ بیان تھا کہ اب میری یہ حالت ہے کہ حُقّہ اور سگریٹ پینے والوں سے مجھے نفرت آتی ہے۔
٭ مکرم فضل الرحمن بسمل صاحب لکھتے ہیں کہ موضع سالم میں میرے نام اخبار الفضل آتا تھا۔ ایک دوست سراج الدین صاحب (جو اس وقت احمدی نہیں تھے) بڑے شوق سے مجھ سے بھی پہلے مطالعہ کرتے تھے۔ ایک دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا تمباکونوشی کے خلاف مضمون شائع ہوا تو وہ مجھے کہنے لگے اگر تم یہ مضمون پڑھ کر بھی تمباکونوشی ترک نہ کرو تو تمہارے اور ہمارے ایمانوں میں کیا فرق ہے۔ یہ بات تیر کی طرح میرے کلیجے میں لگی۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ اسی وقت سے مَیں اس عادت بد کو ترک کرتا ہوں۔ اس کے بعد اگرچہ دو ہفتوں تک مجھے سخت تکلیف رہی مگر مَیں نے اس عادت بد سے نجات پائی۔ اگر میں اسی طرح تمباکو پیتا رہتا تو ہزاروں روپے اس فضول کام میں خرچ کرچکا ہوتا اور شاید صحت بھی برباد ہوتی۔ نیز مجلس بھی خراب ہوتی۔
٭ مرزا احمد بیگ صاحب ساہیوال روایت کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ میرے ماموں مرزا غلام اللہ صاحب سے فرمایا کہ مرزا صاحب! دوستوں کو حُقّہ چھوڑنے کی تلقین کیا کریں۔ ماموں صاحب خود حُقّہ پیتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: بہت اچھا حضور۔ پھر گھر آکر اپنا حُقّہ جو دیوار کے ساتھ کھڑا تھا اسے توڑ دیا۔ ممانی جان نے سمجھا کہ آج شاید حُقّہ دھوپ میں پڑا رہا ہے اس لئے یہ فعل ناراضگی کا نتیجہ ہے۔ لیکن جب ماموں نے کسی کو کچھ بھی نہ کہا تو ممانی صاحبہ نے پوچھا آج حقے پر کیا ناراضگی آگئی تھی؟ فرمایا مجھے حضرت صاحب نے حُقّہ پینے سے لوگوں کو منع کرنے کی تلقین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے اور مَیں خود حُقّہ پیتا ہوں۔ اس لئے پہلے اپنے حقے کو توڑا ہے۔چنانچہ انہوں نے مرتے دم تک حقے کو ہاتھ نہ لگایا اور دوسروں کو بھی حُقّہ چھوڑنے کی تلقین کرتے رہے۔
٭ چوہدری عبداللہ خان صاحب کاٹھگڑھی کی عین جوانی کا واقعہ ہے ایک دفعہ مرکز کی طرف سے ارشاد ہوا کہ تمباکو نوشی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ مضر صحت ہو تی ہے۔ آپ نے اس ارشاد کے بعد فوراً اپنا حُقّہ توڑ دیااور پھر تادم وفات تمباکونوشی سے مکمل طور پر دُور رہے ۔ آپ حُقّہ چھوڑنے کے بعد قریباً 50سال زندہ رہے۔
٭ محترم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی ابتدا سے حُقّہ کے عادی تھے مگر آپ کی نظر سے جب یہ بات گزری کہ حضرت مسیح موعودؑ تمباکو نوشی کو ناپسند فرماتے تھے تو آپ نے قریباً پچاس سال کی اپنی عادت ہمیشہ کیلئے ترک کردی اور پھرحُقّہ کو کبھی چھوا تک نہیں۔
٭ محترم عبدالرحیم خانصاحب بھی حُقّہ نوشی کرتے تھے۔ وہ بتاتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ حُقّہ نہ چھوڑ سکیں وہ کم ازکم اپنی اولاد کو اس سے محفوظ رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اولاد کو اس قبیح عادت سے ہمیشہ دُور رکھا۔
٭ تمباکو نوشی سے نجات ایک ایسا خوشکن اور قابل ذکر امر تھا کہ قادیان میں آنے والے غیروں نے بھی اس کا مشاہدہ کیا اور اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ ایک معزز سکھ سردار اننت سنگھ صاحب خالصہ پرچارک ودیالہ ترنتارن کے پرنسپل نے 1937ء اور 1938ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی اور اپنے مضمون میں لکھا: ’’وہاں مَیں نے خوبی ہی خوبی دیکھی ہے۔ مَیں نے کسی کو تمباکونوشی کرتے، فضول بکواس کرتے ،لڑتے جھگڑتے ،بھیک مانگتے، عورتوں پر آوازے کستے، دھوکہ بازی کرتے، لُوٹتے اور لغو طور پر ہنستے نہیں دیکھا۔ شرابی، جواری، جیب تراش، اس قسم کے بدمعاش لوگ قادیان کی احمدی آبادی میں قطعاً مفقود ہیں۔ یہ کوئی معمولی اور نظر انداز کرنے کے قابل خصوصیت نہیں۔ کیا یہ بات اس وسیع برّاعظم کے کسی اور مقدّس شہر میں نظر آسکتی ہے؟ یقینا نہیں۔ مَیں بہت مقامات پر پھرا ہوں اور پورے زور کے ساتھ ہر جگہ یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ بجلی کے زبردست جنریٹر کی طرح قادیان کا مقدس وجود اپنے سچے متبعین کے قلوب کو پاکیزہ علوم سے منور کرتا ہے اور قادیان میں احمدیوں کی قابل تقلید زندگی اور کامیابی کا راز یہی ہے‘‘۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ نے دسمبر 1915ء کے جلسہ سالانہ پر فرمایا کہ جسمانی بیماریوں کے لئے تو مجھے لکھتے ہیں مگر روحانی بیماریوں سے شفا پانے کی طرف بہت کم توجہ ہے۔ ایک صاحب نے درخواست کی کہ مجھے افیون کھانے کی عادت ہے۔ دعا فرمایئے یہ عادت چھٹ جائے۔ حضورؓ نے دعا و عقد ہمت سے توجہ تام فرمائی۔ یہ صاحب چالیس برس سے اس کے عادی تھے۔ دن میں چار بار کھاتے۔ ساٹھ گولیوں تک نوبت پہنچ چکی تھی اور اس سے دگنی کرنے کی طاقت و خواہش اپنے اندر پاتے تھے۔ دعا کے بعد انہوں نے افیون کم کرنی شروع کی۔ بعض لوگوں نے انہیں کہا کہ اگر چھوڑ دو گے تو ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ حالات بھی کچھ ایسے ہی تھے مگر خدا نے فضل کیا اور انہوں نے اطلاع دی کہ اللہ کریم جلّشانہ کے خاص فضل سے جس کی جاذب حضور انور کی خاص دعائیں ہیں چار یوم سے افیون بالکل ترک کرچکا ہوں۔ اس وقت تک کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور نہ افیون کھانے کی خواہش ہی دل میں گزر ی۔ یہ نشہ میرا جزو بدن ہوچکا تھا اور میں اور میرے واقف کار اس کا چھوٹنا ناممکن سمجھتے تھے۔ آپ کی دعاؤں نے ممکن کر دیا۔ اب افیون کا تمام خرچ ماہواری اشاعت اسلام میں دیا کروں گا۔ یہ صاحب ہفتہ میں دو یا تین بار دعا کے لئے یاد دلاتے تھے۔ آخری خط میں انہوں نے لکھا اب دو گولیاں رہ گئی ہیں ان کے چھوڑنے سے تو جان جانے کا خوف ہے۔ حضور نے لکھوایا کہ میں دعا کررہا ہوں اور وہ وقت قریب ہے کہ آپ یہ بھی چھوڑ دیں۔ اس کے آٹھ دس روز بعد مذکورہ بالا خط آیا۔