تیرھویں صدی کے بزرگ علماء
تیرھویں صدی ہجری اکتوبر 1786ء سے اکتوبر 1884ء تک محیط ہے۔ اس صدی کے ایک نامور عالم محمد صدیق حسن خان نے 1874ء میں کہا تھا کہ اس صدی میں اسلام کا صرف نام اور کتاب اللہ کے صرف نقوش باقی رہ گئے ہیں۔ ایسے پُرظلمت دور میں جو اولیاء افق ہند پر طلوع ہوئے اور لاکھوں سینوں میں ایمان کی شمعیں فروزاں کرنے کا باعث بنے وہ ملت اسلامیہ کے عظیم محسن تھے۔ ان ربانی علماء میں سے بعض کا ذکر محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے اپنے مضمون میں کیا ہے جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍ستمبر 1999ء کی زینت ہے۔
حضرت مولوی آل حسن موہانی صاحبؒ اپنے عہد کے زبردست متکلم اور ردّ عیسائیت کے مشہور مجاہدوں میں سے تھے۔ حیدرآباد دکن کے قاضی رہے۔ دو کتب آپ کی علمی یادگار ہیں۔ 17؍جولائی 1870ء کو وفات پائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 19؍جولائی 1901ء کو آپؒ کا تذکرہ فرمایا۔
حضرت شاہ محمد امیر شاہ صاحبؒخانوادہ صابریہ قادریہ و نظامیہ کے چشم و چراغ اور ملہم تھے۔ آپؒ پر باطنی قوت کی بدولت منکشف ہوا کہ قوم فرہنگ ہندوستان میں اس لئے حکمران کردی گئی ہے کہ زمانہ امام مہدی علیہ السلام کا قریب ہے۔ 74۔1873ء میں وفات پائی۔
حضرت شاہ عبدالغنی صاحبؒ مجددی 1857ء میں ہجرت کرکے حرمین شریفین تشریف لے گئے۔ 1878ء میں مدینہ معظمہ میں وفات پائی۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ بھی آپؒ کی بیعت اور صحبت میں رہے اور آپؒ کے ذریعہ چالیس صحیح احادیث کا راوی بننے کا شرف بھی حاصل ہوا جو ستائیس واسطوں سے مسلسل و متصل و مرفوع صورت میں پہنچی تھیں۔
حضرت سید امیر صاحبؒ پیرکوٹھ شریف کی وفات 4؍جنوری 1878ء کو ہوئی۔ آپ عارف کامل ،تصوف و سلوک میں یکتا اور صاحب کشف و الہام تھے۔ آپ کی روایت ہے کہ ہر زمانے کا مجدد جب دار فنا سے دار بقا کو رحلت فرماتا ہے تو آئندہ ہونے والے مجدد کے متعلق اس کو بذریعہ الہام اطلاع ملتی ہے۔ آپؒ نے 1877ء میں کہا تھا کہ دوسرا مجدد پیدا ہوگیا ہے لیکن اس کے ظہور میں کچھ عرصہ باقی ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحبؒ مدرسہ دیوبند کے بانی تھے۔ 14؍اپریل 1880ء کو وفات پائی۔ ساری زندگی غیرمسلموں کے ساتھ لسانی و قلمی جہاد میں گزاری۔ پادری تارا چند اور پنڈت دیانند بانی آریہ سماج کو میدان مناظرہ میں لاجواب کردیا۔ آپؒ ہی کا ارشاد ہے کہ اَور انبیاء میں جوکچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے ، کوئی کمال ذاتی نہیں۔
حضرت مولوی عبداللّٰہ غزنوی صاحبؒ صاحبِ کشف و الہام اور صاحب کمالات بزرگ تھے۔ 15؍فروری 1881ء کو وفات پائی۔ آپؒ پر قرآن اور سنت کے وعظ و ترویج کی پاداش میں کابل میں قتل کا فتویٰ دیا گیا۔ لیکن پھر صرف درّے مارنے، سر اور ڈاڑھی مونڈھنے، منہ کالا کرنے اور گدھے پر سوار کرانے کے بعد دو سال قید میں رکھ کر پاپیادہ بغیر زاد راہ کے پشاور کی طرف دھکیل دیا گیا۔ آپ امرتسر آکر آباد ہوئے اور یہاں بیش بہا خدمت دین کی توفیق پائی۔ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کو آپؒ سے بہت عقیدت تھی اور اپنی بیٹی امامہ آپ کے بیٹے مولوی عبدالواحد غزنوی کے عقد میں دیدی۔ حضرت مسیح موعود کو بھی آپؒ سے محبت کا تعلق تھا۔ حضور نے ایک بار خیروی میں اور دوسری بار امرتسر میں آپؒ سے ملاقات کی۔ آپؒ کے ایک مرید نے بیان کیا کہ مولوی صاحبؒ نے اپنی وفات سے کچھ پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا۔ حضرت مسیح موعود نے آپؒ کے بارہ میں لکھا: ’’ایک بزرگ غایت درجہ کے صالح جو مردانِ خدامیں سے تھے اور مکالمہ الٰہیہ کے شرف سے بھی مشرف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سنت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے اور ان صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدائے تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچا ہوا ہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمورالاوقات اور یاد الٰہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے…‘‘
حضرت شیخ حافظ مفتی عبدالقیوم صاحبؒ بڑھانوی کی وفات 1882ء میں ہوئی۔ آپ بھی ایک زمانہ میں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے مرشد ہوئے۔ محدث، حنفی فقہاء کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے۔ ریاست بھوپال میں افتاء کے عہدہ پر سرفراز رہے۔ الہامات اور کرامات سے نوازے گئے ۔ آپؒ کو خاندان حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کی یادگار اور بہترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین صاحبؒ سیالوی نے 2؍جنوری 1883ء کو وفات پائی۔ آپؒ کے ذریعہ جلال پور اور گولڑہ کی خانقاہیں معرض وجود میں آئیں۔ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے ایک بار آپؒ کے بارہ میں فرمایا کہ کسی نے اُنکی نسبت کہا فقیر نہیں۔ مَیں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ وہاں ڈپٹی کمشنر یا تحصیلدار آتے ہیں تو مرغ پکتا ہے اور ہمارے لئے دال۔ مَیں نے اسے کہا کہ خدا تعالیٰ آپ کو گھر میں کیا دیتا ہے؟ کہا روکھی سوکھی روٹی۔ اور ان تحصیلداروں اور ڈپٹیوں کو کیا دیتاہے؟ کہا گوشت و پلاؤ۔ مَیں نے کہا کہ پھر حضرت خواجہ صاحبؒ پر اعتراض کرنے سے پہلے خدا پر اعتراض کروگے کہ اس کی جناب میں لحاظ داری ہے۔
الحاج حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؒ کے مریدوں کا سلسلہ پنجاب میں نہایت وسیع تھا۔ آپؒ کی وفات 14؍جنوری 1884ء کو ہوئی اور نماز جنازہ غائب قادیان میں بھی پڑھی گئی۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے بعد اگر کوئی آپؒ کی خدمت میں مرید ہونے کو آتا تو فرماتے ’’سورج نکل آیا ہے اب تاروںکی ضرورت نہیں، جاؤ حضرت صاحب کی بیعت کرو‘۔ آپؒ ہی نے حضور اقدسؑ سے عرض کی:
سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مولانا ابوالحسنات عبدالحیؒ فرنگی محل لکھنوی کا شمار معقولات اور منقولات کے متبحر علما ء میں ہوتا ہے۔ صاحب تصانیف کثیرہ تھے، علم و فتاویٰ میں یگانہ روزگار تھے اور دنیا بھر کے علماء اس میں آپ کی جلالت مرتبت کے معترف تھے۔ آپ نے فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان دارالحرب نہیں دارالاسلام ہے۔ آپؒ کی وفات 27؍دسمبر 1886ء کو ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک بار فرمایا: ’’مولوی عبدالحئی صاحب جنہوں نے اتباع سنت کیا ہے اور مجھے ان سے بہت محبت ہے ان کا مذہب توحیدکا تھا وہ بدعات اور محدثات سے جدا رہتے تھے…‘‘