جامعہ احمدیہ
1905ء میں جماعت احمدیہ کے بہت سے جیّد علماء وفات پاگئے جن میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ شامل تھے- حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس خلاء کو محسوس فرمایا اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 6؍دسمبر 1905ء کو فرمایا افسوس کہ جو مرتے ہیں ان کا جانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا- پھر فرمایا مجھے مدرسہ کی طرف سے بھی رنج ہی پہنچتا ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ بات اس سے حاصل نہیں ہوئی- اگر یہاں سے بھی طالبعلم نکل کر دنیا طالب ہی بننے تھے تو ہمیں اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ہم تو چاہتے ہیں کہ دین کے لئے خادم پیدا ہوں-
اس کے بعد حضور علیہ السلام نے بہت سے احباب کو بلاکر اُن کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ مدرسہ (تعلیم الاسلام) میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور علماء پیدا ہوں- اس ضمن میں حضورؑ نے مدرسہ میں ایک ’’شاخِ دینیات‘‘ کے قیام کا فیصلہ صادر فرمایا- بعد ازاں یہی شاخ پہلے مدرسہ احمدیہ اور پھر جامعہ احمدیہ کی صورت اختیار کرگئی اور اب یہ ایک وسیع ادارے کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کی مرکزی شاخ ربوہ پاکستان میں ہے جبکہ دنیا کے کئی ممالک میں اس کی شاخیں موجود ہیں- جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنا ایک نہایت اعزاز کا مقام ہے کیونکہ یہ مسیح الزماں علیہ الصلٰوۃ والسلام کا قائم کردہ ادارہ ہے- اس کے بارے میں ایک مضمون مکرم راجہ برہان احمد صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ جولائی 1998ء میں شامل اشاعت ہے-
قیام پاکستان کے بعد جامعہ احمدیہ پہلے لاہور میں پھر احمد نگر میں اور آخر ربوہ میں قائم کیا گیا- اس وقت جامعہ کی دو منزلہ وسیع و عریض عمارت تدریس کے لئے استعمال ہوتی ہے- طلبہ کی رہائش کے لئے دو ہوسٹل (ناصر ہوسٹل اور طاہر ہوسٹل) ہیں- موجودہ نصاب سات سال کا ہے جس کے دوران انگریزی، اردو، عربی، فارسی، فقہ، قرآن، حدیث، کلام ، موازنہ، صرف و نحو، تاریخ و سوانح اور تصوّف وغیرہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں-