جب مجھے دوبارہ زندگی ملی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 اگست 2009ء میں مکرم عبد المنان ناہید صاحب کا ایک دلچسپ مضمون شامل اشاعت ہے جس سے خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
مکرم ناہیدؔ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایم ٹی اے کے ایک انٹرویو میں محترم جنرل محمود الحسن نوری صاحب کے ساتھ خاکسار بھی شامل تھا۔ مکرم مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ انٹرویو لے رہے تھے۔ خلافت کے حسن و احسان اور لطف و عنایات کا ذکر ہورہا تھا کہ مکرم مجیب الرحمن صاحب نے مجھ سے فرمایا: آپ کی ایک شدید بیماری کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے آپ کے لئے جو پھول بھیجے تھے ان کا بھی ذکر کریں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ مجھے تو کوئی ایسی بات یاد نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ پھول آپ تک پہنچانے کا کام حضورؒ نے میرے سپرد کیا تھا اور میں نے کوثر میڈیکل سنٹر راولپنڈی میں جا کر آپ کو دئیے تھے (آپ اُن دنوں امیر جماعت راولپنڈی تھے)۔ خاکسار کی یادداشت نے پھر بھی ساتھ نہ دیا۔ بیہوشی یا نیم بیہوشی کے عالم میں وہ آئے تو میرا حافظہ اس ساعت سعد کو محفوظ نہ رکھ سکا۔
دل پر بیماری کا یہ پہلا حملہ اتنا شدید تھا کہ سینہ درد سے پھٹا جا رہا تھا جس کی وجہ سے آنسو بے اختیار بہے جا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا کوثر میڈیکل سنٹر سے جنرل مسعودالحسن نوری کو ان کے گھر پر فون کیا گیا۔ میری حالت بتا کر یہ کہا گیا کہ ہم ان کو لے کر آپ کے پاس آ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں میرے گھر پر نہ لائیں۔ سیدھے ملٹری ہسپتال پہنچیں۔ میں بھی وہاں پہنچتا ہوں۔ وقت بچائیں۔ میری ایمبولینس ہسپتال پہنچی تو مکرم نوری صاحب وہاں پہنچ چکے تھے۔ فوری طبی امداد کے بعد کوثر میڈیکل سنٹر بھجوا دیا گیا اس ہدایت کے ساتھ کہ چھ ماہ تک بستر تک سے اٹھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ سوائے واش روم کے کہیں جانا نہ ہوگا۔ کھانا پینا، نماز، ملاقاتیں سب لیٹے لیٹے ہی ہوں گی۔ آنکھ کھلی تو رات گزر چکی تھی۔ میں عائشہ محمودہ صاحبہ (خاکسار کی رفیقہ حیات) کے کمرہ میں تھا جہاں وہ برین ٹیومر کے ساتھ زندگی کے آخری دن کاٹ رہی تھیں اور جنہیں اُن کی بیماری کی وجہ سے اس حادثہ سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ اس روز مجھے ساتھ والے کمرہ میں منتقل کردیا گیا۔
بعد میں مجیب الرحمن صاحب سے ایک ملاقات میں نوری صاحب نے فرمایا کہ جب ان کو میرے پاس لایا گیا تو یہ مردہ حالت کی طرح تھے۔ لیکن اس تن مردہ کا ایک مسیحی نفس کی دعاؤں سے زندہ ہو جانا مقدر تھا۔
بیماری کے ابتدائی ایام میں اس کی شدت اور نوعیت اور خاکسار کی اپنی سوچ کا رخ کدھر تھا اس کا اندازہ ان چند اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جو کاغذ میسر نہ ہونے کی وجہ سے میں نے ہسپتال کی فائل پر ہی لکھ دئے تھے جو فارغ ہونے پر میں گھر لے آیا تھا۔ ان اشعار میں سے انتخاب پیش ہے:
سکوتِ شب نہ ٹوٹے گا کبھی پھر
نہ جاگے گی کبھی یہ زندگی پھر
ابھی کچھ اور بھی کہنا تھا میں نے
رہے گی بات دل کی اَن کہی پھر
ہم اس محفل میں شاید اب نہ ہوں گے
مگر آئے گا ذکر اپنا کبھی پھر
محبت کرنے والے جب نہ ہوں گے
کہاں جائے گی تیری دلبری پھر
اٹھیں گے خواب نوشیں سے تو ہو گی
ملاقات ایک دن تیری مری پھر
اسی سے کام لے لینا تھا ناہیدؔ
نہیں ملتی کبھی یہ زندگی پھر
لیکن جب حالت سنبھل گئی تو یہ شعر ہوگئے:
رگوں میں موج خوں چلنے لگی پھر
ہوئی شاخ تمنا بھی ہری پھر
وبال جاں تھا کربِ درد مندی
یہ جاں اس سے نکل کر آ گئی پھر
دلِ ناداں دلِ ناداں ہی نکلا
جو کرلی موت سے پہلو تہی پھر
یہ بن سکتی تھی پیکر نُور کا بھی
یہ خاکستر تو خاکستر رہی پھر
اب مجیب الرحمن صاحب کے انکشاف نے طبیعت کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا کہ خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات ایک نظم ’’دعاؤں کے پھول‘‘ میں ڈھل گئے۔ اس نظم سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نیم بیہوشی کے عالَم میں ہوئے یاد سے محو
دل کو دربارِ خلافت سے جو پھول آئے تھے
ہائے وہ پھول کہ تھے جاں کے لئے سرمایۂ جاں
عرش کو اٹھتی دعاؤں نے جو مہکائے تھے
مَیں تو سمجھا تھا کہ ہر قطرۂ خوں ختم ہوا
ابھی رگ رگ میں لہو تھا ، مجھے معلوم نہ تھا
ڈوبتی نبض پہ رکھا تھا کسی شخص نے ہاتھ
میرے محبوب! یہ تُو تھا ، مجھے معلوم نہ تھا
کس طرح ایک تنِ مُردہ میں جاں ڈالی گئی
کام یہ تھا نہ کسی حکمت و دانائی کا
مظہرِ قدرتِ ثانیہ تھا تیرا وجود
معجزہ تھا ترے انفاسِ مسیحائی کا