جذبات بروفات حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17ستمبر2010ء میں محترم پیر صلاح الدین صاحب کا ایک (غیرمطبوعہ) مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اپنے سسر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی وفات کے موقع پر اپنے جذبات کو قلمبند کرنے کی سعی کی ہے۔ یہ مضمون حضرت میر صاحبؓ کی دختر محترمہ امۃ البصیر شہلا صاحبہ اہلیہ کموڈور پیر شبیر احمد صاحب کا مرسلہ ہے۔
18؍جولائی 1881ء کو حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اور سید بیگم صاحبہ کو دہلی میں اللہ تعالیٰ نے چاند کا ٹکڑا عطا فرمایا جس کا نام انہوں نے ’’محمد اسماعیل‘‘ رکھا اور جو بعد میں آسمانِ تصوف کا چاند بن گیا۔ اس نے آفتاب رسالت سے تمازت حاصل کی، محبت الٰہی سے اپنا سینہ روشن کیا اور یاریگانہ کے عشق میں دل کباب کرلیا۔ اور وہی ننھا سا چاند ماہِ چار دہم بن گیا جس کی شعاعیں تاریکیوں میں پھیلنے لگیں۔ جس کے نغمے سوئے ہوئے دلوں میں کیف و عشق کی تاروں کو چھیڑنے لگے جس کے سوز سے عشق و محبت کی کلیاں چٹکنے لگیں جس کے ساز سے بخار دل کے چشمے پھوٹنے لگے۔ یہ چاند پورے 66 سال چمکنے کے بعد 18؍جولائی 1947ء کو جمعہ کے دن غروب ہوگیا۔
27 رمضان 1936ء کو جبکہ لیلۃ القدر تھی ، آپؓ کو اک بے پناہ کرب و اضطراب نے گھیر لیا۔ فرقت کی ٹیسوں نے دل چھلنی چھلنی کر دیا۔ محبت کے قیام و دوام کی تمنائیں زور مارنے لگیں۔ آپ زمین پر لیٹے ہوئے تھے اور مدت العمر زمین پر ہی سونے کا ارادہ تھا کہ بارگاہ محبوب سے بشارت ملی۔ جس سے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا اور وصل دوام کا وعدہ مل گیا۔
فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ سامنے دیوار یا کوئی ایسی سطح ہے جس پر یونہی گڈمڈ اور مشتبہ سی لہریں ہیں کہ انہوں نے ترتیب اختیار کرنا شروع کی اور ہاتھ کی انگلیوں کی شکل اور ساتھ ہی ’’اللہ‘‘ کی شکل بن گیا۔ جیسے ہاتھ کہ باوا نانک کا جبہ سا مشہور ہے۔ اس وقت آنکھ کھل گئی اور اسی غنودگی میں القاء ہوا کہ اس کے عدد گنو۔ کئی دفعہ گنے معلوم ہوا کہ 70 ہیں (حالانکہ اصل میں 66 ہیں)۔‘‘
اس خواب میں بشارت دی گئی تھی کہ وصال صوری 66 سال کی عمر میں نصیب ہوگا۔ چنانچہ شمسی اعتبار سے پورے 66 سال کی عمر میں وفات پائی۔ نہ ایک دن کم اور نہ ایک دن زیادہ۔ اور قمری اعتبار سے 68 سال کی عمر میں وفات پائی یعنی تقریباً ستر سال۔
1945ء سے آپؓ کو اپنی وفات سے متعلق تواتر سے خبر دی جانے لگی۔ ایک الہام جو تقریباً ساری رات ہوتا رہا: ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید‘‘ ۔
یہ خواب بھی دیکھا کہ ’’…میں کسی جگہ ملازم ہوں اور وہاں میرے مکان کی سرکاری مرمت پر راج لگے ہوئے ہیں۔ اتنے میں پروانہ سرکاری میرے تبادلے کا آیا۔ تو میں نے راجوں کی ہدایت نمائی چھوڑی اور کہا کہ اب میرا اس مکان سے تعلق نہیں رہا اور کوئی دلچسپی اس میں مجھے نہیں ہے۔ اس لئے مجھے اگلے نئے مکان کا خیال کرنا چاہئے نہ کہ اس کا جسے میں چھوڑ چلا ہوں ‘‘۔
الفضل 8 مئی 43ء میں کتبۂ تربت کے عنوان سے جو نظم چھپی ہے اس میں لکھتے ہیں۔ ؎
شاذ و نادر خواب میں آتے تھے عزرائیل یاں
اب تو معمول ان کا روزانہ نظارہ ہو گیا
ویسے تو آپ کو دمہ اور پسینہ نہ آنے کی شکایت 18,17 برس سے تھی اور بیماری کے شدید حملے سردی اور گرمی دونوں موسموں میں ہوتے تھے۔ مگر آخری علالت نے، جو جنوری سے جاری تھی، جون میں شدّت اختیار کرلی اور آخری ایام میں آپ اکثر نیم بیہوش سے رہتے تھے اور اسی میں شدّت کرب سے اٹھ کر چلتے رہتے۔ 17 جولائی کی صبح نو بجے بیہوش ہوئے اور 18 کی شام اسی بیہوشی میں وفات پاگئے ہوگئے۔
پانچ چھ مہینے سے آپ نے کھانا پینا کم کردیا تھا اور اکثر جب کھانا سامنے رکھا جاتا تو ہاتھ کھینچ لیتے اور کہتے مجھے ڈرلگتا ہے اسے اٹھالو۔ مگر یہ نہیں بتلاتے تھے کہ ڈر کیا لگتا ہے۔ غالباً اُن دنوں آپ کو اس قدر تواتر سے اپنی وفات کا علم دیا گیا تھا کہ خداتعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے خیال سے آپ پر ایک پیہم خوف طاری رہتا تھا اور آپ کھانا کھا نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ بعد از وفات دیکھا کہ کسی نوٹ بک پر لکھتے ہیں: مَیں بھوکا ہی دنیا پر آیا اور بھوکا ہی جارہا ہوں۔
اسی بیماری میں آپ کو اس قدر اضطراب اور تکلیف تھی کہ ایک دفعہ فرمانے لگے میرے جسم کا ذرّہ ذرّہ درد کرتا ہے۔ اکثر شدّت اضطراب میں باوجود کمزوری اور نقاہت کے اٹھ کر چلتے رہتے۔ نیند برابر نہ آنے کے آتی تھی۔ لیکن اس قدر تکلیف کے باوجود کبھی آپ کے منہ سے اضطراب یا شکایت کا کلمہ نہیں سنا۔ بہت بے چین ہو جاتے تو فقط ’’یا اللہ‘‘ کہتے۔ کبھی ہائے کا لفظ آپ کی زبان پر آتے نہیں دیکھا۔ ایک دن سخت تکلیف تھی تو فرمانے لگے: ’’کیا کروں اور کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا۔ کچھ کیا نہیں جاتا‘‘۔ جب آپ نے یہ الفاظ کہے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ محبت کا ایک طوفان ہے جو ابل کر کچھ کہہ دینا چاہتا ہے۔ لیکن وفا ہے کہ کہنے نہیں دیتی۔ چنانچہ کچھ دیر ٹھہر کر کہنے لگے: ’’سخت دکھ اور تکلیف پر صبر کرنے کا ہی اجر ہے‘‘۔
بعد از وفات دیکھنے پر ایک نوٹ یہ ملا: ’’میری نعش کو غسل کے لئے اگر ممکن ہو تو شیخ عبدالرحیم صاحب بھائی جی اور شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی اور حکیم عبداللطیف صاحب شہید کو بلایا جائے۔ شہید صاحب پانی ڈالیں۔ کفن موجود ہے‘‘۔ چنانچہ اس کے مطابق آپ کو وفات کے جلد بعد غسل دیا گیا۔ چہرے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے چین سے سو رہے ہیں۔
19؍جولائی صبح 8 بجے کے قریب جنازہ الصفہ سے اٹھایا گیا۔ اس وقت ساری رات کے بجھے ہوئے آنسو بغیر کسی شوروفغاں کے آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ خلیفۃ المسیح الثانیؓ میت کے سرہانے کھڑے تھے اور آپ کی آنکھوں سے موتیوں کے خاموش قطرے قطار در قطار ڈھلک رہے تھے۔
میت بہشتی مقبرہ کے باغ میں رکھی گئی۔ جہاں حضورؓ نے جنازہ پڑھایا۔ کوئی چھ سات ہزار آدمی شامل تھے۔ اس کے بعد حضورؓ نے ایک بار پھر آپ کا منہ دیکھا۔ دعا کی اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر بعض عزیزوں نے اور دوسرے لوگوں نے چہرہ دیکھا اور کوئی دس بجے کے قریب آپ کو قطعہ خاص میں آپ کی والدہ اور دیوار کے درمیان جگہ میں دفن کر دیا گیا۔
خداتعالیٰ کی محبت آپؓ کے جسم و جان کے گوشہ گوشہ میں سمائی ہوئی تھی۔ اہل محبت اپنے راز کو چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے کھلنے سے انہیں شرم سی آتی ہے۔ مگر جب پیمانے بھر جاتے ہیں تو آخر چھلک پڑتے ہیں اور اگر یونہی سے محبوب کا ذکر محفل میں آجائے تو ضبط کے ہوش کسے رہتے ہیں۔ راز تو راز ہی رہنا چاہتا ہے لیکن جنون کا کیا علاج کہ سب کچھ آشکار کیا چاہتا ہے۔ وہ نغمے جو تنہائی میں نوک زبان پر آئے ہیں، وہ راز جو علیحدگی میں صفحہ قرطاس میں بند کرلئے جاتے ہیں وہ راز دل کی کیفیات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
آپ کے کلام میں محبت الٰہی کا پہلو جس قدر نمایاں ہے اس قدر کوئی اَور چیز نمایاں نہیں۔ جابجا اشارے ہیں کنائے ہیں۔ چھیڑ چھاڑ ہے۔ عجز و نیاز ہے لیکن ناز بھی ہے۔ عشق و محبت کے عنوان سے جو آپ کے مضامین چھپے ہیں اپنے رنگ میں لاجواب ہیں۔ ان سے آپ کی قلبی گہرائیوں کا حال معلوم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح منظوم کلام بھی محبت الٰہی سے پُر ہے۔
مرادِ دردِ دل تم ہو ہمارے دلربا تم ہو
تمہارا مدّعا ہم ہیں ہمارا مدّعا تم ہو
ہر اک ذرّہ میں جلوہ دیکھ کر کہتی ہیں یہ آنکھیں
تمہیں تم ہو تمہیں تم ہو خدا جانے کہ کیا تم ہو
’’دعائے من‘‘ میں کہتے ہیں: ؎
تو ہی دوا تو ہی طبیب تو ہی محب تو ہی حبیب
خدائے من خدائے من قبول کن دعائے من
اہل خانہ کو وصیت میں لکھتے ہیں:
تڑپتی روح ہے میری کہ جلدی ہو نصیب اپنے
ملاقات شہ خوباں لقائے حضرت باری
کھنچا جاتا ہے دل میرا بسوئے کوچۂ جاناں
سرود عاشقاں سن کر بھڑک اٹھی ہے چنگاری
یہ نغمہ ہے بزرگوں کا خدا دارم چہ غم دارم
فرشتے بھی یہ گاتے ہیں خداداری چہ غم داری
اپنے کتبۂ تربت میں کہتے ہیں: ؎
ایک پل بھی اب گزر سکتا نہیں تیرے بغیر
اب تلک تو ہو سکا جیسے گزارا ہو گیا
بعد مُردن قبر کے کتبے پہ یہ لکھنا مرے
آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا