جذبۂ ایثار

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍دسمبر 1999ء میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں ایثار کے بارہ میں اسلامی تعلیم اور اس جذبہ کو فروزاں کرنے والے بعض ایمان افروز واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے کہ … جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لئے مفید ہیں‘‘۔
ایک اَور موقعہ پر فرمایا: ’’اخلاق فاضلہ اسی کا نام ہے بغیر کسی عوض معاوضہ کے خیال سے نوع انسان سے نیکی کی جاوے۔ اسی کا نام انسانیت ہے‘‘۔
آنحضرتﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا: ’’مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہوگیا ہے‘‘۔ اس پر حضرت خدیجہؓ نے کہا: ’’خدا کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور صادق القول ہیں اور لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور معدوم اخلاق کو آپ نے اپنے اندر جمع کیا ہے اور آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی باتوں میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں‘‘۔
یہی حال آپؐ کے اصحاب کا تھا۔ انصار کے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ مؤاخات کے موقعہ پر دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح ایک بار حضرت ابوبکرؓ نے اپنا سارا اثاثہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضرت عثمانؓ نے مسجد کی توسیع کیلئے ایک قطعہ زمین بیس ہزار درھم میں فروخت کردیا اور مسلمانوں کی پانی کی تکلیف دور کرنے کے لئے ایک یہودی کا کنواں ’’بیئررومہ‘‘ خرید کر وقف کردیا۔
حضرت ابوطلحہؓ ایک بار آنحضرتﷺ کے ایک مہمان کو لے کر گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھانا صرف ایک آدمی کیلئے ہی ہے ۔ چنانچہ آپؓ اور آپکی اہلیہ نے کمال ایثار کا نمونہ پیش کرتے ہوئے چراغ گُل کردیا اور منہ اس طرح چلانے لگے کہ مہمان یہی سمجھتا رہا کہ میزبان بھی کھانے میں شریک ہیں۔ اُسی رات اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ سے اس جذبہ ایثار کی اطلاع دے کر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
حضرت عائشہؓ نے آنحضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں اپنی قبر کیلئے جگہ مخصوص کر رکھی تھی لیکن جب حضرت عمرؓ نے اُن سے یہ جگہ اپنے لئے چاہی تو حضرت عائشہؓ نے ایثار کا نمونہ پیش کرکے کہا: ’’مَیں نے خود اپنے لئے اس کو محفوظ رکھا تھا لیکن آج اپنے اوپر آپ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘۔
ایک جنگ میں حضرت عکرمہؓ نے شدید زخمی حالت میں پانی مانگا۔ پانی لایا گیا تو آپؓ نے دیکھا کہ حضرت سہیل بن عمروؓ بھی شدید زخمی حالت میں پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بولے : پہلے اُن کو پلاؤ۔ حضرت سہیلؓ نے دیکھا کہ حضرت حارثؓ کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے۔ بولے: اُن کو پلاؤ۔ بالآخر سب نے تشنہ کامی کی حالت میں جان دی۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کا بیان ہے کہ ایک جلسہ سالانہ پر بہت آدمی آئے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص اندر سے لحاف منگواکر مہمانوں کو دیتا رہا۔ عشاء کے بعد مَیں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ تھے، پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپؑ نے اپنا لحاف بچھونا بھی طلب کرنے پر مہمانوں کیلئے بھیج دیا ہے۔ مَیں نے عرض کیا آپکے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔
حضرت منشی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ عید کے روز مَیں سر کا نیا صافہ خریدنے بازار جارہا تھا۔ راستہ میں حضورؑ نے مجھے دیکھ کر پوچھا کہاں جارہے ہو۔ میں نے بتایا تو حضورؑ نے اُسی وقت اپنا عمامہ اتار کر دیدیا اور فرمایا کہ آپ کو پسند ہے تو آپ لے لیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی جماعت کے افراد میں قربانی اور ایثار کا مادہ ہو اور وہ دین کیلئے اپنے اندر مجنونانہ رنگ رکھتے ہوں اور وہ اپنی محنت اور قربانی کو اس حد تک پہنچادیں کہ جس حد تک پہنچانے سے دوسرے لوگ گھبراتے ہوں تو پھر ان کے ایک ایک آدمی کے مقابلہ میں دس دس، پندرہ پندرہ بلکہ بیس بیس آدمی بھی ہیچ ہوجاتے ہیں۔ جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا، غزوہ خندق میں بھی ایسا ہی ہوا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں