تعارف کتاب: ’’جستجوئے جمال‘‘
اَنصار ڈائجسٹ
شیخ فضل عمر
(مطبوعہ انصارالدین نومبر و دسمبر 2012ء)
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 23 جون 2017ء)
’’جستجوئے جمال‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام سے آشنا آپؑ کے ایک غلام کی نظر جب دنیا کے کسی بھی گوشہ کے ظاہری حسن و جمال کا لطف لیتی ہے تو اُسے اُس مادی وجود کے اندر موجود ایک حقیقی جمال کا ادراک ضرور ہوتا ہے اور یہی احساس اُسے پھر عشق حقیقی کی طرف مائل پرواز بھی رکھتا ہے۔ کچھ یہی کیفیت ایک سچے احمدی شاعر کی بھی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ظاہری بینائی کے ساتھ ساتھ خداداد باطنی نورِ فراست سے بھی استفادہ کرتا ہے اور پھر نتیجۃً اپنی اُن کیفیات کو جب قلم کے ذریعہ قرطاس پر بکھیرتا ہے تو اپنے ظاہری حسنِ نغمگی کے ساتھ ساتھ اُس کا کلام ایک پوشیدہ مگر پُراثر کیفیتِ جذب سے بھی لبالب نظر آتا ہے۔ ایسے میں دنیاوی نظر سے دیکھنے والے اس کلام کو صوفیانہ مزاج کا حامل قرار دیتے ہیں اور کچھ نقّاد اس کلام کو مشرقی تصوّف کے زیراثر خیال کرتے ہیں۔ لیکن اس کلام کی تاثیر کی حقیقت وہ خوب جانتے ہیں جنہیں مسیح دوراں کے علم کلام سے معمولی سی شناسائی بھی ہوتی ہے۔
جناب آدمؔ چغتائی نے اردو شاعری کی قریباً ہر صنف میں اپنی قوّت فکر کو خوب دوڑایا ہے اور بلاشبہ اپنے پُراثر کلام ، ذوق سلیم، دھیمے مزاج کے ساتھ ساتھ گہرائی میں جاکر قیمتی موتی تلاش کرنے والی صفت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ یہ احساس بھی خصوصیت سے ہوتا ہے کہ اکثر مقامات پر جہاں موصوف شاعر اپنا حمدیہ کلام پیش کرتے ہیں وہاں بے ساختہ نعتیہ اشعار بھی کہے جاتے ہیں اور یہ آپ کے اُس فکری مزاج کا آئینہ دار ہے جس میں یہ احساس شامل ہے کہ انسانوں میں حسنِ حقیقی کے جمال سے آشنا اور ابن آدم کو آشنا کروانے والی وہ ایک ہی ذاتِ اقدس ہے، صلی اللہ علیہ وسلم۔
کئی سال پہلے برمنگھم میں منعقد ہونے والی ایک خوبصورت محفلِ مشاعرہ کی یادیں ابھی تک اُس تقریب کے شرکاء کے ذہنوں میں تازہ ہیں جو جناب آدمؔ چغتائی کی کتاب ’’نوائے آدمؔ‘‘ کی رونمائی کے ضمن میں منعقد کی گئی تھی۔ آپ کی ایک اَور کتاب دیکھ کر غیرمعمولی مسرّت حاصل ہوئی ہے کیونکہ یہ ’’جستجوئے جمال‘‘ نہ صرف اپنے نام کی مناسبت سے ظاہری حسن سے مالامال ہے اور نہایت عمدہ گیٹ اَپ، خوبصورت سرورق، اعلیٰ کاغذ، لکھائی، ترتیب اور شاندار طباعت کے ساتھ پیش کی گئی ہے بلکہ اس میں شامل منظوم کلام بھی اپنی قوّت فکر، پُراثرانداز بیان اور حسنِ نغمگی کے لحاظ سے پڑھنے والے کو ہمہ وقت اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے اور بسااوقات قاری بھی شاعر کے ساتھ ہی موتیوں کی تلاش میں منہمک دکھائی دیتا ہے۔ 240 صفحات کی اس کتاب کے سرورق پر کندہ یہ شعر یقینا شاعر کے اندرونی احساسات کا ترجمان ہے کہ:
سخن میں روحِ ایمانی ترے جلوے دکھاتی ہے
یہ وہ نعمت ہے جو انسان کو جینا سکھاتی ہے
مذکورہ شعر میں بیان کردہ جلووں کا شعور حاصل کرنے کے لئے تو ’’جستجوئے جمال‘‘ کا مکمل مطالعہ ناگزیر ہے تاہم اپنے ذوق کے مطابق ایک مختصر انتخاب ذیل میں پیش ہے جو کتاب میں شامل مختلف اصناف سے اخذ شدہ ہے۔ یقینا اس انتخاب سے آپ پر نہ صرف اس عارفانہ کلام بلکہ شاعر موصوف کی ہمہ گیر شخصیت اور اس کی خوبصورت ذات کے حوالہ سے بھی بہت سے گوشے بے نقاب ہوں گے۔ ملاحظہ فرمائیں: