جلسہ اعظم مذاہب لاہور 1896ء اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘
(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جنوری تا مارچ 2013ء)
تاریخ احمدیت کا ایک زرّیں باب
جلسہ اعظم مذاہب لاہور 1896ء اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘
( فرخ سلطان محمود۔ یوکے)
1896ء میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ادیان عالم پر اسلام کی برتری اور دنیابھر کی الہامی کتب پر قرآن کریم کی عظمت ثابت کرنے کے لئے ایک مضمون رقم فرمایا تھا جو لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ اعظم مذاہب میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنایا۔ بعدازاں یہی مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور اپنوں اور غیروں نے اس عظیم الشان مضمون کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ الٰہی تائید یافتہ اس مضمون نے دنیا بھر کے دانش کدوں میں ایسا زلزلہ بپا کیا کہ نہ صرف اُس دَور کے عظیم مفکرین اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللّساں رہے بلکہ اس زمانہ کے اخبارات نے بھی جلسہ اعظم مذاہب سے متعلق اپنے ریویوز میں واضح طور پر اس مضمون کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اسے جلسہ میں پڑھے جانے والے تمام مضامین میں اعلیٰ ترین قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً یہ بتا دیا تھا کہ ’’مضمون بالا رہا‘‘۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے عظیم دانشوروں کا اس مضمون کے لئے اظہار عقیدت یقینا سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی کے لئے بھی شاندار خراج تحسین ہے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مضمون بلاشبہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کی بے نظیر تفسیر اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے بے پایاں عشق قرآن کا مظہر ہے۔ جس طرح سو سال پہلے یہ مضمون دنیا بھر کے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی ایک شاندار فتح کا اعلان تھا اور دیگر الہامی کتب کے مقابل پر قرآن کریم کی برتری کا بے مثال اظہار تھا، اسی طرح آج بھی یہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح کو دنیا کے سامنے ایک نمایاں شان کے ساتھ پیش کرنے کے قابل ہے کیونکہ یہ وہ اعجازی مضمون ہے جس کے غلبہ کی بشارت دیتے ہوئے قبل از وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرمادیا تھا کہ اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قوموں کو شرمندہ کر دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خدائی وعدوں کے مطابق اس جلسہ میں ’’اللّٰہ اَکْبَرْ۔ خَرِبَتْ خَیْبَر‘‘ کے روحانی نظارہ کا وہ سماں پیدا ہوا جس نے مذاہب باطلہ کے محلّات ایک بار پھر زمیں بوس کر دئیے گئے۔
’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پانچ اہم سوالات کا قرآن کریم کی روشنی میں جواب دیا ہے اور ایسے دلنشیں پیرائے میں تشریح فرمائی ہے جو روحوں پر وجد طاری کر دینے والی اور اسلام کی عظمت کو دلوں میں قائم کرنے والی ہے۔ ان سوالات کا تعلق درج ذیل امور سے تھا: (1) انسان کی جسمانی،اخلاقی اور روحانی حالتیں۔ (2) حیات بعدالموت۔ (3) انسانی پیدائش کا مقصد۔ (4) دنیا اور آخرت میں اعمال کا اثر۔ (5) علم اور معرفت کے ذرائع۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس عظیم الشان مضمون کے لکھنے کی تقریب کیونکر پیدا ہوئی۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں کہ 1896ء کے نصف دوم میں ایک سادھو منش انسان جن کا نام شوگن چندر تھا، تلاشِ حق میں قادیان آئے۔ وہ تعلیم یافتہ تھے اور کبھی سرکاری ملازم بھی رہے تھے لیکن بعض حوادث اور عیال و اطفال کی وفات کی وجہ سے اُن کے خیالات کا رُخ بدل گیا اور وہ صداقت کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔ جب قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعودؑ کے وہ ایسا گرویدہ ہوئے کہ یہیں رہ جانے پر آمادہ ہوگئے۔
اُن کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ جلسہ اعظم مذاہب منعقد کرائیں۔ حضورؑ کی بھی شاید یہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایسی کانفرنس منعقد ہو جس میں قرآن شریف کے فضائل کے بیان اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کا موقع ملے۔ چنانچہ حضورؑ کی خواہش کی تکمیل کے لئے (سوامی) شوگن چندر نے اپنی خدمات پیش کیں اور بہت جلد انہوں نے ہندوؤں کے ہر طبقہ میں رسوخ حاصل کر کے اس جلسہ کی تجویز پیش کر دی اور اس جلسہ کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے حضور علیہ السلام کی طرف سے ہر رنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی گئی۔
آخر 26 تا 28؍ دسمبر 1896ء کی تاریخوں میں ٹاؤن ہال لاہور میں اس جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تو حضرت اقدس علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور بیماری کے باوجود ایک مضمون قلمبند کرنا شروع کیا جسے حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے جلسہ میں پڑھ کر سنانا تھا۔ اسی دوران حضرت مولانا صاحبؓ سیالکوٹ میں بیمار ہو گئے چنانچہ مکرم خواجہ کمال الدین صاحب کو متبادل کے طور پر تیاری کروائی جانے لگی۔ اگرچہ انہیں اردو خوانی کا ملکہ حاصل تھا لیکن آیات قرآنی کی تلاوت میں خامی تھی۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحبؓ بیماری کے باوجود لاہور تشریف لے آئے اور حضورؑ کی خواہش کے مطابق مضمون پڑھنے کے لئے تیار ہو گئے۔
جلسہ سے قبل ہی حضورؑ کو الہام ہوا ’’یہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘۔ چنانچہ حضورؑ نے 21؍دسمبر 1896ء کو ایک اشتہار شائع کرکے تاکید فرمائی کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔ اس اشتہار میں اس مضمون کے سب مضمونوں پر غالب رہنے کی الہامی خبر بیان کی گئی تھی۔ اور اس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا میں نے اس کی سطر سطر پر دعا کی ہے۔
اس جلسہ کے انعقاد کی راہ میں مخالفین کی طرف سے بہت روکیں پیدا کی گئیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور ہوتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ پروگرام کے مطابق ٹاؤن ہال نہ مل سکا تو اسلامیہ ہائی سکول کی زیادہ وسیع عمارت مل گئی۔
جلسہ کے دوران حضورؑ کے مضمون کا وقت ہوا تو اتنی مخلوق وہاں آئی کہ گنجائش نکالنے کے لئے سمٹنا اور سکڑنا پڑا۔ مضمون شروع ہوا تو بے اختیار لوگوں نے سبحان اللہ، سبحان اللہ کہنا شروع کیا۔ ہزاروں انسانوں کا مجمع بے حس و حرکت ہمہ تن گوش بیٹھا تھا۔ وقت ختم ہوگیا لیکن مضمون ابھی باقی تھا اس لئے حضورؑ کے مضمون کے لئے وقت مزید بڑھایا گیا اور پھر اس مضمون میں لوگوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے منتظمین نے جلسہ کے پروگرام میں ایک دن کا اضافہ بھی کردیا۔ مضمون ختم ہوا تو اپنوں کے ساتھ غیروں کی زبانیں بھی اس مضمون کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئیں۔
سوامی شوگن چندر جلسہ کی رپورٹ کی اشاعت تک تو قادیان آتے جاتے رہے پھر نہ معلوم وہ کہاں چلے گئے اور پہلے کی طرح غائب ہو گئے۔
اس جلسہ میں دس مذاہب کے 16 نمائندگان شریک ہوئے۔ عیسائیوں نے ایک میٹنگ کی اور متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے اس جلسہ میں شمولیت سے انکار کر دیا تاہم دو عیسائی لیڈروں نے ذاتی طور پر اس جلسہ میں شرکت کی جن میں سے ایک نے اظہار خیال بھی کیا۔
سر سید احمد خان صاحب نے جلسہ میں شریک ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے۔ اسی طرح دیگر کئی مشہور مسلم علماء مثلاً مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی، مولوی عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور سید محمد علی صاحب کانپوری نے اس جلسہ کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور ایسا شکست خور دہ کردار اپنایا گویا ان کی دینی غیرت سوئی ہوئی ہے۔ نیز اکثر علماء نے اپنے مضامین میں اصل سوالوں کی بجائے ضمنی باتیں بیان کیں یا جزوی طور پر کسی ایک سوال پر ہی اپنی رائے دی یا اپنے مضمون کے آغاز میں بیان کی جانے والی دلیل کو خود ہی بعد میں ردّ کر دیا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے نبوت اور معجزہ کی غیر متعلق بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’’انبیاء فوت ہو چکے، امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے۔ وارث انبیاء ولی تھے وہ کرامات رکھتے تھے لیکن وہ نظر نہیں آتے، زیر زمین ہوگئے۔ آج اسلام ان کرامت والوں سے خالی ہے…‘‘۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانیؓ فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کے مذکورہ دعویٰ کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں حضورؑ نے فرمایا کہ: ’’اندھا ہے جو کہتا ہے کہ ہم کہاں سے نشان دکھلائیں! آؤ مَیں نشان دکھاتا ہوں اور مَیں اندھوں کو آنکھیں بخشنے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ یہ فقرات بذاتِ خود نشان تھے کیونکہ حضورؑ کا مضمون مولوی صاحب کے مضمون کے بعد پڑھا گیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مضمون میں انسانی کردار پر ہونے والے غذاؤں کے اثرات کو بھی بیان فرمایا ہے۔ اور بتایا ہے کہ حلال اور طیب غذا کا اخلاق اور روح پر اچھا اثر ہوتا ہے جبکہ حرام اور غیرطیب غذا کے اخلاق اور روح پر منفی اثرت مرتب ہوتے ہیں۔ ایک ماہرِ غذا کا کہنا ہے کہ:
’’دماغ کی کیمیائی ترکیب اور اس کے افعال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ نے کیا کھایا ہے، جو چیز بھی آپ مونہہ میں ڈالتے ہیں وہ آپ کی طبیعت، بیدار مغزی، حافظے اور صحیح فکر میں تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے‘‘۔
غذا کے اخلاق پر اثر انداز ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہومیوپیتھک ادویات بھی ہیں جن کا دماغی رحجانات، کیفیات بلکہ مزاج پر بھی گہرا اثر ہے۔
الغرض اس کتاب میں بیان شدہ حقائق اتنے مستند اور ان کا بیان اتنا دلنشیں ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے غیرازجماعت بھی اس کی تعریف کئے بِنا نہیں رہ سکتے۔ دنیا کے چوٹی کے پروفیسروں اور فلاسفروں نے اس کتاب کو غیرمعمولی شاندار قرار دیا ہے۔
اب تک 60 سے زائد زبانوں میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کی دنیا بھر میں اشاعت کرنا ہر احمدی کا فرض ہے کیونکہ یہ وہ الٰہی تائید یافتہ کلام ہے جو سو سال پہلے بھی غالب تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک ادیان عالم پر دین اسلام اور قرآن کریم کی برتری کی مہر ثبت کرتا چلا جائے گا۔ اور اس زمانہ میں یہ بھی ان تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے مسیح محمدیؐ نے اپنے غلاموں کے ہاتھوں میں دے کر اعلان فرمایا تھا: اللّٰہ اَکْبَرْ۔خَرِبَتْ خَیْبَر۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق اور اپنے فہم اور استعداد کے مطابق اس روحانی مائدہ سے لطف اٹھاتا ہے۔ اس لئے اگر ابھی تک آپ نے کسی وجہ سے اس مضمون کا مطالعہ شروع نہیں کیا تو ابھی سے اس کا ارادہ فرمالیں۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا مطالعہ ہر اس شخص کے لئے فائدہ مند ہے جو اخلاقی اور روحانی میدانوں میں ترقیات کا خواہشمند ہے اور دنیا و آخرت میں اپنے خالق و مالک سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا شوق رکھتا ہے اور اپنی قوتوں اور استعدادوں کو خدا تعالیٰ کی کامل رضا کے تابع رکھ کر ان سے استفادہ چاہتا ہے۔ ہم میں کئی جب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا پہلی بار مطالعہ کریں گے تو انہیں یقینا خیال آئے گا کہ ابھی تک وہ کیوں اس کے مطالعہ سے محروم رہے ہیں!۔
ذیل میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے حیرت انگیز اثرات سے متعلق چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:
٭ مکرم ڈاکٹر حافظ صالح محمد الہ دین صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان لکھتے ہیں: میرے داداجان حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین مرحوم اسی کتاب کے پڑھنے سے احمدیت کی طرف راغب ہوئے تھے۔
1913ء میں جب آپ کی عمر 36 سال کی تھی قادیان سے آپ کے Firm کے نام رسالہ ریویو آف ریلیجنز برائے اشتہار موصول ہوا۔ اس سے پیشتر آپ نے قادیان کا نام نہیں سنا تھا اور مذہب سے آپ کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس لئے کئی روز وہ رسالہ آپ کے میز پر ہی پڑا رہا اور اس سے آپ نے استفادہ نہیں کیا۔ ایک دن رسالہ کے آخری صفحہ پر The Teachings of Islam کتاب کے متعلق جو اشتہار دیا گیا تھا اس پر نظر پڑی جس میں کتاب کی بہت تعریف کی گئی تھی۔ اس لئے آپ نے کتاب منگوائی، آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس کتاب سے مجھ پر ایسا معجزانہ اثر ہوا کہ میرے دل میں ایک نئی روح پھونکی گئی۔ اس کتاب میں آپ پر اس بات کا خاص اثر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف دعا سنتا ہے بلکہ اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ اس کا تجربہ کرنے کے لئے آپ نے خدا سے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ میرے والد صاحب جن کو فوت ہو کر دس سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ ان کی حالت مجھے معلوم کرا۔ دعا کرنے کے ایک یا دو روز بعد آپ نے اپنے والد کو خواب میں دیکھا وہ کہنے لگے کہ میں اب تک خوش ہوں۔ بعد میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ یا اللہ میری والدہ کا کیا حال ہے؟ وہ مجھے معلوم کرا۔ آپ جب تین سال کے بچے تھے آپ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا اس لئے آپ کو ان کا چہرہ بھی یاد نہ تھا۔ اس سوال کا جواب آپ کو جلد نہ ملا اور آپ کئی روز تک دعا مانگتے رہے۔ آخر ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک عورت تخت پر بیٹھی ہوئی ہے اس کے اطراف بہت سے لوگ جمع ہیں جن میں آپ بھی شریک ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ یہ عورت جو بڑے درجہ والی معلوم ہوتی ہے یہ کون ہے تو آپ نے جواب دیا کہ میری والدہ ہے۔ میری جنتی والدہ ہے اور جنتی والدہ ہے اور جنتی والدہ کے الفاظ بار بار کہتے ہوئے نیند سے ہوشیار ہوگئے۔ آپ کو اطمینان ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور جواب بھی دیتاہے۔
1915ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور آپ تہجد گزار خادم دین بزرگ بن گئے۔ آپ نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرایا اور اس کی اشاعت کی۔ نیز اس کتاب کے پڑھنے سے آپ کو قرآن مجید سے محبت پیدا ہوئی اور آپ نے Extracts From The Holy Quran کتاب شائع کی جس کے بارہ ایڈیشن آپ کی زندگی میں شائع ہوئے اور تیرھواں ایڈیشن آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ بفضل اللہ تعالیٰ آپ کی یہ کتاب بہت مقبول رہی۔
٭ مالابار کاعلاقہ ہندوستان کا جنوبی ساحلی علاقہ کہلاتا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اس ساحل سمندر پر بعض عرب تاجران نے تجارت کی غرض سے ڈیرے ڈالے۔ پھر ایک کے بعد دوسرے عرب تاجروں نے اس علاقہ کو اپنا مسکن بنایا اور یوں ہندوستان کے اس ساحلی علاقہ میں اسلام کی ابتداء ہوئی۔ ان عرب تاجروں کی اولاد آہستہ آہستہ ہندوستان کے کلچر اور تمدن میں ایسی رنگی گئی کہ بہت سی غیراسلامی بدعات اور ہندوانہ رسوم ان میں راہ پاگئیں۔ اس علاقہ میں احمدیت کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک محمد دیدی صاحب نے اپنے دوست ای عبدالقادر کٹی صاحب کو ’’جلسہ اعظم مذاہب کی رپورٹ ‘‘ بطور تحفہ دی (جس میں حضرت مسیح موعود کا مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ شائع ہوا تھا)۔ چنانچہ 1898ء میں ای عبدالقادر کٹی صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
٭ محترم ملک برکت علی صاحب گجرات کے رہنے والے تھے۔ لاہور میں محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ پیر جماعت علی شاہ صاحب کے مرید تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے روحانیت میں ترقی حاصل کرنے کے لئے پیر صاحب سے وظیفہ دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ’’تصور شیخ کرو‘‘ مگر مجھے تصور شیخ سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کے بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود کی تقریر ’’جلسہ مذاہب عالم لاہور‘‘ پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور میں نے قادیان جا کر بیعت کرلی۔ یہ غالباً 1897ء کا واقعہ ہے۔
٭ محترم بشیر احمد صاحب آرچرڈ پہلے انگریز واقف زندگی تھے۔ وہ 1944ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران لیفٹیننٹ تھے اور ہندوستان اور برما کی سرحد پر متعین تھے۔ ایک احمدی حوالدار کلرک عبدالرحمن صاحب دہلوی کے کہنے پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے محترم آرچرڈ صاحب کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور ’’احمدیت‘‘ بھجوائی۔ جن کا مطالعہ کرنے کے بعد محترم آرچرڈ صاحب نے قادیان جاکر حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرلی۔
٭ مکرم ڈاکٹر حافظ صالح محمد الہ دین صاحب (سابق صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان) لکھتے ہیں کہ محترم صدیق امیر علی صاحب نہایت ہی مخلص خادم دین بزرگ تھے۔ وہ کیرالہ کے صوبائی امیر رہے۔ ان کا احمدیت سے تعارف ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے ذریعہ پیدا ہوا۔ وہ کسی دکان میں کوئی چیز خریدنے کے لئے گئے تو دکاندار نے اس چیز کو باندھنے کے لئے جو کاغذ استعمال کیا وہ کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے اوراق تھے۔ وہ ان صفحات کو پڑھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہ دوبارہ اس دکان پر گئے اور دکاندار سے کہا کہ تم نے جس کتاب سے یہ اوراق پھاڑے ہیں وہ کتاب مجھے دے دو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک سعید روح کو یہ کتاب پہنچانے کا انتظام فرمایا۔
٭ الحاج مغربی الطرابلسی نے حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھ کر 1905ء میں دولت ایمان حاصل کی۔ آپ نے حضور کی عربی کتب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ تو گویا ازبر تھا۔
٭ حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ فرماتے ہیں: دسمبر 1914ء میں مجھے جنگ پر اپنی کور کے ہمراہ بنوں اور میراں شاہ وغیرہ جانا پڑا۔ میں نے کمانڈنگ افسر میجر وارڈل کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ (انگریزی) دی تو بعد مطالعہ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب بہت عمدہ تالیف ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا اردو ترجمہ کردو تاکہ اپنی یونٹ کے عہدہ داروں میں اس کی نقول تقسیم کر دوں۔ مجھ سے یہ معلوم کرکے کہ اصل کتاب اردو کی ہے۔ اس کی 37 جلدیں سرکاری خرچ پر وی پی منگوائیں۔ باوجودیکہ میں نے ان سے کہا کہ اس کی تقسیم سے فتنہ پیدا ہوگا اور غیراحمدی شکایت کریں گے کہ یہ احمدی بابو ان لوگوں کا مذہب تبدیل کرانا چاہتا ہے۔ افسر موصوف نے کہا ہم کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ میں نے کہا کہ آپ برطانوی افسر ہیں۔ آپ کو تو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن ساری بلا میرے گلے آپڑے گی۔ مگر وہ نہیں مانے اور کہا کہ ہم حکم دیتے ہیں۔ پھر میجر رسالدار راجہ راج ولی اور خاکسار بنوں پہنچے تو وہاں تمام غیراحمدی عہدہ داروں نے شکایت کی کہ بابو فضل احمد کافر ہے۔ ہم اس کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ یہ ہمارا مذہب خراب کررہا ہے۔ اس کا تبادلہ کردیا جائے۔ … اتنے میں سامنے سے افسر موصوف آگیا اور رسالدار نے فال ان (Fall In) کرادیا اور صاحب نے ہر ایک کو ایک ایک نسخہ دیا اور ہر ایک نے شکریہ ادا کیا اور سیلوٹ کیا اور کتاب لے لی۔ اس کے بعد صاحب نے اس کتاب کی تعریف کی اور کہا کہ اسے پڑھا کرو۔ میری میم صاحب تو اس کتاب کی عاشق ہے۔
چند روز بعد صاحب موصوف کے تبادلہ پر ہم الوداع کہنے بنوں ریلوے سٹیشن پر گئے تو موصوفہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ میں آپ کی اس کتاب کو ساتھ لے جارہی ہوں۔ میں اس سے علیحدگی پسند نہیں کرتی اور اس کی بہت تعریف کی۔ اس افسرکا یہ کہنا تھا کہ میرے دل پر اس کتاب کا ایسا اثر ہوتا ہے جیسے دہکتے ہوئے کوئلوں پر پانی گرنے سے ٹھس ٹھس کی آواز آتی ہے۔ ایسا ہی میرے دل کے شعلے اس سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔
٭ مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب لکھتے ہیں: مائیکل انتھونی ڈمٹ آکسفورڈ یونیورسٹی انگلستان کے مشہور استاد فلسفہ ہیں اور بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔ 1967ء میں برٹش اکیڈمی کے فیلو بنائے گئے اور 1995ء میں Rolf Shock انعام سے نوازا گیا۔ امریکہ کی اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنس کے 1985ء سے اعزازی رکن ہیں۔ 1989ء میں میری درخواست پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے انہیں شرف ملاقات بخشا اور وہ حضور سے بہت متاثر ہوئے۔ 1997ء میں مَیں نے انہیں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ پیش کیا تو بعد ازاں انہوں نے جواباً تحریر کیا: ’’میں کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کو پڑھ کر بے حد متاثر ہوا ہوں۔ یقینا احمدیہ جماعت کے بانی ایک عظیم عالی دماغ اور بہت فصیح البیان شخصیت کے مالک تھے۔ کتاب میرے اس تأثر کو ثابت کرتی ہے کہ یہ جماعت جو آپ نے قائم فرمائی اسلام کے تمام فرقوں میں سب سے زیادہ معقولیت پسند اور گہری سوچ کی حامل ہے۔ میں کتاب میں بیان فرمودہ مضامین سے بہت متفق ہوں۔ …‘‘
٭ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دلی میں مسز سروجنی نائیڈو سے ملنے گیا۔ موصوفہ سے میں نے کہا کہ آپ کرشن اول کو تو مانتی ہیں۔کرشن ثانی کو کیوں نہیں مانتی؟ مسز نائیڈو نے اپنے نوکر کو آواز دے کر کہا میرے سرہانہ کے نیچے جو کتاب ہے وہ اٹھالاؤ۔ نوکر کتاب لے آیا اور مسز نائیڈو کی طرف کتاب بڑھائی۔ اس نے کہا یہ کتاب مجھے نہ دو۔ چوہدری صاحب کو دو۔ چوہدری صاحب نے کہا میں نے وہ کتاب لے لی اور اسے کھولا تو معلوم ہوا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ ہے۔ میرے چہرے پر حیرت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جسے دیکھ کر مسز نائیڈو نے کہا کیا آپ اب بھی کہتے ہیں میں کرشن ثانی کو نہیں مانتی؟
٭ رائل اکیڈمی آف قرطبہ کے صدر نے یہ کتاب پڑھ کر لکھا: … میں نے کتاب بڑے گہرے شوق سے پڑھی۔ اس کتاب کی پُرمعارف تعلیم سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں۔ یہ حقیقی طور پر روحانی علم و عرفان کا خزانہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے دل و دماغ واقعی معطر ہو گیا۔
٭ سیرالیون کے شہر Port Loko میں ٹیچرز کالج کے ایک احمدی استاد مسٹر عبدل کروما بیان کرتے ہیں کہ کالج کی پرنسپل (سیرالیون کے نائب صدر مسٹر ایس آئی کروما کی اہلیہ) پر عیسائی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے سبب عیسائیت کے گہرے نقوش تھے اپنے خاوند کی خواہش پر وہ مسلمان کہلانے لگ گئیں لیکن اسلام میں انہیں کوئی جاذبیت نظر نہیں آئی تو انہوں نے عیسائی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کشمکش میں انہوں نے ایک پادری اورمجھے بلاکر اسلام اور عیسائیت کے بارہ میں معلومات حاصل کیں۔ دونوں نے اپنے اپنے مذہب کی نمائندگی کی لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائیں تو مَیں نے انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اگلے روز ہی انہوں نے کہا کہ میں رات دیر تک یہ کتاب پڑھتی رہی ہوں اور آخرکار میں نے مسلمان رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
٭ حضرت مصلح موعود کو 1952ء میں بذریعہ خواب بتایا گیا کہ سلسلہ کا لٹریچر سنہالی زبان میں بھی شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے۔ اس رؤیا کا پہلا شاندار ظہور 3؍اکتوبر 1956ء کو ہوا جبکہ جماعت احمدیہ سیلون کی طرف سے اسلامی اصول کی فلاسفی کا سنہالی ترجمہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ اور اس کتاب سے متعلق ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اگرچہ سیلون ریڈیو نے چند ماہ پہلے جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت کی تھی مگر اس تقریب سے چاردن قبل اس نے متواتر اپنی خبروں میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا اور کتاب کی اہمیت بیان کی اور جماعت احمدیہ کی دینی خدمت کی تعریف کی۔ پھر تقریب کے بعد انگریزی، تامل، سنہالی سب زبانوں میں اس واقعہ کی نمایاں خبر نشر کی۔ سیلون پریس نے بھی اس تقریب کی غیرمعمولی اشاعت کی۔ سیلون کے بدھسٹ وزیراعظم نے بھی اس کتاب کے بارہ میں پیغام بھجوایا۔
٭ سپین میں حضرت مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے حضرت مصلح موعود کی کتاب اسلام کا اقتصادی نظام شائع کی۔ یہ سپینش میں پہلی احمدی کتاب تھی اور اس کے بعد انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی شائع کرنے کا پروگرام بنایا تو سب سے دشوار مرحلہ اجازت کا تھا۔ محکمہ سنسر شپ کے انچارج پروفیسر Deneyto نے اپنی ذاتی ذمہ داری پر اس کتاب کی اجازت دیدی اور تاکید کردی کہ جلد طبع کردو تاکہ روک نہ پڑ جائے۔ لیکن 1950ء میں ابھی کتاب تیار کرکے سرورق لگایا جارہا تھا کہ وزیرتعلیم نے ایک خاص آرڈر کے ذریعہ اشاعت روک کر تقسیم شدہ کاپیاں ضبط کرنے کا حکم دیا۔ اُس نے مولوی صاحب سے ملنے یا آپ کے کسی خط کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔
سپین کی وزارت خارجہ نے ایک روز مولوی صاحب کو بلا کر کہا کہ اگر آپ اس کتاب میں سے بعض عبارتیں حذف کرنے کو تیار ہوں تو ہم اسے شائع کرنے کی اجازت دیدیں گے۔ آپ نے کہا کہ ایسا مطالبہ دنیا کا کوئی بھی انصاف پسند اور عقلمند انسان تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ یہ خالص ایک مذہبی کتاب ہے اور اس کے مصنف ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے۔ ان کی کتاب میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔
محترم مولوی صاحب نے مختلف شخصیتوں کے ذریعہ سے بھی اس پابندی کے اٹھائے جانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ ان ایام میں لندن کے ایک نئے احمدی محمد یٰسین صاحب نے مولوی صاحب موصوف سے کتاب کا سپینش ترجمہ اور سپین کے معزز اشخاص کے پتے لے کر لندن سے کتاب انہیں بھجوادی۔ مولوی صاحب نے بھی سپین کے صدر جنرل فرانکو کی خدمت میں ایک نسخہ بھجوا دیا تو جنرل موصوف نے ایک خط کے ذریعہ دلی شکریہ ادا کیا اور بے حد پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے کتاب کی محدود رنگ میں تقسیم شروع کر دی۔ پولیس والے اکثر جواب طلبی کے لئے آیا کرتے لیکن جب آپ اُن کو جنرل فرانکو کا خط دکھاتے تو وہ خط کی نقل لے کر چلے جاتے۔ اس کے علاوہ بھی جن اہم لوگوں نے کتاب سے متعلق اپنے اعلیٰ تأثرات کا اظہار کیا ان میں کارڈینل آرچ بشپ اشبیلیہ بھی شامل تھے۔ اس خط کا بھی بہت فائدہ ہوا۔ عوام اور پولیس میں سے جو لوگ مولوی صاحب موصوف کے پاس آتے تو آپ انہیں اس خط کی فوٹو کاپی دکھا دیتے جس سے ان پر یہ گہرا اثر پڑتا کہ جب ان کے ایک مذہبی راہنما کو کتاب بہت پسند آئی ہے تو کتاب مفید ہی ہوگی۔
بالآخر چودہ برسوں کے بعد انفارمیشن منسٹر D. Manuelfraga نے اس کتاب کی اشاعت کی اجازت دیدی تو اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں اور دوسرا ایڈیشن چھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ جس پر کئی اہم لوگوں نے جواباً اس کتاب کی برملا تعریف بھی کی۔