جلسہ سالانہ بنگلہ دیش 2009 سے اختتامی خطاب

بنگلہ دیش کے جلسہ سے میرا پہلا براہ راست مخاطب ہونا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے ایسے راستوں کی خوشخبریاں دے جو راستے کی تمام روکوں سے صاف ہو۔

اللہ تعالیٰ وہ موقع بھی لائے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا جب خلافت احمدیہ دنیا کے تمام ملک ،
کیا مشرق ا ور کیا مغرب ، کیا شمال اور کیا جنوب میں عزت و احترام سے دیکھی جائے گی اور اس کی پذیرائی ہوگی۔

اپنے قادر وتوانا خدا سے ایسا دل لگائیں جس کے مقابلے میں سب رشتے ہیچ ہوں ۔
اگر ہم یہ تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے قائم کرلیں گے تو حقیقت میں یہی ہماری کامیابی کا دن ہوگا۔

خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دینا ہماری ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔

بنگلہ دیش کی جماعت ان خوش قسمت جماعتوں میں سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کے لئے تائیدات کے نظارے خود دیکھے ہیں۔آپ میں سے ہر ایک گواہ ہے کہ دشمن کے جو منصوبے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔اس سیاہ آندھی میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی بدلیاں بھیجیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پانی برسایا اور فضا صاف ہو گئی۔

ہر مخالفت کے بعد جماعت ایک نئی شان سے ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ یہ صرف بنگلہ دیش کی بات نہیں ،
دنیا کے ہر خطہ اور ہر ملک میں اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش اسی طرح برساتا رہاہے او ربرسا رہا ہے ۔

ہم محبتوں کے پیغامبر ہیں ۔ پس ا س پیغام کو اپنے ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں۔ دعوت الی اللہ کے کام میں حکمت کے ساتھ ایک نئی روح پھونک دیں۔

15؍فروری2009ء کوجماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ محمود ہال لندن سے براہ راست ولولہ انگیز خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اس زمانے کی ایجادات سے فائدہ اٹھانے کی حضرت مسیح موعود؈ کی جماعت کوبھی توفیق عطا فرمائی ۔بلکہ آج کل کی یہ ایجادا ت جو دنیا کے فائدہ کے لئے ہیں اس زمانے میں کی ہی اس لئے گئی ہیں یا اس لئے سامنے آئی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کی جماعت اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔آج اگر دنیا کی دولتوں کو دیکھیں تو ایک ایک آدمی کے پاس لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کی مالیت کی دولت ہے۔اور جماعت احمدیہ کا پوری دنیا کا مالی بجٹ ان لوگوں کے قریب بھی نہیں پہنچتا ۔لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہیں اور جو استعمال اس تھوڑے سے پیسے سے خدا تعالیٰ کرواتا ہے اور جو نتائج برآمد ہوتے ہیں،جو فیض یہ تھوڑا سا پیسہ دنیا کوروحانی اور مادی لحاظ سے پہنچا رہا ہے اس کے قریب بھی یہ دنیا دار نہیں پہنچ سکتے۔ان کی دولت ان کے پاس آتی ہے اور دنیاوی لہو ولعب میں ضائع ہو جاتی ہے یا دنیا میں جنگوںاور فسادوں کی نظر ہو جاتی ہے۔اور انفرادی دولتمندوں کی بات تو ایک طرف، حکومتیں بھی اپنے وسائل اور دولت سے اس طرح استفادہ نہیں کر سکتیں جس طرح محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ اپنے کم سے کم وسائل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر رہی ہے۔آج یہ ایم ٹی اے چینل جس کے چلانے کی خداتعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو توفیق دی چوبیس گھنٹے مختلف سیٹلائٹس کے ذریعہ سے مختلف زبانوں کے ساتھ تمام براعظموں کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔اور جس قدر کم اخراجات سے چل رہا ہے اور بغیر کسی لہوولعب کے چل رہا ہے اس کے متعلق تو دنیا دار کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔پس کل ہم جس حسرت اور خواہش کے ساتھ اس زمانے کی ایجاد کواستعمال ہوتے دیکھتے تھے جس میں زیادہ تر استعمال غلط ہی تھا اور آج ہم جب دنیا کو بتائیںکہ بغیر کسی اشتہار کے اور بغیر کسی پیشہ ور ماہرین کی مدد کے ہم چوبیس گھنٹے یہ چینل چلا رہے ہیں تو وہ حیرت اور حسرت سے ہمیں دیکھتے ہیں۔پس یہ خداتعالیٰ کے احسانوں میں سے بہت بڑا احسان ہے جو آج ہم اس زمانے کی ایجادات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اور آج مَیں اسی واسطے سے آپ بنگالیوں سے بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے مخاطب ہوں۔آج دنیا میں امیر ترین ملکوں میں بھی اس طرح باقاعدہ لائیوخطاب کا انتظام نہیں جس میں ایک ملک سے بیٹھ کردوسرے ملک کے مجمع کومخاطب کیا جا رہا ہو۔اور ایک دوسرے کے جلسوں کے نظارے دیکھے جا رہے ہوں۔بیشک Live پروگرام ہوتے ہیں لیکن انہی ملکوں میں اَور یا زیادہ سے زیادہ چند دلچسپی رکھنے والے ان پروگراموں کو دیکھ کر ان میں شامل ہو رہے ہوتے ہیںلیکن ایک مجمع ایک خاص مقصد کے لئے جمع ہو جہاں صرف دینی باتیں کی جا رہی ہوں، یہ کہیں نہیں ہوتا۔پس سب سے پہلے تو ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے باوجود دوریوں کے آپس میں ایک دوسرے کوچاہنے والوں اور محبت کرنے والوں کے فاصلے کم کر دئیے ہیں۔ہم آمنے سامنے بیٹھ کر کچھ حد تک اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے امیر صاحب کی خواہش تھی کہ اس طرح لائیو پروگرام ہو جائے تو ہمارے لئے بہت فائدہ مند ہو گا۔کیونکہ ایک خاصی بڑی تعدادتقریباً چار سے پانچ ہزار جس نے قادیان کے جلسے پر جانا تھااچانک جلسہ ملتوی ہو جانے کی وجہ سے افسردہ تھی۔جماعت احمدیہ کی سرشت میںگو مایوسی نہیں ہے البتہ افسردگی ضرورہو جاتی ہے۔لیکن یہ افسردگی دعائوں کے روپ میں ڈھل جاتی ہے۔اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلوں کو تسلی ہوتی ہے۔اور ہر روز ایک نیا عزم اورایک نیا جوش افراد جماعت کے اندر پیدا کر دیتی ہے۔
اسی قسم کے مضمون کے خط پاکستان، ہندوستان سے میں وصول کر رہا ہوں۔اور مجھے کامل یقین ہے کہ آپ سب جو قادیان جانے والے تھے انہوں نے اپنی دعائوں میں بھی پہلے سے بڑھ کر تیزی پیدا کی ہوگی تاکہ صرف قادیان میں یا ہندوستان کے کسی شہر میں ملنے کی باتیں نہ ہوں بلکہ میںآپ سے آپ کے ملک میں ملوں۔یہ بنگلہ دیش کے جلسہ سے میرا پہلا براہ راست مخاطب ہونااللہ تعالیٰ کے فضلوں کوسمیٹتے ہوئے ایسے راستوں کی خوشخبریاں دے جو راستے کی تمام روکوں سے صاف ہواور آپ کے ملک میں آپ کے درمیان بیٹھ کرمَیں مخاطب ہوں۔ اللہ تعالیٰ وہ موقع بھی لائے گااور انشاء اللہ تعالی ٰضرور لائے گاجب خلافت احمدیہ دنیا کے تمام ملک، کیا مشرق اور کیا مغرب کیا شمال اور کیا جنوب میں عزت اور احترام سے دیکھی جائے گی اور اس کی پذیرائی ہو گی۔لیکن ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ یہ موقع ہماری زندگیوں میں پیدا فرمائے اوراس کے لئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر پیدا کرنے والے خدا کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔اپنی زندگیوں میں ایک انقلابِ عظیم پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اپنی سجدہ گاہوں کو اپنے آنسوئوں سے تر کرنے کی ضرورت ہے۔اپنی دعائوں میں ایسا ارتعاش پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس سے عرش کے پائے بھی ہلنے لگیں۔اپنی دعائوں میں وہ سوز پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو خدائے مجیب کو ہمارے قریب تر لے آئے۔اور ہم فَاِنِّیْ قَرِیْب کامژدہ جانفزا اور ہر احمدی ایک نئی شان کے ساتھ اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّعِ اِذَادَعَانِ (اور جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تومیں اس کی دعا کو سنتاہوں) کے نظارے دیکھے۔پس اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہو گی۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہمیں قدم بڑھانے ہوں گے۔اور پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ خدا،وہ رحیم رحمان خدا،وہ خدا جس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے ،وہ خدا جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے کس طرح دوڑتا ہوا ہماری طرف بڑھے گا۔وہ جو مالک ارض وسما ہے کس طرح اپنے پیاروں کو نقصان پہنچانے والوںکے خلاف ان کی مدد کے لئے آگے آئے گا۔
پس سب سے پہلے ہمارا یہ فرض بنتا ہے اور یہ بات میں خاص طور پر کہنی چاہتا ہوںکہ اپنے اس قادر وتوانا خداسے ایسا دل لگائیں جس کے مقابلے میں سب رشتے ہیچ ہوں۔دنیا کی سب دولتیں خدا تعالیٰ کے مقابلے میں کوڑی سے زیادہ وقعت نہ رکھتی ہوں۔اگر ہم یہ تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے قائم کر لیں گے تو حقیقت میں یہی ہماری کامیابی کا دن ہو گا۔پس ہر بچہ، جوان،بوڑھا، عورت، مرد یہ پلّے باندھ لے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کے آگے جھکنا اور تڑپنا ہی ہماری زندگی کا مقصود ہے۔اور یہ مقصود خود خداتعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) یعنی مَیں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں۔پس یہ اصل ہے جس کو آج ہر احمدی کو پکڑنے کی ضرورت ہے۔اور یہی وہ اصل اورمقصد ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ:
’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوںتاایمانوں کو قوی کروں۔اور خداتعالیٰ کا وجودلوگوں پر ثابت کر کے دکھلائوں۔کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں کمزور ہو گئی ہیں۔اور عالم آخر ت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیااور دنیا کی جاہ ومراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیاوی اسباب پر ہے یہ یقین اور بھروسہ ہرگز اس کوخداتعالیٰ اور آخرت پر نہیں ہے‘‘۔
(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ292-291 ۔حاشیہ ۔ مطبوعہ لندن)
پس یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا۔اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں شامل کر کے ان خوش قسمتوں کی صف میں شامل فرمایاجو اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کا اعلان کرنے والے ہیں۔اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے حصول کے مطابق ڈھالنے والے ہیں۔اور اس بات پر ہم نے عہد بیعت باندھا ہے۔پس خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دیناہماری ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔مجھے امید ہے کہ جلسے کے ان دنوں میں جس طرح آپ نے اپنی عبادتوں اور دعائوں پر توجہ دی ہے اس کو ہمیشہ اپنی زندگی کاحصہ بنا لیں گے۔صرف مشکل میں گرفتار ہونے کے بعد ہی خداتعالیٰ کی یاد نہیں آئے گی۔بلکہ عبادتیں اور دعائیںہر احمدی کا اوڑھنا بچھونا ہو جائیں گی۔اور جب ہم حقیقت میں ہر حالت میں امن کی حالت میں بھی اور تنگی اور فساد کی حالت میں بھی خالص ہو کر خداتعالیٰ کو پکارنے والے ہوں گے تو خداتعالیٰ ہماری ہر مشکل کو خس وخاشاک کی طرح اڑا دے گا۔اور یہ کوئی ایسی باتیں نہیں جو وقتی جوش پیدا کرنے کے لئے مَیں کہہ رہا ہوں بلکہ بنگلہ دیش کی جماعت ان خوش قسمت جماعتوں میں سے ہے جس نے حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوۃ و السلام اور آ پ کی جماعت کے لئے تائیدات کے نظارے خود دیکھے ہیں۔بہت دور کی بات نہیں بلکہ ماضی قریب میں ان تائیدات کے نظارے دیکھے ہیں۔اس وقت آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو اس وقت میری یہ باتیں سن رہے ہیں۔جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دشمن کے خوفناک منصوبوں اور حملوں کو اپنے اوپر ایک سیاہ اور خوفناک آندھی کی صورت میںچھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن کیا دشمن کامیاب ہو گیا؟آپ میں سے ہر ایک گواہ ہے کہ دشمن کے جو منصوبے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔اس سیاہ آندھی میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی بدلیاں بھیجیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پانی برسایا اور فضا صاف ہو گئی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی انتہائی خوف کی حالت کو امن میں بدلا۔اللہ تعالیٰ نے غیر از جماعت میں سے ہی بہت سے شریف الطبع اورسعید فطرت لوگوں کو جماعت کی حمایت کے لئے کھڑا کیا۔جنہوں نے دنیاوی لالچوں کو ردّ کرتے ہوئے اورسخت ترین مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے حق کا ساتھ دیا۔پس یہ کوئی انسانی کوشش نہیں تھی۔ یہ اُس قادر وتوانا خدا کا ہاتھ تھاجس نے شریف فطرت لوگوں کے دلوں کو شرافت کے لئے ابھارا اور انہیں حق بات کہنے اور لکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ورنہ ہم بندوں کی کیا حیثیت ہے جن کے پاس جیسا کہ میں نے پہلے کہا نہ کوئی مال ودولت ہے، نہ کوئی دنیاوی جاہ وحشمت ہے۔ہاں ہمارے پاس ایک دولت ہے اور وہ دولت ہمیں آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنے آقاومطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اور ان سے لے کر ہمیں دی ہے۔اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھتے ہوئے اس کے سامنے حقیقی رنگ میں جھکنا۔ اس خدا کے آگے جھکنا جس نے کائنات کی ہرچیز پیدا کی ہے۔ اس خدا کے آگے جھکنا جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے ۔اس خدا کے آگے جھکنا جو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔پس اگر ہم شکر کرتے کرتے اپنی زندگیاں بھی ختم کر دیں تب بھی ہم اس خدا کا حقیقی رنگ میں شکر ادا نہیں کر سکتے۔بیشک ان امتحانوں اور ابتلائوں میں انفرادی طور پرافراد کا نقصان تو ہوتا ہے اور ہوا ہے لیکن دشمن کا جو منصوبہ ہوتا ہے کہ جماعت کو ختم کر دے اس میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا اورنہ ہو سکتا ہے۔ اور ہر مخالفت کے بعدجماعت ایک نئی شان سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔یہ صرف بنگلہ دیش کی بات نہیں دنیا کے ہر خطہ اور ہر ملک میں اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش اسی طرح برساتا رہا ہے اور برسا رہا ہے۔اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔بلکہ اس سے بھی پہلے ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔اُس وقت بھی مخالفت کی آگ میں بھڑکنے والے کئی کئی طرح سے جذبات ابھار کر آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے لوگوں کوبھیجتے تھے۔جو زہر میں بجھی ہوئی تلواریں آپ پروار کرنے کے لئے لے کر آتے تھے۔اور جب وہ دشمن آپ کے پاس پہنچتے تھے اور آپ ان کے ارادوں کو بھانپ لیتے تھے یا خداتعالیٰ ان کے ارادوں کی آپ کو خبر دے دیتا تھا اور جب آپ ان کو یہ بتاتے تھے کہ تم اس ارادہ سے آئے ہو تو وہ فوراً کلمہ حق پڑھ لیتے تھے، کلمہ شہادت پڑھ لیتے تھے۔ان کو احساس ہو جاتا تھاکہ ہم غلط ہیں اور مخالفت کی آگ میں اپنے سرداروں کے کہنے پر ہم خود جل رہے ہیں۔یقینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا سچا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کئی لوگ مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی محمد حسین بٹالوی کی تقریریں سن کر آتے تھے اور حق کو پہچان کر اسے قبول کر لیتے تھے۔اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں یہ عرض کرتے تھے کہ میری بیعت کا باعث کسی احمدی کی تبلیغ نہیں، نہ ہی کسی قسم کا لٹریچر ہے بلکہ فلاں مولوی کی مخالفت ہے۔آپ کے اپنے ملک بنگلہ دیش میں کئی ایسی مثالیں ہیں جنہوں نے مخالفین کا لٹریچر پڑھ کرجستجو کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوی کو سچ سمجھ کر قبول کیا۔ مثلاً ابتدائی احمدیوں میں سے حضرت مولوی سید عبدالواحد صاحب آف براہمن بڑیہ ہیں۔جو بڑے جید عالم تھے۔انہوں نے مخالفین کی شورش پرلٹریچر منگوایا اور اسے پڑھا اور حضرت مسیح موعود؈ کے ریویو آف ریلیجز کے ایک مضمون کو پڑھ کر ان پر روشنی آشکار ا ہوئی۔گو کہ ان کا دل حضرت مسیح موعود؈ کے تمام دعاوی پر مطمئن تھالیکن چونکہ خودقادیان جا کر بیعت کرنا چاہتے تھے اس لئے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قادیان جا کر بیعت کی اور پھر بہت سوں کی ہدایت کا باعث بنے۔ نیک فطرت مولوی تھے۔ حق کی تلاش تھی۔ آج کل کے نام نہاد علماء کی طرح نہیں تھے جو صرف مخالفت برائے مخالفت کرنا جانتے ہیں۔جب حضرت سید عبدالواحد صاحب نے بیعت کی اور واپس گئے تو آپ کی بھی بہت مخالفت ہوئی۔ لیکن پھر بھی جیسا کہ مَیں نے بتایاوہ اپنے اس عہد بیعت پر قائم رہے اور نہ صرف قائم رہے بلکہ بہت سو ں کی ہدایت کا باعث بنے اور وہاں علاقہ میںان کو تبلیغ کرتے رہے۔ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں بیعتیں کروائیں۔ان بیعت کرنے والوں کی بھی بہت مخالفت ہوئی۔ لیکن اس مخالفت کے باوجود انہوں نے چونکہ حق کو پہچان لیا تھااس لئے بڑی جرات سے اس پر قائم رہے اوراس حق کا اظہار بھی کرتے رہے۔ہو سکتا ہے کہ اس وقت آپ جو میرے مخاطب ہیں ان میں سے بھی بعض ان بیعت کرنے والوں کی اولادوں میں سے ہوں ۔پس اپنے بزرگوں کی بیعت کے قصے اپنے گھروں میں جاری رکھیں تا کہ آئندہ نسلوں کے ایمانوں میں بھی مضبوطی پیدا ہوتی رہے۔اگلی نسلیں بھی ایمان میں بڑھیں اور مخالفتوں سے پریشان نہ ہوں بلکہ مخالفت کو اپنے لئے کھاد سمجھیں۔جس طرح کھاد ڈالنے سے فصل بہتر ہوتی ہے اسی طرح مخالفت سے احمدیت بڑھتی او ر پنپتی ہے۔اور آج بھی آپ میں سے بہت سو ں کی طرح دنیا کی کئی جگہ پراحمدی گواہ ہیں کہ مخالفتیں جماعت کو ختم نہیں کرتیں بلکہ احمدیت کے لہلہاتے کھیت ایک نیا رنگ اور ایک نئی شان دکھاتے ہیں اورلہلہاتی فصلیں نظر آتی ہیں۔آج بھی ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا زندہ خداہے او رسب قدرتوں کا مالک خدا ہے اورسعید فطرتوں پر حق کھولتا ہے۔ آج ہم میں سے ہر ایک گواہی دیتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہی مسیح موعود کا خدا ہے جس نے اپنی تمام تر تائیدات اور وعدوں کے ساتھ آپ کو بھیجا ہے اور بڑے واشگاف الفاظ میں آپ سے یہ اعلان کروایا ہے کہ ’’آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔(تذکرہ ۔الہام 29؍جولائی 1904ء)اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایاکہ ’’ میں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں‘‘۔
(تذکرہ۔ الہام دسمبر1907ء)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر آ پ نے جو آپؑ سے پیار کا تعلق جوڑا ہے اس میں بڑھتے چلے جائیں۔خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں تا کہ خداتعالیٰ ہمیشہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پیاروں میں شمار کرتے ہوئے ہمارے ساتھ رہے۔
آپ نے گزشتہ چند سالوں میں اپنے خلاف مخالفین کی انتہا دیکھی ہے۔اپنے پیاروں کی جانیں خداتعالیٰ کی راہ میںقربان ہوتے دیکھی ہیں۔اپنے مالوں کے نقصان برداشت کئے ہیں۔لیکن آپ نے اپنے ایمان پر آنچ نہیں آنے دی اوراپنے ایمان کی مضبوطی کا ایک ایسا معیار قائم کیا جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے اور ان کے لئے ایمان میں زیادتی کا باعث بنے گا۔ آپ سب گواہ ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں جماعت کو ختم کرنے کی جو کوششیں ہوئیںکیا اس نے احمدیت کی جڑیں ہلا دیں؟ نہیں۔ بلکہ ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی۔میری روزانہ کی ڈاک میں بنگلہ دیش کے مخلصین کے بھی خطوط ہوتے ہیں۔ان میں اپنے ایمان اور ایقان میں زیادتی کے بیان اور دعا کی درخواست ہوتی ہے۔اس کے مقابل پر دیکھیں مخالفین جو اپنی دنیاوی طاقت کے زعم میںاحمدیت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا کیا اور کس طرح رسو اکیا۔اگردیکھنے کی آنکھ ہوتو یہ لوگ دیکھیں اور سمجھیں۔ہمیں کسی کی رسوائی سے کوئی تعلق نہیں، کوئی غرض نہیں۔ ہم تومخالفین کی اصلاح کے لئے بھی دعاکرتے ہیں۔ہم تو اس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں جس نے محبتوں کو پھیلانے اور نفرتوں کو دور کرنے کی ہمیں تعلیم دی ہے۔ہمیں تو یہ سکھایا گیا ہے کہ اگرتم اپنے دشمنوں کے لئے بھی کینہ رکھواور اس کے لئے دعا نہ کرو تو تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی۔پس ہم تو محبتوں کے پیغامبرہیں۔پس اس پیغام کو اپنے ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں۔اپنے ہم وطنوں کو بتائیں کہ اسلام تو نام ہی محبت اور پیار کا ہے جس میں اپنے پیدا کرنے والے خدا اور اس کی مخلوق سے محبت کرنا سکھایا جاتا ہے۔مسلمانوں کو بھی ا ور غیر مسلموں کو بھی اسلام کا یہ حسن دکھائیں۔ان کو بتائیں کہ مسیح محمدی نے نہ تلواریں چلانی ہیں اور نہ قتل کرنا ہے۔ہاں پیار اور محبت کے تیروں سے دلوں کوگھائل کرنا ہے۔جس سے خون نہیں بہتے، زندگیاںختم نہیں ہوتیں بلکہ نئی زندگیاں ملتی ہیں۔اپنے پیدا کرنے والے خدا کی پہچان ہوتی ہے۔حضرت محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت کا تعلق پیدا ہوتاہے۔ انسان اپنے مقصد پیدائش کو پہچانتا ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔آج دکھی انسانیت کو اس تعلیم کی ضرورت ہے اور یہ تعلیم دینا اور اس پیغام کو ہر جگہ پہنچا ناہر احمدی کا کام ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ انسانیت کے دشمن اور مذہب کے نام پر خون کرنے والے آپ کی راہ میں روکیں ڈالیں گے۔مخالفتیں ہوں گی۔دوبارہ موقع ملے گا تو اسلام کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار احمدیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن آپ نے ثبات قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا (البقرۃ251) کی دعائوں کے سائے تلے چلتے ہوئے اپنے سپرد کئے ہوئے کام کو کرتے چلے جانا ہے۔ اور اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جانا ہے۔صبر، حوصلے اور دعائوں سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ جلسے کے دنوں میں آ پ کی روحانیت میں جو ترقی ہوئی ہے، کسی نہ کسی بات نے آپ کے دل پرجو اثر کیا ہے اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ نئے احمدی بھی اور پرانے احمدی بھی اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے یہاں سے اُٹھیں۔
احمدی بنگالیوں میں اخلاص ووفا کے نمونے مَیں اکثر بنگالی ملنے والوں میںدیکھتا رہتا ہوں جن میں سے کچھ میرے سامنے اس ہال میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اور اس وقت جو بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میںبیٹھے جلسہ سن رہے ہیں اور جنہیں کیمرے کی آنکھ ہمیں دکھا رہی ہے ان کے دل اور چہروں پر بھی مَیں اخلاص ووفا دیکھ رہا ہوں اوران کے چہرے اخلاص ووفا سے چمکتے ہوئے مجھے نظر آ رہے ہیں۔پس کبھی اس اخلاص ووفاکو کم نہ ہونے دیں۔خلافت سے اخلاص ووفا کے جو اظہار آپ کی طرف سے ہوتے ہیں انہیں کبھی ماند نہ پڑنے دیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اپنے عہد بیعت کو کبھی ہم کمزور نہ ہونے دیں۔اپنی طاقتوں اور توانائیوں کو کبھی غلط کاموں میں صرف نہ ہونے دیں۔ہمیشہ اپنے پیدا کرنے والے خدا سے سچا اور وفا کا تعلق رکھیں۔آپس میں پیار اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثالیں قائم کر دیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیغام کواپنے ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیں۔آپ کی حقیقی پیروی کا حق اداکرنے والے بنیں۔دعوت الی اللہ کے کام میں حکمت کے ساتھ ا یک نئی روح پھونک دیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آپ میں پاک تبدیلیاں پیدا فرمائے۔آپ کے اخلاص ووفا کو بڑھاتا چلا جائے۔ اور میرے دل میں آپ کے پیار کو بڑھاتا چلا جائے۔آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے لئے کی گئی تمام دعائوں کے وارث بنیں۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔اور دشمن کی طرف سے چلنے والا ہر تیراُسی پر الٹا دے۔آ پ سب اللہ تعالیٰ کے پیار کو، اس کے فضل کو، اس کی رحمت کو ہمیشہ سمیٹتے چلے جانے والے ہوں۔
آمین۔اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں