جلسہ سالانہ کے فیوض و برکات اور ثمرات
(مطبوعہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جلسہ سالانہ نمبر 2023ء)
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن جولائی اگست 2024ء)
جلسہ سالانہ کی ایمان افروز تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 27؍دسمبر 1891ء کو قادیان میں منعقد ہونے والے پہلے جلسہ سالانہ میں 75؍احباب شامل ہوئے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرفِ مصافحہ بخشا اور پھر بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے حضرت اقدسؑ کی تصنیف ’’آسمانی فیصلہ‘‘ پڑھ کر سنائی۔ پہلے جلسہ سالانہ کا یہی مکمل پروگرام تھا۔
یہ مختصر سا رسالہ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ کیا ہے؟
دراصل حضورعلیہ السلام کی اسلام کے لیے محبت اور غیرت ایسی تھی کہ اسلام کے دفاع میں عظیم الشان لٹریچر شائع کرنے کے علاوہ دیگر مذاہب کے علماء کو روحانی مقابلوں (مباہلوں) کے چیلنج بھی دیا کرتے تھے اور اس طرح اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لیے ہرممکن اور ہر سطح پر جدوجہد فرماتے۔ لیکن اس رسالہ میں پہلی مرتبہ آپؑ نے مسلمان مکفّر علماء اور اُن کے ہمنواؤں کو بھی اس چیلنج میں شامل فرمادیا اور فرمایا کہ امور غیبیہ کے اظہار، دعاؤں کی قبولیت اور معارفِ قرآنی کے انکشاف وغیرہ میں جو چاہے مجھ سے روحانی مقابلہ (مباہلہ) کرلے۔ گویا اس امر کا علی الاعلان اظہار فرمادیا کہ اس دَور میں وہ مَیں ہی ہوں اور مَیں ہی رُوئے زمین پر دین اسلام کا حقیقی محافظ اور خداتعالیٰ کا تائیدیافتہ ہوں جس کے آنے کی پیشگوئیاں تمام مذاہب اور خصوصاً آنحضورﷺ اور مسلم اولیاء اللہ کرتے آرہے تھے اور تمام مذاہب اور مسلمان فرقے جس وجودِباجود کی بابرکت بعثت کے انتظار میں دن گن رہے تھے۔
پھر اس اجلاس کو مجلس شوریٰ کا رنگ بھی دیا گیا اورحضور علیہ السلام کی اس رائے پر مشورہ لیا گیا کہ لاہور میں ایک انجمن قائم کی جائے جو فریقین کے مذکورہ بالا روحانی مقابلے کا ریکارڈ رکھے۔
پھر ایک اہم بات یہ تھی کہ اس مضمون میں حضور علیہ السلام نے اپنی دعوتِ مباہلہ کو بھی شامل فرمادیا اور تحریر فرمایا کہ اگر ایک سال کے عرصے میں کوئی فریق وفات پاجائے تب بھی وہ مغلوب سمجھا جائے گا کیونکہ خداتعالیٰ نے اپنے خاص ارادے سے اُس کے کام کو ناتمام رکھا تاکہ اس کا باطل پر ہونا ظاہر کرے۔
پس ’’آسمانی فیصلہ‘‘ اگرچہ ایک مختصر سا رسالہ ہے جو محض دو گھنٹے میں اُس اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ لیکن اس کا مضمون اتنا اہم ہے کہ چند سال بعد جب حضور علیہ السلام کا مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ طے پایا اور اُس نے آپؑ سے مطالبہ کیا کہ نبوت کی بات بعد میں آئے گی پہلے اپنا مسلمان ہونا ثابت کریں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے مسلمان ہونے کا ثبوت وہ معیار ہیں جو قرآن کریم نے پیش کیے ہیں اور مَیں نے رسالہ ’’آسمانی فیصلہ‘‘ میں بیان کردیے ہیں۔
اس مضمون میں ایک اہم چیز وہ دعا بھی تھی جو حضور علیہ السلام نے ان الفاظ میں فرمائی کہ ’’مجھے اِس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہیے کہ تُو راضی ہو۔‘‘
پس اگر اب تک ہم یہ مختصر رسالہ نہیں پڑھ سکے تو ہمیں چاہیے کہ اب اسے ضرور پڑھ لیں اور کوشش کریں کہ جلسہ سالانہ کے انعقاد سے پہلے محض دو تین گھنٹے کا وقت نکال کر اسے پڑھ ڈالیں۔
جہاں تک پہلے جلسہ سالانہ کے دلچسپ اعدادوشمار کا تعلق ہے تو اُس وقت دنیابھر کے احمدیوں کی کُل تعداد (رجسٹر بیعت کے مطابق) 285تھی اور حاضرینِ جلسہ کی کُل تعداد 75تھی۔ جلسہ میں شامل ہونے والوں میں سے بارہ افراد نے اُس روز بیعت کرنے کی سعادت بھی پائی۔ جبکہ بعض بغیر بیعت کیے واپس چلے گئے اور ایک وہ بدنصیب بھی تھا جو چند سال بعد مُرتد ہوگیا۔
جس سرزمین (یعنی قادیان دارالامان) پر یہ جلسہ سالانہ منعقد ہوا اُس زمانہ میں اس کی حالت ابتدائی صحابہ کے مطابق یہ تھی کہ یہ ایک نہایت بے رونق بستی تھی۔ بازار خالی پڑے تھے اور سارے بازار سے دو تین روپے کا آٹا یا چار پانچ آنے کا مسالا نہیں مل سکتا تھا۔ معمولی ضرورتوں کے لیے قریبی قصبے بٹالہ جانا پڑتا تھا۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُس زمانے میں چار پانچ آنے ماہوار پر ایک مکان کرایہ پر مل جاتا تھا۔ اور دس بارہ روپے میں مکان بنانے کو زمین بھی مل جاتی تھی۔
پھر جس مقام، یعنی مسجد اقصیٰ، میں یہ جلسہ منعقد ہوا یہاں پہلے سکھوں کی ایک حویلی تھی جو قیدخانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے سات سو روپے میں اس حویلی کو خرید کر 1876ء میں یہاں مسجد تعمیر کروائی۔ اس مسجد کے پہلے امام محترم میاں جان محمد صاحب تھے جو اکثر اکیلے ہی نماز ادا کیا کرتے تھے۔
بہرحال حضورعلیہ السلام نے پہلے جلسے کے انعقاد کے بعد اس جلسے کو مستقل طور پر ہرسال منعقد کرنے کے بارے میں اشتہار شائع فرمادیا۔ چنانچہ اگلے سال یعنی 1892ء کے جلسہ سالانہ میں 327؍افراد شامل ہوئے۔ حضور علیہ السلام کی زندگی کا یہ واحد جلسہ سالانہ تھا جو مسجد اقصیٰ میں منعقد نہیں ہوا۔ اس جلسے میں چند تقاریر کے علاوہ مجلس شوریٰ بھی منعقد کی گئی جس میں بہت اہم اور دُوررس فیصلے ہوئے۔ مثلاً فیصلہ کیا گیا کہ یورپ اور امریکہ میں تبلیغ کے لیے ایک رسالہ جاری کیا جائے، قادیان میں اشاعت کے امور کے لیے مطبع (پریس) کا قیام عمل میں لایا جائے اور ایک اخبار بھی جاری کیاجائے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے فیصلے کیے گئے اور بعدازاں 40؍افراد کی بیعت کے بعد دعا کے ساتھ یہ دوسرا سالانہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
اسی سال جلسہ سالانہ کی غیر معمولی اہمیت اور اغراض و مقاصد کو حضور علیہ السلام نے تفصیل کے ساتھ اپنے اشتہارات میں بیان فرمایا اور مہمانوں اور میزبانوں کے لیے نہایت اہم ہدایات بھی ارشاد فرمائیں۔جلسہ سالانہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:
’’اس جلسہ کو معمولی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائیدِ حق اوراعلائے کلمۃ اللہ پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اوراس کے لیے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کافعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 341)
اسی طرح شاملینِ جلسہ سالانہ کو اپنی دعاؤں سے یوں سرفراز فرمایا:
’’ہر یک صاحب جو ا س للہی جلسے کے لیے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرِعظیم بخشے اور ان پررحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرمائے اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے اور روزِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پراس کا فضل ورحم ہے۔ تااختتام سفر ان کے بعد ان کاخلیفہ ہو۔‘‘ (اشتہار 7؍دسمبر 1892ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 342)
اگلے سال یعنی 1893ء میں اگرچہ جلسہ سالانہ بوجوہ مُلتوی کردینا پڑا۔ تاہم اس سال کی ایک اہم پیش رفت، حضور علیہ السلام کی کتاب ’’شہادۃالقرآن‘‘ کی اشاعت ہے جس میں حضور علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کی عظیم الشان برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ اُن کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور اُن کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد و تقویٰ اور خداترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمّات کے لیے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیّبہ کا آخری جلسہ سالانہ 1907ء میں منعقد ہوا جس میں تین ہزار افراد شامل ہوئے۔ سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1907ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر باہر سیر کے لیے تشریف لے گئے تو جلسہ پر آنے والے مہمان بھی آپ کے ساتھ چل پڑے۔ رستہ میں لوگوں کے پاؤں کی ٹھوکریں لگنے کی وجہ سے آپ کی جوتی باربار اُترجاتی اور کوئی مخلص آگے بڑھ کر آپ کو جوتی پہنا دیتا۔ جب باربار ایسا ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری زندگی ختم ہونے کے قریب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جو ترقی مقدّر کی ہے وہ اُ س نے ہمیں دکھا دی ہے۔‘‘ (افتتاحی خطاب حضرت مصلح موعودؓ برموقع جلسہ سالانہ مطبوعہ الفضل 8؍دسمبر1958ء)
پس جس جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مرکزِ احمدیت قادیان میں رکھی تھی وہی جلسہ آج زمین کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہر ملک میں منعقد کیا جاتا ہے اور مجموعی طور پر ان سالانہ جلسوں میں لاکھوں افراد شریک ہوکر اُن پاکیزہ دعاؤں کے وارث بنتے ہیں جو اُن کے محبوب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کے لیے کی تھیں۔ جلسہ سالانہ کی برکات کا مشاہدہ ہر وہ مومن کرتا ہے جو اُن مقاصدِ عالیہ کو سامنے رکھتا ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا تھا۔ ان برکات سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’جب تک حقیقی تقویٰ پیدا نہ ہو ، اُس وقت تک ایک انسان نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی اُس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ اور حقیقی تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اپنی کتب اور ملفوظات میں بیشمار جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ آپ کو ایک فکر تھی کہ میں وہ جماعت قائم کروں جو حقیقی طور پر تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت ہو اور اسی مقصد کے لئے، آپ نے جلسوں کا انعقاد فرمایا تھا۔ پس آپ لوگ اس حقیقی روح کو سمجھیں جو ان جلسوں کے انعقاد کے پیچھے ہے۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں کہ میں اپنی طاقت ظاہر کرنے کے لیے اپنے ارادت مندوں اور مریدوں کو جمع کروں اور اکٹھا کروں۔
(ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 395)
پس ہر احمدی جو اس وقت جلسہ میں شامل ہے یا دنیا میں کسی بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہوتا ہے، اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے وہ مقصد پورا کرنے والا بننا ہے جس کے لیے جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ حقیقی تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں۔ آج (جلسہ کا) تیسرا اور آخری دن ہے۔ آپ جووہاں بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے قادیان میں جلسہ سنا ہے، آپ نے جلسے کے پروگراموں میں بہت سی تقاریر سنی ہوں گی۔ جن میں علمی تقاریر بھی تھیں اور تربیتی تقاریر بھی تھیں۔ توحیدِ باری تعالیٰ کے بارے میں تھیں۔ اپنوں کے حقوق ادا کرنے کے بارے میں بھی تھیں۔ غیروں کے حقوق ادا کرنے کے بارے میں بھی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ حسنہ پیش کیا گیا تھا۔ تو یہ سارے پروگرام اس لیے نہیں تھے کہ جلسہ میں شامل ہونے والے اُنہیں سنیں ، جو اچھا نکتہ نظر آئے اُس پر سر دھنیں ، نعرۂ تکبیر بلند کریں اور بھول جائیں کہ مقرر نے کیا کہا تھا۔ اس جلسہ میں شمولیت کا تبھی فائدہ ہو گا جب آپ نے جو باتیں سنی ہیں ،اُن کی جگالی کریں گے، اُن پر غور کریں گے، اپنے جائزے لیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ پس جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی کو یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ تقریریں ہمارے ایمان میں وقتی اضافے کا باعث بننے والی نہ ہوں ۔ صرف جلسہ کے ماحول نے ہم میں وقتی جوش اور جذبہ ہی پیدا نہ کیا ہو بلکہ یہ ہماری زندگیوں میں انقلاب لانے والا ماحول بن چکا ہو۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے اوراپنے اندر یہ بات پیدا کرنی چاہیے کہ جلسہ کے اس ماحول نے ہم میں وہ روح پھونک دی ہو جس سے ہم اپنے اندر وہ وجود پیدا ہوتے دیکھیں جو تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کرتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہوں ۔ پس جب تک ہم اپنے اندر اللہ کا خوف اور اُس کی خشیت کے وہ معیار قائم کرنے والے نہیں بنیں گے ہمارے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَر کے نعرے کھوکھلے نعرے ہوں گے اور جب ہم حقیقت میں یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کے دروازے ہم میں سے ہرایک پر کھلتے چلے جائیں گے۔‘‘
(جلسہ سالانہ قادیان 2007ء سے اختتامی خطاب)
قریباً بیس سال قبل ماہنامہ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کے ایک شمارے میں مکرم ہدایت اللہ ہادی صاحب (مدیر احمدیہ گزٹ کینیڈا) کے قلم سے ایک بہت مفید تحقیقی مضمون شامل اشاعت کیا گیا تھا جس میں احمدیت کی عظیم الشان ترقیات کے بارے میں پیش گوئیاں بیان کرنے کے بعد جلسہ سالانہ کے آغاز، اس کی مختصر تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے جلسہ سالانہ کے پچاس ایسے فیوض و ثمرات کو بھی اختصار سے قلمبند کیا تھا جنہیں بنیادی طور پر قرآن کریم، احادیث، حضورعلیہ السلام کے ارشادات اور خلفائے کرام کے فرمودات سے اخذ کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
٭… جلسہ سالانہ ذکرِ الٰہی کی ایک پاکیزہ مجلس ہے جہاں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی گروہ یا جماعت ذکر کی مجلس قائم کرتی ہے تو فرشتے اس کو گھیر لیتے ہیں ۔ان کو خدا کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینت اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقربین میں کرتا ہے۔(صحیح مسلم)
__٭… یہ جلسہ دنیا کی محبت کو سرد کرتا ہے اور دین کی محبت پیدا کرتا ہے۔ جلسہ میں شامل ہونے والے اپنے اندر حالتِ انقطاع پیدا کرتے ہیں گویا خالص خدا کے ہوجاتے ہیں۔ یعنی اخروی زندگی کی تیاری کرتے ہیں اور اس دنیا کی لذت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن میں محبتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے، آتشِ عشقِ الٰہی دن بدن افروختہ ہوتی ہے اور عشقِ رسولﷺ کی لذّت سے وہ حصہ پاتے ہیں۔
٭… علمی و تربیتی تقاریر سننے والوں کے دلوں سے ضعف ،کمزوری اور کسل دور ہوتا ہے اور چستی اور بیداری پیدا ہوتی ہے۔ گویا اس جلسہ میں براہین یقینیہ کے سامان میسر آتے ہیںاور شک کی آلائشیں دور ہوتی ہیں۔ نیز دعوت الی اللہ اور تربیت کے میدان میں پیش آنے والی مشکلات اور علمائے کرام کے طرزِ استدلال سے واقفیت ہوتی ہے۔
٭… جلسہ سالانہ میں شمولیت سے دینی امور میں ذوق و شوق اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ ہم بھی چھوٹے پیمانے پر اپنی اپنی جماعتوں اور مجالس میں ایسی ہی علمی اور روحانی مجالس کا اہتمام کریں۔
٭… یہ جلسہ دنیوی میلہ ٹھیلہ نہیں ہے بلکہ اس میں حقائق اور معارف بیان کیے جاتے ہیں اور دینی امور کے حوالہ سے ہی باتیں کی جاتی ہیں اس لیے شامل ہونے والوں میں نہ صرف اجتماعی طور پر بلکہ ذاتی طور پر بھی علم و معرفت میں اضافے اور روحانیت میں ترقی کی خواہش پید ا ہوتی ہے۔ دوستوں میں معرفتِ الٰہی کے حصول کا شوق پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں محبتِ الٰہی ترقی پذیر ہوتی ہے۔
٭…چونکہ اس جلسہ کی بنیاد خالصۃً دینی اغراض کے لیے رکھی گئی ہے اس لیے یہ جلسہ ازدیادِ ایمان کا مؤثر ذریعہ ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرتا ہے اور توکّل کو بڑھاتا ہے۔ چنانچہ اس جلسہ میں دعائیں کرنے اور دعائیں حاصل کرنے کے غیر معمولی مواقع میسر آتے ہیں۔
_٭… جلسہ میں شامل ہونے والے صرف خود ہی دعائیں نہیں کرتے بلکہ خصوصی دعائوں کے مستحق بھی ہوتے ہیں ۔ اگرچہ مامور من اللہ اور آپؑ کے خلفاء کے دل سے بنی نوع انسان کے لیے ہمیشہ دعائیں نکلتی ہیں اوروہ دشمنوں کو بھی دعائوں سے محروم نہیں کرتےمگر خدا تعالیٰ ان کے دل میں مخلصین اور محبّینِ سلسلہ اور اطاعت شعار بندوں کے لیے دعا کرنے کا ایک خاص جوش ڈالتا ہے۔ پس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لیے جو دعائیں کی گئی ہیں وہ شرکائے جلسہ کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔
٭… اس جلسہ کا ایک فائدہ باہمی تعارف بھی ہے۔ نَواحمدی اور پرانے جب اکٹھے ہوتے ہیںتو اجنبیت دُور ہوکر ایسا باہمی پیار اور محبت پیدا ہوتا ہے جس کا اثر بعد میں بھی قائم رہتا ہے۔ گویا ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل میں بھی جلسہ سالانہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔
٭… جو لوگ دورانِ سال اس دارِ فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں اُن کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں اور اُن کے ذکرِ خیر کا موقع ملتا ہے۔ اس دعائے مغفرت میں ایک فائدہ یہ بھی مخفی ہے کہ شرکائے جلسہ کے دل میں بنی نوع انسان سے ہمدردی کا مادہ پیدا ہوگا اور وہ فوت ہونے والوں کے لیے بعد میں بھی ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں گے۔
٭… جو لوگ جلسہ سالانہ کے موقع پر آتے ہیں وہ نفاق کے مرض سے بچ جاتے ہیں ۔جلسہ سالانہ سے محروم رہنے والوں اور باقاعدگی سے شامل نہ ہونے والوں کے لیے ایک خطرہ ہے کہ مبادا ان میں نفاق کا خطرہ پیدا ہو۔ کیونکہ یہ جلسہ اپنوں اور غیروں کے ذہنوں میں پرورش پانے والی بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے کا موجب بھی بنتا ہے۔
٭… یہ جلسہ احباب جماعت میں مہمان نوازی کا اعلیٰ خلق پیدا کرتا ہے۔ رضاکارانہ خدمت کے نتیجے میں انتظامی صلاحیتیں بڑھتی ہیں۔ نیز وقارعمل اور خدمت خلق کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اطاعت کا بے نظیر نمونہ نظر آتا ہے کیونکہ ہر چھوٹا،بڑا خدمت پر متعین بچوں کے اشارے کی بھی تعمیل کرتا ہے۔
٭… وقت کی پابندی کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر وقت کی پابندی کا خصوصیت سے خیال رکھا جاتا ہے۔
٭… جلسہ میں شامل ہونے والے احباب میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ نیز خدا کی راہ میں تکلیف اٹھانے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ سفروحضر میں پیش آنے والی صعوبتوں کو محض خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کرنے سے دینی امور میں لذّت حاصل کرنے کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔
٭… خدمت کرنے والوں اور قربانی کرنے والوں کو دیکھ کر اور اُن سے مل کر مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے ۔نیز صحبتِ صالحین اور صحبتِ صادقین سے استفادہ کرتے رہنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے جو اصلاح نفس کے لیے بے حد ضروری ہے۔
٭… جو لوگ کم خوشحال ہوتے ہیں وہ جلسہ میں شامل ہونے کے لیے قناعت سے کام لیتے ہیں جبکہ صاحبِ حیثیت حضرات میں اسراف اور فضول خرچی سے بچنے اور دین کے لیے قربانی کرنے کا جذبہ ترقی پذیر ہوتا ہے۔
٭… مختلف ممالک، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف پس منظر سے آئے ہوئے احباب سے ملنے اور اُن کے ایمان افروز واقعات سننے سے دعوت الی اللہ اور ذاتی اصلاح کے لیے راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ گویا جلسہ سالانہ جیسے مواقع سے انسان اپنی کمزوریوں کو چھوڑتا ہے، اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا اور عاجزی اختیار کرتے ہوئے اخلاقی اور روحانی میدان میں ترقی کی سعی کرتا ہے ۔
الغرض جلسہ سالانہ میں شمولیت کی برکات اور اس کے ثمرات کو سمیٹنا ازحد مشکل ہے۔
اگرچہ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ متفرق عالمی مسائل کے تناظر میں دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اور عوام کو بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور صحت کے علاوہ بھی دیگر بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سفر اور حضر میں نئے ضوابط کی پابندی اور ایس او پیز کے مطابق اجتماعات میں شمولیت اس سے سوا ہے۔ ایسے میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے رختِ سفر باندھنا کچھ ایسا بھی سہل نہیں۔ تاہم اگر اُن برکات کو ملحوظ رکھا جائے جو خداتعالیٰ نے اس جلسے سے وابستہ فرمادی ہوئی ہیں تو یہی تکالیف برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے گا۔ اس حوالہ سے حضرت مولوی محمد الیاس خاں صاحب (متوفی 1948ء) کا ایک نہایت ایمان افروز اور روح پرور واقعہ ہدیۂ قارئین ہے۔
حضرت مولوی صاحب صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) کے ایک پاک نفس، پیکر صبر و حیا اور صاحبِ کشف و الہام بزرگ تھے، جنہیں 1909ء میں چارسدہ میں سب سے پہلے احمدیت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ قادیان جلسہ سالانہ پر جاتے ہوئے کوئٹہ میں عموماً آپ کا مختصر قیام ہوتا۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لیے جاتے ہوئے جب آپ چند دن کے لیے کوئٹہ میں فروکش ہوئے تو ڈاکٹر عبداللہ صاحب امیر جماعت کوئٹہ نے حضرت مولوی صاحب سے فرمایا کہ کل کا خطبہ جمعہ آپ دیں اور دوستوں کو قادیان جلسہ سالانہ پر جانے کی تلقین کریں۔ کیونکہ گزشتہ سال کوئٹہ میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مالی تنگی کی وجہ سے دوست کم جائیں گے۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے خطبہ میں دیگر امور کے علاوہ جلسہ سالانہ پر جانے کے لیے ایسے زور دار الفاظ میں تحریک فرمائی کہ جس سے احبابِ جماعت کے دلوں میں جلسہ سالانہ پر جانے کا جوش پیدا ہوا اور کافی دوست جلسہ سالانہ پر گئے۔ یہ خطبہ حضرت مولوی صاحب کے تعلق باللہ کی بھی شاندار مثال ہے۔ آپ نے فرمایا:
محمد الیاس کو چند اہم امور درپیش تھے۔ بہت دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری دعا قبول ہو گی مگر تین شرطوں کے ساتھ۔ پہلی یہ کہ تم بیس ہزار احمدیوں کو بلاؤ اور تین دن کی ان کی دعوت کرو، رہائش کا انتظام کرو۔ دوسری یہ کہ صحابہ کرام کو بلاؤ، وہ بھی آئیں۔ اور تیسری یہ کہ خلیفۂ وقت کو بھی بلاؤ اور ان سب سے عرض کرو کہ تمہارے لیے رو رو کر دعا کریں۔ میں نے اپنے خدا سے عرض کی میری حقیر حیثیت کوتُو خوب جانتا ہے۔ میں تو تین آدمیوں کو تین دن بھی کھانا نہیں دے سکتا اور نہ رہائش کا انتظام کر سکتا ہوں۔ پھر میری حیثیت کیا ہے کہ میں بیس ہزار احمدیوں کو بلاؤں۔ جواب میں لوگ کہیں گے ہمیں فرصت نہیں۔ پھر صحابہ کرام اور خلیفۂ وقت کی خدمت میں کیسے عرض کروں کہ میرے یہ اہم کام ہیں؟ آپ ان امور کی انجام دہی کے لیے رو رو کر خدا سے میرے لیے دعا کریں۔ ممکن ہے جن امور کو میں اہم سمجھتا ہوں وہ ان کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوں۔ مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور بہت رویا کہ اے اللہ! یہ شرائط بہت سخت ہیں… یہ شرائط میری وسعت سے باہر ہیں، مجھ پر رحم فرما۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محمد الیاس! یہ سب انتظام میں نے تمہارے لیے کر دیا ہے۔ تم قادیان جلسہ سالانہ پر جاؤ۔ وہاں بیس ہزار احمدی بھی آئیں گے۔صحابہ کرام بھی آئیں گے، خلیفۂ وقت بھی موجود ہو گا۔ ان کی خوراک اور رہائش کا انتظام بھی میں کروں گا۔ جلسہ سالانہ کی افتتاحی اور اختتامی دعا میں جب جلسہ سالانہ کے تمام احباب مع خلیفۂ وقت روئیں گے، تم بھی رونا اور اپنا مدعا پیش کرنا،میں قبول کروں گا۔
پھر آپ نے فرمایا: مَیں احباب جماعت سے پوچھتا ہوں۔ کیا یہ سودا مہنگا ہے؟ کیا تم لوگوں کی کوئی ضروریات نہیں ہیں اور تم ہر چیز سے بے نیاز ہو؟
اٹھو اور جلسہ سالانہ پر جانے کی تیاری کرو کہ یہ وقت پھر ایک سال بعد ہاتھ آئے گا۔ کس کو پتا اس وقت کون زندہ ہو گا؟ ایسے سنہری موقع کو اپنے ہاتھ سے گنوانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ (ماخوذ از ’’حیات الیاس‘‘ صفحہ 87-85)
آج دنیا کے گلوبل ولیج میں جماعت احمدیہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی برکت سے بنیانِ مرصوص کا نظارہ پیش کرتی ہے۔ زمین کے کناروں تک پھیلی ہوئی بیشتر جماعتوں میں جلسہ سالانہ کا انعقاد بھی ہورہا ہے۔ اگرچہ حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی جلسہ سالانہ میں براہِ راست شمولیت تو غیرمعمولی اہمیت اور برکات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ تاہم یہ بھی امر واقعی ہے کہ ہر ملک میں منعقد ہونے والا جلسہ سالانہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور منظوری سے منعقد ہوتا ہے اور اس میں پیش کی جانے والی تقاریر اور دیگر اہم پروگراموں کی منظوری بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتے ہیں۔ ان جلسوں کے کامیاب انعقاد اور ان کے وسیع روحانی ثمرات کے لیے نیز جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ارشاد فرمودہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی خلیفۂ وقت کی عاجزانہ دعائیں غیرمعمولی اثرات رکھتی ہیں۔ ان دعاؤں کو جذب کرنے کے لیے اور ان کی قبولیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے ہر احمدی کو صدقِ دل سے سعی کرنی چاہیے اور ان برکات کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان جلسوں کے ساتھ وابستہ کردی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین