جلسہ سالانہ یوکے 2009ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا دوسرے روز کا خطاب
2009-2008ء میں جماعت احمدیہ عالمگیر پر نازل ہونے والے
اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضلوں کا نہایت ایمان افروز اجمالی تذکرہ۔
خلافت جوبلی فنڈ کے مصارف کا تذکرہ ۔ جو منصوبے اپنی تکمیل کے لئے کئی سال
لے سکتے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس فنڈ سے احسن رنگ میں مکمل ہو گئے ۔
اس سال دو نئے ممالک سربیا اورلتھوینیا میں احمدیت کا نفوذ ہوا ۔ اس طرح اب تک
195ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکاہے۔
دوران سال 531نئی جماعتوں کا قیام ہوا۔ مساجد کی تعداد میں 399کا اضافہ ہوا ۔
ان میں سے 164نئی تعمیر ہوئیں اور 235بنی بنائی عطا ہوئیں۔
مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں بعض ایمان افروز واقعات کا تذکرہ ۔
دوران سال تبلیغی مراکز میں 106کا اضافہ ہوا ۔ کئی ممالک میں جماعت کے پہلے تبلیغی مرکز کا قیام عمل میں آیا ۔
اس سال اشانٹی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ پہلی بار شائع ہوا ۔ اس طرح تراجم قرآن کریم کی تعداد 69ہو گئی ہے۔
دوران سال 31زبانوں میں523مختلف کتب،پمفلٹ اور فولڈرز 24لاکھ 86ہزار
کی تعداد میں شائع ہوئے ۔ مختلف زبانوں میں منتخب آیات قرآن کریم ،منتخب احادیث
اور منتخب تحریرات حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے ترا جم شائع ہوئے۔
اس سال 18زبانوں میں منتخب آیا ت قرآن کریم ،24زبانوں میں منتخب احادیث اور
19زبانوں میں منتخب اقتباسات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی CDs تیار کی گئیں ۔
رقیم پریس،ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی مساعی کا مختصر تذکرہ ۔
ایم ٹی اے ا لعربیہ کی وسعت ۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ بیعتیں
مختلف ممالک میں امسال 1159ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ 769گھنٹے اور 40منٹ کا وقت ملا۔ اس طرح مختلف
ملکی ریڈیو سٹیشنز پر3788گھنٹوں پر مشتمل 5488پروگرام نشر ہوئے اور کروڑوں افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔
امسال 527نمائشوں ،790بکسٹالز اور 48بک فیئرز کے ذریعہ لاکھوں افراد تک اسلام کے پیغام کی تشہیر
مختلف مرکزی ڈیسکس کی کارکردگی کا تذکرہ ۔
ایم ٹی اے 3 العربیہ کے اثرات اور اس کے بارہ میں عربوں کے تاثرات
تحریک وقف نو،احمدیہ ویب سائٹ،پریس اینڈ پبلیکیشنز، مخزن تصاویر،احمدیہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن
آف آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز ،ہیومینٹی فرسٹ ،نصرت جہاں سکیم کی خدمات کا تذکر ہ ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال 111ممالک سے تعلق رکھنے والی 366قوموں کے
4لاکھ 16ہزار دس افراد بیعت کرکے احمدیہ مسلم جماعت میں شامل ہوئے۔
نومبائعین سے رابطوںاور رؤیائے صادقہ کے ذریعہ قبول احمدیت کے ایمان افروز واقعات کا بیان
دعوت الی اللّٰہ کی راہ میں روکیں ڈالنے والوں کا ا نجام۔
98ممالک میں نظام وصیت کا قیام عمل میں آچکاہے
(حدیقۃ المہدی(آلٹن) میں جماعت احمدیہ برطانیہ کے 43ویں جلسہ سالانہ کے موقع پر 25؍جولائی 2009ء بروز ہفتہ
بعد دوپہر کے اجلاس میں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا روح پرورخطاب)
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج کے دن جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں اُس رپورٹ کا کچھ حصہ پیش کیا جاتا ہے اور اُن افضال کا کچھ ذکر کیا جاتا ہے جو دورانِ سال اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر فرمائے۔ لیکن اس سے پہلے جیسا کہ ابھی چوہدری شبیر احمد صاحب نے ایک سپاسنامہ پڑھا، اُس کے بارے میں بھی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور اُس کے بارہ میں بتانا بھی چاہتا ہوں۔
خلافت جوبلی فنڈ کے مصارف
یہ سپاسنامہ قادیان کے جلسہ پر دسمبر 2008ء میں پڑھا جانا تھا اور اس کے ساتھ مختلف براعظموں کے نمائندوں نے اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی میں یا براعظموں کی نمائندگی میں یا زبانوں کے لحاظ سے جو تقسیم کی گئی تھی اُس کے لحاظ سے مختصر سپاس نامے پڑھنے تھے اور خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت سے اپنی وفا کا اظہار کرنا تھا۔ لیکن بعض حالات کی وجہ سے وہ جلسہ منعقد نہیں ہو سکا تو انتظامیہ نے، صدر صاحب خلافت جوبلی کمیٹی نے یہ درخواست کی تھی کہ اس جلسے پر اس کو پڑھ دیا جائے اور ملکوں کے نام بھی سنا دئیے جائیں جنہوں نے اس جوبلی فنڈ میں حصہ لیا۔
سب سے پہلے تو مَیں تمام جماعتوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے جوبلی فنڈ میں حصہ لیا اور ایک بہت بڑی رقم اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت جوبلی فنڈ کے لئے پیش کی اور جس کی وجہ سے بہت سے ایسے منصوبے جن کے بارے میں مجھے فکر تھی کہ تکمیل کس طرح ہو گی یا فیزز (Phases)میں ہو گی اور اُن کو کئی سالوں پر پھیلانا ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو گئے۔ کیونکہ جوبلی فنڈ جس جس طرح جمع ہوتا رہا، خلافت جوبلی کمیٹی کی طرف سے مرکز میں آتا رہا اور فائنل انہوں نے دسمبر میں پیش کرنا تھا ، اُس کے بعد سے اخراجات بھی ہوئے وہ منصوبے تو مَیں نے شروع کر دئیے تھے اور جوں جوں یہ رقم ملی اُس پر خرچ بھی ہوتے چلے گئے۔ تو جوبلی سال میں افریقہ کے ممالک میں بعض بڑی مساجد کی تعمیر کی گئی۔ مشن ہاؤسز پر اخراجات کئے گئے اور اُن پر یہ رقم خرچ کی گئی کیونکہ ہو سکتا تھاکہ اگر یہ فنڈ اکٹھا نہ ہوتا تو یہ منصوبے چند سالوںپر پھیلا دئیے جاتے۔ اس میں سے افریقہ کے ممالک میں جو رقم خرچ کی گئی، وہ تقریباً دس لاکھ پینسٹھ ہزار پاؤنڈ ہے۔ پھر ہمارے انجنیئرز ایسوسی ایشن کے ذریعے سے افریقہ میں ونڈ ملز(Wind Mills) اور واٹر فار لائف(Water for Life) اور سولر سسٹم(Solar System) وغیرہ کے لئے کچھ گرانٹ دی گئی۔ پھر مسجد اقصیٰ قادیان میں توسیع کی گئی اور ایک نیا بہت خوبصورت تین منزلہ حصہ اُس کے پچھلے صحن کے بعد کچھ عمارات گرا کر وہاں تعمیر کیا گیا ہے، اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد اقصیٰ قادیان میں پانچ ہزار نمازیوں کی مسقف حصہ میں مزید گنجائش پیدا ہو چکی ہے۔ اسی طرح وہاں لائبریری کی ایک بڑی بلڈنگ بنائی گئی ہے جس میں کئی لاکھ کتابیں آ سکتی ہیں۔ اسی طرح پریس کی تعمیر کی گئی۔ وہ رپورٹوں میں بھی ذکر آ جائے گا۔ پھر ایک بڑا گیسٹ ہاؤس بنایا گیا۔ مختلف ممالک کے معزز مہمان آتے ہیں، اُن کے ٹھہرانے کے لئے جگہ نہیں تھی۔ تو یہ رقم اُن جگہوں پر خرچ کی گئی۔ یہاں بھی کوئی اندازاً سات آٹھ لاکھ پاؤنڈ اس فنڈ میں سے لئے گئے۔ باقی کچھ مرکز سے دئیے۔ پھربنگلہ دیش میں مساجد کی تعمیر کے لئے رقم دی گئی۔ یورپ میں مساجد اور مشن ہاؤسز خریدنے کے لئے تقریباً پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم دی گئی۔ تو اس طرح یہ کل رقم جس کی تفصیل اس وقت بتائی ہے ، جو کام ہوئے ہیں اُن کی مکمل تفصیلات اگرمَیں بتاؤں تو کافی وقت لگ جائے گا۔ تقریباً یہ پچیس لاکھ پاؤنڈ جو پیش کئے گئے تھے یعنی دو اعشاریہ پانچ ملین، اس طرح ان کی یہ تقسیم ہوئی ۔اور افریقہ اور قادیان اور یورپ کے کچھ علاقے اور بعض غریب ایشین ممالک میں اُن کے پراجیکٹس کو مکمل کرنے میں یہ رقم خرچ ہوئی ۔ اس لئے اس لحاظ سے مجھے آسانی پیدا ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا فرما دئیے کہ جو منصوبے جیسا کہ میں نے کہا کئی سال لے سکتے تھے یا اُس طرح احسن رنگ میں اُن کی تکمیل نہیں ہو سکتی تھی جو اس فنڈ مہیا ہونے سے ہو گئی۔ تمام احباب جماعت کا جنہوں نے حصہ لیا اُن کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔
نئے ممالک میں احمدیت کا نفوذ
اب جیسا کہ روایت ہے آج کے دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کا کچھ ذکر ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دنیا کے 195 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔ اور اس سال دو نئے ممالک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ملے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ شاید کوئی نیا ملک شامل نہیں ہو گالیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا، دعاؤں کو قبول کیا اور سربیا (Serbia)اور لتھوینیا(Lithuania) میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔
جو رپورٹ ہے وہ پوری تو بیان نہیں کی جا سکتی جس طرح کہ مَیں نے کہا کچھ حصہ لیا تھا وہ بھی نہیں بیان ہو سکتا۔ بہر حال یہ دو ممالک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سال دئیے۔
پرانے رابطوں کی بحالی
دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اڑتیس(38) ایسے ممالک ہیں جن میں وفود بھجوا کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے۔ ان میں الجزائر ہے، یہاں بھی نئے رابطے ہوئے، ایم ٹی اے کے ذریعہ سے نئی بیعتیں بھی وہاں ہو رہی ہیں۔ تبلیغی نشستیں بھی وہاں منعقد کی گئیں۔ تیونس(Tunisia) ہے، اسی طرح رومانیہ (Romania) ہے،میسیڈونیا (Macedonia)ہے اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے رابطے بھی ہوئے ہیں اور بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔
نئی جماعتوں کا قیام
خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اُن کی تعداد 531ہے۔ ان 531 جماعتوں کے علاوہ 790 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر 1321 نئے علاقوں میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ ان میں مالی سرِ فہرست ہے۔ یہاں 155 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبرپر ہندوستان ہے جہاں 104 نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ یہاں بھی مخالفت بڑے زوروںپر ہے اور مُلّاں پاکستانی مُلّاؤں کے زیرِ اثر یا خود کہنا چاہئے کیونکہ وہاں کی اصل جاگ تو وہیں نام نہاد علماء میں لگی ہوئی ہے، احمدیت کی مخالفت کر رہے ہیں اور جتنی مخالفت کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی تبلیغ کے اتنے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ سیرالیون میں 47۔ کانگو ، آئیوری کوسٹ، سینیگال، کینیا، برکینا فاسو، مڈغاسکر وغیرہ اس طرح بہت سارے ممالک میںنئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔
لوگوں کو واقعات سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے ۔قرغزستان کاشغر کے علاقے میں جماعت کے قیام کا ایک واقعہ ہے۔ شیر علی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز کاشغرگاؤں کے ایک غیر احمدی دوست اکمل صاحب مجھے گھر کے سامنے ملے۔ میں ان کو اندر لے گیا، ان کو احمدیت کا تعارف کروایا۔ اس دوران اکمل صاحب جماعت کی ایک کتاب اُٹھا کر کھولتے ہیں اور وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ اس انسان کو میں نے خواب میں دیکھا ہے۔ آپ ہمارے گاؤں کے مشرق میں پہاڑ کی طرف سیدھے کھڑے تھے اور ہمارے گاؤں کی طرف منہ کر کے دعا کر رہے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے ڈیڑھ سال میں ساٹھ پینسٹھ افراد پر مشتمل یہ جماعت یہاں قائم ہو چکی ہے۔
پھر احمد جبرائیل صاحب نے لکھا ہے کہ غانا کے شمال میں بارڈر سے قریباً پندرہ کلو میٹر دور ٹوگو کے اندر جا کر ایک علاقے میں تبلیغ کے لئے ایک ٹیم وہاں بھجوائی گئی تھی۔ خاکسار بھی اپنی اس ٹیم سے وہاں جا کر ملا اور علاقے کے لوگوں سے ملاقات کی اور اس موقع پر وہاں کے عیسائی اور روایتی مذہب کے لوگوں کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کی غرض سے مطلع کیا۔ اس موقع پر ایک بزرگ آدمی نے کھڑے ہو کر بڑے جذباتی انداز میں خطاب کیا اور کہا کہ اسلام یہاں سینکڑوں سال تک رہا ہے مگر چالیس سال قبل اسلام ہمارے گاؤں سے غائب ہو گیا اور میں آج بھی آپ کو اس علاقے میں اُس کے آثار دکھا سکتا ہوں۔ میری عمر ستّر سال سے زائد ہے اور تب سے مَیں ایک کیتھولک عیسائی ہوں۔ میرے لئے بہت مشکل ہے کہ میں واپس اسلام کی طرف لوٹ جاؤں لیکن چونکہ ایمان ابھی تک ہمارے خون میں ہے اس لئے ہمارے بچوں اور نئی نسل کو اختیار ہے کہ وہ آزادی سے اسلام قبول کریں اور آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ چنانچہ اس وقت تبلیغی نشست میں تینتالیس(43) لوگوں نے بیعت کی۔
اسی طرح کونگو (Congo)میں ایک گاؤںسے ایک وفد کنشاسا آیا تھا اور یہ وفد بھی اپنے علاقے میں جوامام تھا اس کے ساتھ آیا تھا۔ جلسہ کے بعد ان کی تربیتی کلاس ہوئی` چنانچہ واپس جا کر انہوں نے احمدیت کا پیغام پہنچایا تو علاقے میں 250 سے زائد بیعتیں ہوئیں۔
اسی طرح لائبیریا ہے،مختلف علاقے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لوگوں کے دل کھولے اور خوابوں کے ذریعہ یا کسی اور ذریعہ سے انہوں نے بیعت کی۔
مساجد کی تعمیر
جماعت احمدیہ کو دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی، اُن کی مجموعی تعداد 399ہے جس میں سے 164 نئی تعمیر ہوئی ہیں اور 235مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ اور اس میں امریکہ، یورپ، افریقہ، ایشیا، آسٹریلیا مختلف علاقوں کی مساجد ہیں۔
مختلف ممالک میں جماعت کی جہاں پہلی مسجد تعمیر ہوئی ہے، اُن میں چاڈ (Chad)ہے۔ یہاں پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ کونگو برازویل میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔وینزویلا میں جماعت کو ملک کے جنوبی حصے میں میراکیبو (Maracaibo) کے علاقے میں پہلی مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی۔ اور اس علاقے میں ایک تبلیغی پروگرام کے تحت پندرہ بیعتیں بھی ہوئیں۔ پھر ایکو ٹوریل گنی (Equatorial Guinea)میں اس سال پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ بولیویا(Bolivia)میں ایک قطعہ زمین مسجد کے لئے خرید لیا گیا ہے اور اسی طرح بہت سارے علاقے ہیں جہاں مسجد کے لئے زمینیں خرید لی گئی ہیں۔
مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں بعض ایمان افروز واقعات
مساجد کے ضمن میںجو بعض ایمان افروز واقعات ہیں، اُن کا ذکر کرتا ہوں۔
بینن(Benin) میںبوئی کون(Bohicon) ریجن ہے، اس گاؤں میں جماعت کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی ہے۔وہاں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی ہے۔ جب اس مسجد کے سنگِ بنیاد کی اطلاع اس علاقے کے بڑے امام کو ہوئی کہ احمدی یہاں مسجد بنانے لگے ہیں، تو اس نے گاؤں کے مُلّاں کو پیغام بھیجا کہ مَیں احمدیت کے مقابلے پر دو منزلہ بڑی مسجد بناؤں گا جو نہایت ہی عالیشان ہو گی۔ جب اُس کا یہ دعویٰ وہاں کے تحصیلدار نے سنا، وہ عیسائی ہے لیکن شریف النفس ہے تو اُس نے کہا کہ اب چاہے یہ دس منزلہ مسجد بنائے پہلی مسجد تو اس علاقے میں جماعت احمدیہ ہی کی ہے۔
پھر بینن میں ہی پوبے(Pobe) ریجن کے غیر احمدی مولویوں نے سارے زون کا دورہ کر کے علاقے کے تینوں بڑے قصبوں میں جا کر غیر احمدی ملاؤں سے مل کر ایک میٹنگ کا اہتمام کیا اور آٹھ گاڑیوں پر مشتمل مولویوں کا وفد ایک دن وہاں میٹنگ کے لئے گیا۔ میٹنگ میں اس بات پر گفتگو ہوئی کہ احمدیت اس زور شور سے پھیلتی چلی جا رہی ہے اور جماعت کی ترقیاتی منصوبوں اور تربیتی کلاسز اور تعمیر مساجد کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ ہم کیا کریں کہ اسلام ترقی کرے؟ اسلام کو طاقت نصیب ہو اور احمدیت کا خاتمہ ہو۔یہ مولویوں کے ارادے تھے۔ اس سوال پر وہاں موجود دوسرے لوگوں نے اُن ملاؤں کو کہا کہ تم احمدیت کو بھلا کس طرح ختم کر سکتے ہو۔ وہ لوگ تو دور دور دیہاتوں میں جا کر بھی مساجد تعمیر کرتے ہیں اور لوگوں کو قرآن اور اسلام کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور اگر واقعہ میں تم اُن کو ختم کرنا چاہتے ہو تو پہلے اُن جیسے کام تو کرو۔ شہروں کے بجائے دور دراز علاقوں میں مساجد کی تعمیر کرو، بچوں کی اسلامی تعلیم کے لئے مدرسے قائم کرو، لوگوں کو یہ باور کراؤ کہ تم بھی اسلام کی ترقی کے لئے کچھ کام کر سکتے ہو۔ چنانچہ بحث و تمحیص کے بعد یہ قصہ ختم ہو گیا۔
پھر آئیوری کوسٹ کی ایک رپورٹ ہے کہ وہاں پیدرو ریجن کے شہر گابیاجی(Gabiaji) کے بڑے امام سمیت کچھ افراد نے احمدیت قبول کی۔ امام صاحب ایک دولتمند اور انتہائی سادہ مزاج انسان ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی پلاٹ پر اپنے خرچ سے مسجد کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ جب یہ بڑی پختہ مسجد تعمیر کے آخری مراحل میں تھی تو اُس شہر کے مُلّاؤں نے امام کے پاس جا کر احمدیت کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں اور امام صاحب سے کہا کہ یہ مسجد احمدیوں کو نہ دیں اور اگر آپ نے ایسا کیا تو شہر کے تمام مسلمان آپ کا بائیکاٹ کر دیں گے اور اس کے علاوہ مالی نقصان کی دھمکیاں بھی دیں۔ امام جو بڑے ضعیف العمر تھے یہ بات سن کر گھبرا گئے اور مسجد کی نگرانی مُلّاؤں کے سپرد کر دی اور کہا کہ مَیں دل سے احمدی تھا اور اب بھی ہوں مگر مُلّاؤں نے میرے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے آپ میرے لئے دعا کریں۔ آخر کچھ دن کے بعد شہر میں ایک بڑے جلسہ کا انعقاد کیا گیا جس میں امام نے، جنہوں نے مسجد بنائی تھی، اپنا فیصلہ سنانا تھا توانہوںنے یہاں دعا کے لئے بھی مجھے لکھا کہ یہ حالات ہیں اللہ تعالیٰ امام کو ثباتِ قدم عطا کرے۔ چنانچہ رات کو شہر کی مین شاہراہ پر جلسہ منعقد ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امام نے اُس دن بڑی جرأت سے حاضرین کے سامنے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کیا اور مسجد کے کاغذات اور چابی جماعت کے سپرد کر دی۔
تو اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔ اور ہماری جماعت کی جو مساجد ہیں وہاں تو غیر از جماعت جو ہیں وہ بھی آ کے دعا کرتے ہیں اور سکون پاتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات ہیں۔ کینیڈا میں بھی ایک ہوا ہے۔
جماعت کو معجزانہ رنگ میں مسجد کی زمین ملنے کا ایک واقعہ ہے۔ آئیوری کوسٹ میں بندوقو (Bandoukou)کا شہرمُلّاؤں کا شہر کہلاتا ہے، یہ بندوقو شہر کا نام ہے ۔یہ اردو کا بندوق نہیں ہے جو اکثر مولویوں کے پاس ہوتی ہے۔ کٹّر قسم کے مُلّاں یہاں رہتے ہیں اور اس شہر کو ہزار مساجد کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس شہر پر بڑے امام کا مکمل کنٹرول ہے جو جماعت کا شدید مخالف ہے۔ کہتے ہیں جب جماعت نے مسجد کے لئے قطعہ زمین کی تلاش شروع کی تو یہاں کے مولویوں کی طرف سے ایک وفد میئر کو ملنے گیا اور کہا کہ ایک تو یہ مسلمان نہیں ہیں اور دوسرا پاکستانی دہشتگرد ہیں ان کو بالکل زمین نہیں دینی۔ چنانچہ میئر نے ہماری درخواست ردّ کر دی۔ پھر گورنر کو درخواست دی گئی۔ گورنر کے پاس بھی یہ وفد گیا اُس نے بھی ردّ کر دی۔ وہ پریشان تھے، آخر دعاؤں میں لگے رہے مجھے لکھتے رہے اور 27مئی 2008ء کو خلافت جوبلی کی جو صد سالہ تقریبات ہوئیں اُس میں انہوں نے گورنر، میئر اور پولیس اور ملٹری افسران کو بلایا اور بڑی اچھی تقریب ہوئی۔ اُس دن جماعت کے احباب نے دعائیں بھی بہت کیں، اس مسجد کے لئے بھی تہجد میںدعائیں کی گئیں۔ گورنر نے یہ تقریب اٹینڈ (Attend)کرنے کے بعد واپس جا کر اگلے دن ہمارے مشنری کو بلایا اور کہا کہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ جماعت احمدیہ ایسے کام کر رہی ہے اور اس طرح امن پسندی کی تعلیم دیتی ہے اور خدمتِ انسانیت کر رہی ہے۔ اس لئے آپ جس جگہ ،جہاں چاہتے ہیں مَیں آپ کو زمین دیتا ہوں، بیشک مولوی مخالفت کرتے رہیں۔ چنانچہ انہوں نے بڑی اچھی جگہ پر گورنمنٹ کی زمین پر ہمیں ایک پلاٹ دے دیا۔ حالانکہ وہاں بہت ساری دوسری کمپنیوں کی بھی درخواستیں آئی ہوئی تھیں۔
مشن ہاؤسز/تبلیغی مراکز میں اضافہ
پھر کئی ممالک ایسے ہیں جن میں جماعت کا پہلا تبلیغی مرکز قائم ہوا۔ چار یورپین ممالک ہیں۔ افریقہ میں Cape Varde آئی لینڈ ہے۔یورپ میں میسیڈونیا، سلوینیا، استونیا اور آئس لینڈ ہیں۔ یونان میں بھی قائم کیا گیا۔ ترکی میں ایک عمارت خریدی گئی۔ کوسوو میں بھی جماعت کا اپنا مرکزی سینٹر اور مرکز نماز جو ہے تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔
مشن ہاؤسز ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال ہمارے تبلیغی مراکز میں 106کا اضافہ ہوا ہے اور اب تک گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 102 ممالک میں تبلیغی مراکز کی کل تعداد 2117 ہو چکی ہے۔ اور اس میں بھی ہندوستان کی جماعت سرِ فہرست ہے، یہاں 36مراکز قائم ہوئے ۔ میلبرن سینٹر کو مسجد اور کمیونٹی کے لئے استعمال کی کونسل نے مخالفت کے باوجود اجازت دے دی۔ علاقے کے لوگوں نے بہت مخالفت کی لیکن کونسل نے اجازت دے دی۔ ایک شخص نے عدالت میں اپیل کر دی اور کہتے ہیں کہ ہم بڑے پریشان تھے، مجھے بھی لکھتے رہے اور کہتے ہیں کہ اُن کو میرا یہ جوا ب گیا کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو خود دور کر دے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انہوں نے لکھا ہے کہ چند دن ہوئے کورٹ کا فیصلہ جماعت کے حق میں ہو گیا اور یہ بھی کہ اب کسی جگہ بھی اس کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی، یہ کورٹ نے فیصلہ کیا ہے۔
سٹاک ہالم (سویڈن) میں بھی جماعتی سینٹر خریدا گیا اور بڑی اچھی جگہ ان کو مل گیا اور بڑا سستا مل گیا۔ جب یہ خریدا جانے والا تھا تو ساڑھے چار ملین کرونر کی ڈیمانڈ تھی اور یہ مجھے لکھ رہے تھے کہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے۔ اُن کو میں نے یہی جواب دیاتھا جو بھی ہو گا مرکز مدد نہیں کرے گا، اپنے وسائل اور ذرائع سے ہی یہ مرکز خریدیں۔ چنانچہ ایک کوشش وہ کرتے رہے۔ پھر کچھ تھوڑی سستی قیمت ہوئی۔ پھر انہوں نے لکھا تو مَیں نے کہا آپ جلدی نہ کریں، مل جائے گا انشاء اللہ۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جو کرائسز(Crises) آیا، ساری جائیدادوںکی قیمتیںنیچے چلی گئیں ، اُس میں جتنی رقم اُن کے پاس موجود تھی اُسی میں یہ مل گیا۔ تو اس لحاظ سے یہ کرائسز ہمارے لئے تو فائدہ مند ہوا ہے۔
تراجم قرآن کریم
وکالتِ تصنیف کی رپورٹ ہے کہ گزشتہ سال تک تراجم قرآن کریم کی کل تعداد 68 تھی، اور اب اس سال ایک مزید شائع ہوا ہے، تو یہ تعداد 69 ہو گئی ہے۔ اور نیا شامل ہونے والا ترجمہ قرآن اشانٹی زبان میں ہے جو گھانا کی ایک علاقائی زبان ہے، اُس میں ترجمہ ہوا ہے۔ اور اس ترجمہ میں الحاج یوسف ایڈوسئی صاحب نے بڑا کام کیا ہے اور ان کے ساتھ اور دوسرے ساتھی بھی تھے۔ اس کو انہوں نے لانچ کیا اور وہاں بڑی تقریب ہوئی اور بڑا سراہا گیا کہ اس زبان میں کوئی بھی مذہبی کتاب یا الٰہی صحیفہ جسے کہتے ہیں وہ صرف واحد قرآنِ کریم ہے جس کا اس زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔ اسی طرح تراجم قرآن اور بھی شائع ہو رہے ہیں اور منتخب آیات کے بھی تراجم ہوئے ہیں۔ مختلف زبانوں میںدیگر کتب بھی شائع ہوئی ہیں۔عربی زبان میں تفسیر کبیر حضرت مصلح موعود کی آٹھویں جلد شائع ہوئی ہے، پچھلے سال بھی شاید تھی یا جلسہ کے بعد میں آئی تھی ۔ بہرحال یہ پچھلے سال کام ہوا تھا۔
دیگر کتب کی اشاعت
اس سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفات کے مجموعہ روحانی خزائن کی پہلی بارہ جلدیں کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن پہلی بار شائع ہوا ہے۔ یہ جلدیں پاکستان کے علاوہ انڈیا اور یوکے سے بھی شائع ہوئی ہیں۔ پھر تذکرۃ انگریزی زبان میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اور رؤیا و کشوف کا مجموعہ ہے، وہ بھی نظر ثانی شدہ ایڈیشن بہت خوبصورت جلد اور انڈیکس کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ یہ ہے تذکرۃ جو نیا شائع کیا گیا ہے اور یہ جو کتابیں پڑی ہیں سب روحانی خزائن کی کتابیں ہیں جیسا کہ سامنے ہیں اور کچھ قرآنِ کریم ہیں۔ اس طرح بیشمار مختلف زبانوں میں فولڈرز شائع کئے گئے اور کتابوں کے ترجمے کئے گئے۔ ’’تحریکِ جدید ایک الٰہی تحریک‘‘ کی اشاعت جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے 1948 ء سے لے کر 1964ء تک کے خطبات اور خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہے، وہ شائع ہو چکی ہے۔ تین جلدوں میں یہ شائع ہوئی ہے اور اس سلسلے کی چوتھی جلد جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات اور ارشادات پرمشتمل ہے شائع ہو رہی ہے۔
اسی طرح شعبہ اشاعت کی رپورٹ کے مطابق 40ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دورانِ سال 523 مختلف کتب ،پمفلٹ اور فولڈر وغیرہ 31 مختلف زبانوں میں طبع ہوئے جن کی تعداد 2486000 ہے۔ اس میں کوئی دس پندرہ زبانیں ہیں جن میں شائع ہو اہے۔
اس سال پہلی دفعہ قرغز زبان میں منتخب آیات قرآنِ کریم، منتخب احادیث اور منتخب اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تراجم شائع ہوئے۔ تھائی اور کوزا (Xoza)زبانوں میں منتخب آیات قرآنِ کریم کے تراجم شائع ہوئے۔ سربو کروایشین (Serbo Croatian) زبان میں منتخب اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پہلی دفعہ شائع ہوئے۔
منتخب آیات ،احادیث اور تحریرات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی
مختلف زبانوں میں CDsکی تیاری
25زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات، قرآنِ کریم کی آیات اور منتخب احادیث کی سی ڈیز بنائی گئیں، جن میں بوسنین ، ترکی، رومانین، سواحیلی، ملایا ، لوگنڈا، فانٹی، اشانٹی، فرنچ، کریول، ٹمنی، مینڈے، ہاؤسا، چینی، سپینش، ڈینش، جرمن، تھائی ، سنہالہ، پشتو، انگریزی، ڈچ، اردو، عربی وغیرہ شامل ہیں۔
منتخب آیات قرآنِ کریم کی 18زبانوں میں سی ڈیز تیار ہوئی ہیں۔ منتخب احادیث کی 24زبانوں میں سی ڈیز تیار ہوئی ہیں۔ منتخب اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی 19 زبانوں میں سی ڈیز تیار ہوئی ہیں اور باقی تیاری کے مراحل میں ، تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
رقیم پریس
اس وقت رقیم پریس انگلستان کی نگرانی میں افریقہ کے آٹھ ممالک غانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، آئیوری کوسٹ، کینیا، گیمبیا اور بورکینا فاسو میں پریس کام کر رہے ہیں۔ اس سال صرف لندن کے رقیم پریس سے طبع ہونے والی کتب اور رسائل کی تعداد دو لاکھ بارہ ہزار پانچ سو (2,12,500) ہے۔ افریقہ میں طبع ہونے والی مختلف کتب کی تعداد چار لاکھ چھیاسی ہزار (4,86,000)ہے۔ اور پریسوں کو اَپ ڈیٹ کرنے کے لئے اُن کو نئی جدید مشینیں بھی بھیجی گئی ہیں۔ اور جس طرح کہ مَیں نے کہا تھا کہ یہ روحانی خزائن کا سیٹ شائع ہو گیا ہے، 12 کتب تو آ گئی ہیں اور باقی 11 بھی انشاء اللہ جلد ہی آ جائیں گی۔ان میں ایک تو یہ خصوصیت ہے کہ سیٹ کی جلد نمبر 2 اور نمبر 4میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تین اہم مضامین کو شاملِ اشاعت کر لیا گیا ہے جو کہ گزشتہ ایڈیشنوں میں نہیں تھے۔ تو اس طرح نئی چھوٹی کتب بیچ میں شامل ہو گئیں، اور یہ تیئس جلدوں کی قیمت جو ہے وہ سو پاؤنڈ رکھی گئی ہے جو آجکل کے حالات کے مطابق بڑی مناسب ہے۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل
ایم۔ٹی۔اے انٹرنیشنل میں اس وقت مینجمنٹ بورڈ کے ماتحت 14 ڈیپارٹمنٹ کام کر رہے ہیں جن میں کل 116 مرد اور 46 خواتین ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چوبیس گھنٹے خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ خبر رساں ایجنسیReuters کے ساتھ نیا معاہدہ بھی ہو گیا ہے جو ایم ٹی اے کو عالمی ویڈیو رپورٹ پر مبنی روزانہ نیوز بلیٹن دیتا ہے۔ ایم ٹی اے نے جماعت کے تعارف پر مبنی ڈاکومنٹریز بنائیں، خلفائے احمدیت کے حالاتِ زندگی پر مبنی ڈاکومنٹریز بنائیں، دنیا بھر کے مختلف قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے معززین کی خلافت اور جماعت سے متعلق تأثرات پر پروگرام بنایا۔ یورپ میں گزشتہ برس نئی تعمیر شدہ مساجد سے متعلق پروگرام بنایا۔
ایم ٹی اے العربیہ کی وسعت۔اب یہ ہاٹ برڈ کے ساتھ ساتھ عرب دنیا میں دو انتہائی مقبول سیٹلائٹس جو ہیں اٹلانٹک برڈ 4 (Atlantic Bird 4)اور یورو برڈ 9 اے(Euro Bird 9A) پر شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں عرب دنیا میں ہر جگہ ایم ٹی اے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے کا یوٹیوب پر بھی ایک آفیشل چینل کے طور پر اجراء کیا گیا ہے اور اب ایم ٹی اے کے متعدد پروگرام یو ٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور تمام خطبات، خطابات اس میں سنے جا سکتے ہیں۔
ایم ٹی ا ے کے ذریعہ بیعتیں
ایم ٹی اے کے ذریعہ سے کئی بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔ مثلاً امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ایک احمدی دوست جن کا نام اماس کارہ(Amas Cara) بتاتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا اور روزانہ کلمہ شہادت پڑھ کر سوتے تھے۔ جب اُن پر یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت مرزا غلام احمد ہی مسیح موعود علیہ السلام ہیں تو ان کو فکر ہوئی کہ اگر آج رات مَیں فوت ہو گیا تو خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے کمبل میں سر دیا اور کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب ہی مسیح موعود و مہدی معہود ہیں اور کہا کہ اے اللہ! یہی میری بیعت ہے۔ (کیونکہ جماعت سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا ) ۔
ایم ٹی اے میں سپین کے بہت سارے واقعات ہیں۔ سپین کے شمالی شہر لیون(Leon) کے ایک قصبہ میں ایک مراکشی دوست حسان صاحب کو مع فیملی بیعت کرنے کی سعادت ملی۔ ان کا بھی جماعت سے رابطہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہوا۔ ایم ٹی اے سے ہی جماعت کے عقائد کا پوری طرح علم حاصل کر کے اُن کی تسلی ہو گئی۔ چونکہ سپین میں جماعت کا علم نہیں تھا انہوں نے اپنا اور فیملی کی بیعت کا خط ایم ٹی اے کے توسط سے مجھے یہاں لکھا۔، لندن سے اُن کا خط سپین بھجوایا گیا۔ اُن سے رابطہ کیا گیا، اُنہیں دنوں میں جلسہ سالانہ سپین منعقد ہونے والا تھا، اُنہیں جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔چنانچہ قریباً آٹھ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے مسجد بشارت پہنچے اور اپنے ساتھ مزید تین دوست بھی لے کر آئے اور واپس جا کر انہوں نے چندہ بھی بھجوانا شروع کر دیا۔
اسی طرح مراکش میں اور بہت ساری اَور جگہوں پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے عرب دنیا میں بیعتیں ہو رہی ہیں۔ بعض جگہ ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر لوگوں نے بیعتیں کیں۔
فرانس کے ایک علاقہ لمل (Limel)سے الجزائر کے ایک دوست علی شریف صاحب کا خط ملا ہے کہ خاکسار ایک داعی الی اللہ کے ساتھ اُن کے گھر چلا گیا۔ بڑی محبت سے ملے اور یوں لگتا تھا کہ پہلے سے احمدی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایم ٹی اے چینل جب بھی میرے سامنے آتا تھا تومَیں استغفار کر کے اُسے بند کر دیتا تھا اور بیسیوں بار ایسا ہوا کہ مَیں نے ایم ٹی اے کو بند کر دیا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جب مَیں ایم ٹی اے سامنے آیا تو میری بیوی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، اُس وقت ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر تھی، اُن کی بیوی نے کہا کہ یہ شکل تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ہے۔ مَیں نے خواب میں اس تصویر کو دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد تین گھنٹے لگاتار ہم نے الحوار المباشر پروگرام دیکھے اور میری بیوی نے کہا مَیں تو احمدی ہوتی ہوں، اُس وقت سے ہم آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں اور ہم احمدی ہیں۔
دیگرٹی وی اورریڈیو پروگرام
پھر اب ہے دیگر ٹی وی ریڈیو پروگرام۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کے علاوہ امسال 1159 ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ 769 گھنٹے اور 40منٹ وقت ملا اور دس کروڑ سے زائد افراد تک اس ذریعہ سے پیغام پہنچا۔
اسی طرح ریڈیو کے ذریعہ سے پیغام پہنچایا گیا۔ مختلف ملکی ریڈیو اسٹیشنز پر 3788گھنٹوں پر مشتمل مختلف ملکوں میں 5488پروگرام نشر ہوئے، جن کے ذریعہ سے محتاط اندازے کے مطابق سات کروڑ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔
پھر بورکینا فاسو اور دوسرے ملکوں میں اپنے ریڈیو اسلامک احمدیہ بھی چل رہے ہیں ۔ان کے ذریعے سے بھی لاکھوں احباب تک احمدیت کا پیغام، حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ گھانا میں بھی کوریج ملی، مختلف ممالک میں اللہ کے فضل سے کوریج مل رہی ہے۔ احمدیہ مسلم ریڈیو سٹیشن خدا کے فضل سے تبلیغ کے میدان میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔جماعت کی نیک نامی اور جماعت کے عقائد کے بارے میں بھر پور انداز میں بتایا جا رہا ہے۔ اور اس ریڈیو کی تبلیغ سے بھی لوگ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں سیرالیون میںایک لائیو پروگرام میں جب ٹیلی فون لائن آن کی گئی تو کہتے ہیں کہ واٹر لُو کے مقام سے لوکو(Loco) قبیلے کے ویسٹرن ایریا میں نائب سردار نے فون کیا کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے ہمارا ریڈیو سن رہے ہیں۔ اُن پر احمدیت کی حقیقت واضح ہو گئی ہے اور احمدیت کی سچائی کو تسلیم کرتے ہیں اور بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ مشن ہیڈ کوارٹر آنے کو کہا گیا تو اگلے دن وہ آئے اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔
اس طرح کے اَور بھی بہت سارے واقعات ہیں۔ پھر لوگوں میں اپنی اصلاح کی طرف بھی انقلابی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے یا ریڈیو کے پروگرام سن کے توجہ پیدا ہوتی ہے۔
نمائشیں ، بکسٹال
تصویروں وغیرہ کی نمائش اور بک سٹال۔ امسال 257نمائشوں کے ذریعہ چار لاکھ اکہتّر ہزار افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ 790 بک سٹالز اور 48 بک فیئرز میں شمولیت کے ذریعہ بیس لاکھ ستانوے ہزار افراد تک پیغام پہنچا۔ مختلف ملکوں میں، یورپ میں بھی یہ سٹال لگائے گئے۔ ناروے، سویڈن وغیرہ میں، اور اس کے بھی کئی واقعات ہیں۔
ایک عیسائی پادری ہیں امانوئیل اوجو، کرسچن چرچ آف کورٹ ا بیکوٹا کے ہیں۔ وہ لکھتے ہیںکہ پہلے میں صرف عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جانتا تھا لیکن آج چالیس سال بعد میری معلومات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تعلیمات کے ذریعہ سے ہوا ہے۔ میری دعا ہے کہ ہر گھر کا سربراہ احمدی ہو اور جو مرضی حالات ہوں ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہر سال یہاں بک سٹال لگایا کریں تا کہ زندگیوں میں کامیاب تبدیلی لائی جائے۔
اخبارا ت میں تشہیر
اخبارات کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تعارف کا موقع مل رہا ہے۔
عربک ڈیسک
عربک ڈیسک پمفلٹ شائع کرتا ہے، کتابیں شائع کرتا ہے اور اس سال انہوں نے ’’التقویٰ‘‘ کا بڑا خوبصورت خلافت جوبلی نمبر بھی شائع کیا ہے اور اس میں عبادہ بربوش صاحب نے بڑی محنت کی ہے۔ تصویروں کے معاملہ میں تو بڑے وہ کانشیئس (Conscious)تھے۔ایسی تصویریں جو بعض جماعتوں نے اپنے اپنے رسائل میں اور سوونیئرز میں شائع کی ہیں، جو کوالٹی کے لحاظ سے اتنی اچھی نہیں ہیں اور شائع نہیں ہونی چاہئے تھیں، تو انہوں نے بڑی محنت سے اُن کو علیحدہ کیا، اُن کی چھانٹی کی اور میرے پاس تصویریںلے کے آتے رہے۔ اور اُن کی رائے بڑی صحیح ہوتی تھی۔ اللہ کے فضل سے ’’التقویٰ‘‘ کا یہ سوونیئر خلافت جوبلی بڑا اچھا شائع ہوا ہے۔
اسی طرح مختلف کتابیں پریس میں موجود ہیں جو انشاء اللہ جلدی آ جائیں گی۔ اگلے سال کی رپورٹ میں اُن کا ذکر ہو جائے گا۔ عربی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب شائع ہو رہی ہیں۔ پھر عربی ویب سائٹ ہے۔آج سے پانچ سال قبل جماعت کبابیر نے عربی ویب سائٹ تیار کی تھی اس میں اب تک چھپنے والی سب عربی کتب، بہت سے مضامین اور سینکڑوں سوالوں اور اعتراضات کے مفصل جواب ڈالے جا چکے ہیں۔ اور حال ہی میں عربی کی ایک نئی ویب سائٹ کتابی ڈاٹ نیٹ kitaabee.netکے نام سے جاری کی گئی ہے اور اس کا لنک ہماری مرکزی سائٹ alislam.org اور عربی سائٹ alislamahmadiyya.net پر بھی موجود ہے۔ اس سائٹ پر جماعت کی تمام عربی کتب خریداری کے لئے موجود ہوں گی۔ جو دوست کوئی کتاب خریدنا چاہیں وہاں سے خرید سکتے ہیں اور اسی طرح خطبات وغیرہ بھی اور بہت سے دوسرے پروگرام بھی اس میں ڈالے جا رہے ہیں۔
بنگلہ ڈیسک
بنگلہ ڈیسک ہے، انہوں نے بھی خطبات اور بعض کتب کے ترجمے کئے ہیں اور شائع کئے ہیں اور کچھ پروگرام ایم۔ٹی۔اے کے لئے بنائے ہیں اور ویب سائٹ کے لئے بنائے ہیں۔
فرنچ ڈیسک
فرنچ ڈیسک ہے، یہ بھی جو لقاء مع العرب کے مختلف پروگرام، دوسرے سوال و جواب کے پروگرام، خطبات ہیں، تقاریر ہیں، ترجمہ کر کے انہوں نے کتب اور پمفلٹ کی صورت میں شائع کئے ہیں۔
چینی ڈیسک
چینی ڈیسک نے بعض کتب کے ترجمے شائع کئے ہیں۔
ٹرکش ڈیسک
ٹرکش ڈیسک ہے، یہ بھی کام کر رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے ترکی زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ نئے سرے سے نظر ثانی ہو کر آ رہا ہے، خطبات وغیرہ بھی اب دئیے جاتے ہیں۔
ایم ٹی اے3 العربیہ کے اثرات اور اس کے بارہ میں عربوں کے تأثرات
پھر ایم ٹی اے3 الحوار المباشر عربوں کے تأثرات ،رؤیا اور قبولِ احمدیت کے چند واقعات ہیں جو میں بیان کرتا ہوں۔ ایک صاحب ہیں شریفی عبدالمؤمن صاحب الجزائر سے، کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا، (انہوں نے دو خوابوں کا ذکر کیا ہے، دوسری خواب میں بیان کر رہا ہوں) کہ میں رو رہا ہوں اور مجھے (میں سامنے ہوں) واسطہ دے کر کہہ رہا ہوں کہ کیا کرنا چاہئے جس پر آپ مجھے (یعنی میں اُن کو دو بیعت فارم پکڑاتا ہوں) چنانچہ کہتے ہیں مَیں نے بیدار ہونے کے بعد انٹرنیٹ کھولا اور وہی دو بیعت فارم مجھے مل گئے جو میں نے خواب میں دیکھے تھے۔ چنانچہ میں نے فوراً بیعت کر لی اور اُس وقت سے میں اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کرتا ہوں اور شرائط بیعت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔
عراق کے ایک شاعر مکرم مالک صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کو ایم ٹی اے کے ذریعہ اس وقت جماعت سے تعارف حاصل ہوا جب ابھی عربی چینل شروع نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت تک خاکسار خلیفہ رابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو بدھ مت کا نمائندہ سمجھتا تھا، لیکن جب حضور کی وفات ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ نورِ محمدی آپ کے چہرہ پر برس رہا ہے۔ ہم سب گھر والوں کے دل سے آواز اُٹھی کہ کاش! یہ شخص مسلمان ہوتا،۔ اُس کے باوجود حضور کی وفات پر ہم لوگ نہ جانے کس بناء پر بہت روئے۔پھر اچانک ایک روز ایم ٹی اے کا عربی چینل اتفاق سے مل گیا اور اُس وقت سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہیں۔ چنانچہ میری بیوی نے تو دو خوابیں دیکھنے کے بعد پہلے ہفتہ ہی بیعت کر لی تھی۔ پہلی خواب میں دیکھا کہ حضرت علی میری بیٹی کو کچھ کاغذات دے رہے ہیں، میری بیوی نے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ بیعت فارم ہیں۔ دوسری خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خط میری بیوی کے نام لے کر آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ جو شخص میرے گھر میں داخل ہوتا ہے وہ میرے اہلِ بیت میں سے ہے۔ اس کے بعد میری اہلیہ نے بہت سی خوابیں دیکھیں، بیٹے نے خوابیں دیکھیں اور پھر ہم ساروں نے بیعت کر لی ۔ ایک خواب میں انہوں نے مجھے دیکھا ۔بیان کرتے ہیں کہ آپ ایک ڈھلوان جگہ پر ایک بڑے مجمع سے خطاب کر رہے ہیں اور مجمع میں تمام لوگ کھڑے ہیں، صرف وہ اکیلے میرے پاس قریب بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں آپ کی اچکن کو دیکھ رہا ہوں اور دل میں کہتا ہوں کہ سبحان اللہ! آپ نے امام مہدی کا لباس کیسے پہن لیا۔ اس کے بعد آپ نے خطاب ختم کیا اور کہتے ہیںکہ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور کہا کہ کیا ابھی آپ کا دل مطمئن نہیں ہوا۔ لگتا ہے آپ کو بھوک لگی ہے میرے ساتھ آئیں مَیں آپ کو کھانا کھلاتا ہوں۔ اس طرح اور بہت ساری خوابیں ہیں۔
رامض احمد حدیدی صاحب شام کے ہیں۔ ایک لمبے خط میں لکھتے ہیں کہ ایک دن جمعہ کے روز خطبہ سے قبل مسجد میں بیٹھا اپنے لئے اور اپنے افرادِ خانہ اور باقی مسلمانوں کے لئے استغفار میں مشغول تھا اور مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت اور اسلام سے دور ہوتے چلے جانے کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایک دعا ڈالی جو مَیں نے دل کی گہرائیوں سے کی کہ یا الٰہی! ہمارے معاملات جلد اپنے آخری خلیفہ کے سپرد فرما۔ یعنی تمام مسلمانوں کو جلد حضرت امام مہدی کے جھنڈے تلے جمع فرما اور اس کام کے لئے خود تمام وسائل مہیا فرما اور ہمیں اشرار کے حوالے نہ کر۔ کہتے ہیں نماز سے فارغ ہو کر میں گھر پہنچا۔ حسبِ عادت ٹی وی چینل گھمانے لگا تو نائل سیٹ پر مجھے ایم ٹی اے مل گیا جس پر اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر کا پروگرام چل رہا تھا اور انجیل عیسائیت کے بارے میں بات ہو رہی تھی جو مجھے اچھی لگی۔ میں اکثر کہا کرتا تھا کہ ہمارے علماء ان مسائل کو کیوں نہیں بیان کرتے تا کہ عیسائیوں کو ہمارے دین کی عظمت پر اطلاع ہو۔ تو جب میں نے یہ چینل دیکھا تو اللہ کا شکر کیا کہ آخر میری مراد پوری ہو گئی۔ پھر کہتے ہیں کہ 2007ء کے رمضان میں ایک دن جب پروگرام ختم ہوا تو میں نے نفل ادا کئے اور خدا سے خوب مناجات کیں۔اس دوران مجھے ایک بہت ہی پیاری آواز سنائی دی جو اتنی پیاری تھی کہ مجھے اپنی مناجات بھول گئیں۔مَیں اس آواز کو بڑی توجہ سے سننے لگا جو ایک پیارے کی اپنے حبیب سے مناجات تھی جو نہ دنیا طلبی کے لئے تھی نہ آخرت کے لئے، بلکہ خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے ایک بندے کی آواز تھی۔ جب یہ آواز ختم ہوئی تو حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصویر ظاہر ہوئی جنہیں میں پہچانتا نہیں تھا لیکن اس تصویر کے نیچے لکھا تھا۔ امام مہدی و مسیح موعود۔ اس پر میں نے تین دفعہ لَاحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃ اِلّا بِاللّٰہ پڑھا اور دل میں کہا کہ ہر چیز کمال کے بعد پھر زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ ایسے زبردست دلائل اور سچی باتوں اور نورانی چہرے رکھنے کے باوجود ہیں کیا؟ وہ سب اتنی بڑی غلطی کر رہے ہیں اور میں نے دعا کی کہ اے خدا! ہمیں حق کو حق کر کے دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق بخش اور باطل کو باطل کر کے دکھا اور اُس سے بچنے کی توفیق بخش۔ کہتے ہیں پھر میں ٹی وی بند کر کے سو گیا تو اُس رات ایک عظیم واقعہ ہوا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ مَیں امام مہدی ہوں اور مسیح موعود ہوں، کچھ پوچھنا ہے تو پوچھو۔مَیں دلائل سے ثابت کرتا ہوں لیکن مَیں نے منہ پھیر لیا۔ مگر وہ پھر میرے سامنے آ گئے اور فرمایا کہ مَیں خدا کی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں امام مہدی اور مسیح موعود ہوں، لیکن مَیں نے پھر منہ پھیر لیا اور اس طرح کہتے ہیں سات دفعہ ہوا، آپ میرے سامنے تشریف لاتے اور خدا کی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں امام مہدی ہوں۔ کہتے ہیں ساتویں دفعہ آپ کی آواز میں بہت شدت تھی گویا آپ کی آواز بجلی اور کڑک اور آندھیاں اور زلزلے ہیں اور اس دفعہ اس کی شدت مجھے باہر سے بھی اور دل کے اندر سے بھی محسوس ہوئی۔ پھر آپ نے ذرا آگے بڑھ کر نہایت شفقت اور وقار اور سکینت سے فرمایا جیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے بات کر رہا ہو کہ مَیں نے تمہیں سات دفعہ خدا کی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہا ہے کہ مَیں امام مہدی اور مسیح موعود ہوں، اتنی دفعہ مَیں نے اس سے پہلے کسی کے لئے قسم نہیں کھائی اور تم جانتے ہو کہ کیوں سات دفعہ مَیں نے قسم کھائی۔ پھر آپ تشریف لے گئے۔ کہتے ہیں کہ پھرمَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو بھی available کتابیں تھیں ان کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اور دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ کہتے ہیں بیعت کے چند دن بعد مَیں نے اُن امور کی تلاش شروع کی جن کا حضرت امام مہدی نے حکم دیا ہے تا کہ اُن پر عمل کر کے صحیح رنگ میں آپ کا معین و مددگار بنوں۔ چنانچہ مَیںایک دن نمازِ فجر سے واپس آ کر لیٹا اور ابھی بیدار ہی تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ جنت میں مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف بٹھایا گیا اور میرے اور آپ کے درمیان کوئی روک نہیں ہے۔ آپ نے اپنا دستِ مبارک میرے کندھے پر رکھ کر بڑی مسرت سے فرمایا۔ مبارک ہو آپ احمدی ہو گئے ہیں۔
پھر مکرمہ عہد البراقی صاحبہ سیریا سے لکھتی ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دمشق تشریف لائے ہیں اور پاکستانی دوست دیگوں میں چاول اور دوسرے کھانے بنا رہے ہیں جن کو بعد میں ہمارے گاؤںلے کر جائیں گے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں جانے والے ہیں۔ پھر دیکھا کہ میرے والد صاحب صالح نامی ایک شخص سے کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الحوار المباشر میں شرکت فرمائیں گے اور تمام عرب حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کریں گے۔ کہتے ہیں کہ میرا تأثر ہے کہ جلدہی یہ نظارے ہوں گے انشاء اللہ۔
پھر سامی لماحی صاحب مراکش سے لکھتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود
علیہ السلام کا دستِ مبارک مجھے تھامے ہوئے ہے، پھر نہایت شیریں اور خوبصورت محبت بھری آواز میرے کان میں پڑی جس کو مَیں بیان نہیں کر سکتا۔ اُس میںکہا گیا تھا کہ سامی! ڈرو نہیں ، حق تمہارے ساتھ ہے اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔
پھر مکرمہ عائشہ عبدالکریم صاحبہ کبابیر سے لکھتی ہیں کہ خواب میں دیکھا کہ میں کبابیر کے کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کے قریب موجود ہوں اور وہیں پر ایک کمرے میں کافی لوگ جمع ہیں جو اچانک بڑی تعداد میں باہر نکلتے ہیں۔ اُن کی کثرت عورتوں پر مشتمل ہے اور سخنین شہر کے اسرائیلی عرب لگتے ہیں۔ اس کمرہ سے نکلتے وقت وہ حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ پر خوشی کے اظہار کرتے ہیں۔ اُن کے پاس کچھ کاغذات ہیں جن پر حضور علیہ السلام کے شعر لکھے ہیں۔ خواب میں میرا یہ تاثر ہے کہ وہ لوگ حضور کی تبلیغ سننا چاہتے ہیں اور اُنہیں تسلی ہو گئی ہے لیکن ابھی بیعت نہیں کی۔ میں خواب میں کہتی ہوں کہ کتابیں کہاں ہیں؟ ضرور کچھ کتابیں ہونی چاہئیں۔ اور میرے دل میں آیا کہ اب نئے سرے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ شروع ہو گی اور نئے رستے کھلیں گے۔ ہمیں حضور کی کتب کے مطالعہ پر زور دینا چاہئے تا کہ ان مقامی عربوں کو تبلیغ کر سکیں۔
تمیم ابو دقہ صاحب اردن سے ایک زیرِ تبلیغ دوست کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایک دن اُن دوست سے کہا کہ خدا تعالیٰ سے رہنمائی چاہو اور دعا کرو۔ چنانچہ اُسی رات انہوں نے خدا کے حضور دعا کی اور صبح فجر سے پہلے غنودگی کی حالت میں یہ آواز سنی’ وہ امام مہدی اور مسیح موعود ہے‘۔ انہوں نے اس آواز کو کہا کہ مَیں یہ جملہ دو تین چار بار سننا چاہتا ہوں تو آواز نے کہا کہ کیا تو ایمان نہیں لا چکا؟ مَیں نے حضرت ابراہیم والا جوا ب دیا کہ اطمینان قلب چاہتا ہوں۔ اس کے بعد جب بیدار ہوا تو پوری طرح مطمئن ہو چکا تھا۔
ان پروگراموں سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور مسلمانوں میں بھی جرأت پیدا ہو رہی ہے اس کے بارے میں اٹلی کے ایک احمد حسن صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی عمر کے بارہ میں جو عربی میں پروگرام ہوا تھا، آپ نے جو تحقیق پیش کی ہے، اُس کے بعد ہم سر اُٹھا کر چلنے لگے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جس طرح آپ نے بیان کی ہے اس کے بعد ہم اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنے لگے ہیں۔
پھر ایک عراق کے قومی شاعر ہیں، انہوں نے انٹرنیٹ سے احمدیت کا تعارف حاصل کیا اور ان کا کسی کو نہیں پتہ تھا کہ وہ احمدی ہیں اور انہوں نے اپنی ایک ویب سائٹ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں قصیدہ اور خلفاء کے بارے میں لکھا، تب لوگوں نے جب پڑھا تو ان کو پتہ لگا کہ یہ احمدی ہیں۔ اس لحاظ سے بھی سائٹس ہمارے کام کر رہی ہیں۔
عزیز عبدالمجید صاحب سوئٹزر لینڈ سے لکھتے ہیں کہ میرا تعلق برما سے ہے۔ خدا کی تقدیر تقریباً اڑھائی سال قبل مجھے یہاں لے آئی جہاں پہلی بار احمدیت سے متعارف ہوا۔ میں عربی زبان اچھی طرح بول اور سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے ایم ٹی اے کے عربی پروگرامز بہت اچھے لگے جن میں دلیل اور منطق سے بات ہوتی ہے۔ مجھے اپنے بہت سے سوالات کا کافی و شافی جواب مل گیا ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت احمدیہ ہی فرقہ ناجیہ اور خدا تعالیٰ کی تائید یافتہ جماعت ہے۔ میری درخواست ہے میری بیعت قبول کریں۔
پھر سعد الفضلی صاحب کویت سے لکھتے ہیں کہ مَیں غیر احمدی ہوں لیکن مَیں کہتا ہوں کہ آپ اسلام کے دفاع میں صفِ اول میں کھڑے ہیں اور باوجود غیر احمدی ہونے کے مَیں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے دفاع میں آپ کی سپورٹ پہ کھڑے ہونا چاہئے۔
اسماعیل عدنان صاحب ناروے میں ہیں، وہ عربی کا پروگرام اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر سنتے ہیں۔کہتے ہیں کہ مَیں صوفی ہوں اور تصوف سے مجھے بے حد لگاؤ ہے۔ مَیں آج دنیا کے تمام صوفیوں کو ایم ٹی اے کی وساطت سے کہتا ہوں کہ آؤ اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو جاؤ کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا کلام سارے کا سارا تصوف کے اعلیٰ مضامین پر مشتمل ہے اور دین کا مغز ہے۔ آؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ’’اللّٰہ نورُ السّمٰوت والارض مثل نورہ کمشکوۃ‘‘ کی تفسیر پڑھ کر دیکھو کہ کس طرح آپ نے مشکوۃ کی تفسیر کو اعلیٰ علیین تک پہنچا دیا جبکہ دیگر علماء اس سے قاصر رہے۔
احمدی نوجوانوں میں سے بعض صوفیوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں کہ صوفی ازم بہت اچھا ہے اور اس کو اپنانا چاہئے تو صوفیاء جو عقلمند صوفی ہیں، جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ تو اب حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی میں آنا چاہتے ہیں۔
پھر شمس الدین صدیق عثمان صاحب کردستان سے لکھتے ہیں مَیں نے تقریباً 25سال قبل خواب میں حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو چاند کے اندر بیٹھے ہوئے آسمان سے اترتے دیکھا تھا۔ اب ایم ٹی اے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ کے چاند سے اترنے کی تعبیر یہی ایم ٹی اے ہے۔ مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں، قبول فرمائیں۔
اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے عرب ممالک میں بہت ساری بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔
تحریک وقف نَو
اب تحریک وقفِ نو کی رپورٹ پیش کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امسال واقفین نَو کی تعداد میں 1945 کا اضافہ ہوا ہے اور کل تعداد اب 39081 ہو گئی ہے۔ لڑکوں کی تعداد 25013 ہے اور لڑکیوں کی تعداد 14068 ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب ایک اور ایک اعشاریہ آٹھ کا ہے۔ پاکستان اور بیرونِ پاکستان میں جو موازنہ ہے اُس میں یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد ابھی بھی ایک اور دو کی ہے۔ یعنی دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لیکن یہاں جو تعداد ہے اس میں سمجھیں ڈیڑھ لڑکے اور ایک لڑکی کا مقابلہ ہو رہا ہے، لڑکیوں اور لڑکوں کی نسبت میں جو گیپ ہے وہ یہاں کم ہے۔
احمدیہ ویب سائٹ
احمدیہ ویب سائٹ alislam.org کی جو سالانہ رپورٹ ہے اُس کے مطابق بھی قرآنِ کریم کا عربی، انگریزی اور اردو زبان میں سرچ انجن مہیا ہے۔ اُس کے علاوہ جماعتی تفاسیر، اردو ، انگریزی زبان میں آن لائن پڑھنے کے علاوہ ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہیں اور اس طرح ان کے مختلف پروگرام ہیں۔
پریس اینڈ پبلیکیشن
پریس اینڈ پبلیکیشن نے اس سال کافی کام کیا ہے اور دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل میں مرکز سے بھجوائے جانے والی پریس ریلیز کی تعداد 105 ہے۔
مخزنِ تصاویر
مخزنِ تصاویر میں بھی اللہ کے فضل سے کافی بہتری ہوئی ہے اور انہوں نے اچھی کولیکشن (collection)کی ہے۔
احمدیہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز
احمدیہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز نے افریقن ممالک میں جا کر کم قیمت پر بجلی مہیا کرنے کا بڑا کام کیا ہے۔مسجدوںمیں بجلی لگانے کا، پینے کا پانی مہیا کرنے کابڑا کام کیا ہے۔ غانا کے شمالی علاقہ جات میں بارہ مختلف مقامات پر سولر سسٹم لگایا گیا ہے جو مسجد کے لئے بجلی فراہم کرتا ہے اور اُس سے ایم ٹی اے بھی سنا جاتا ہے۔ بورکینا فاسو میں دس مقامات پر لگایا گیا ہے۔ اور بہت سارے ایسے علاقے ہیں جہاں پہلی دفعہ وہاں کے گاؤں کے بچوں نے روشنی بھی دیکھی اور ایم ٹی اے بھی دیکھا۔ اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ گیمبیا میں دس، سیرالیون میں دس، تنزانیہ میں دس، یوگنڈا میں دس اور کونگو میں دس، مالی میں بارہ، بینن میں پندرہ، ٹوگو میں پانچ سسٹم لگائے گئے اور اس طرح کل 105 سولر سسٹم لگائے گئے۔ اس کے علاوہ 1500سولر لینٹرن جو ہیں، چھ ملکوں میں تقسیم کی گئیں۔ افریقہ کے دور دراز علاقوں میں پینے کے لئے صاف پانی مہیا کیا گیا۔ انجینئرز جو ہیں یہاں کے اللہ کے فضل سے بڑا کام کر رہے ہیں، نوجوان انجینئرز وہاں جاتے ہیں اورگرمی میں کئی کئی دن رہ کر آتے ہیں۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق کل 357 ہینڈ پمپ لگا چکے ہیں جن میں بینن میں 65، بورکینا فاسو میں 158، غانا میں 27، گیمبیا میں 22، مالی میں 34 اور آئیوری کوسٹ میں 51 پمپ لگائے جا چکے ہیں۔ اس سال کے دوران لگائے جانے والے پمپس کی تعداد 165 ہے۔ جماعتی تعمیرات اور دوسرے پراجیکٹس جو ہیں اُن میں بھی یہ لوگ کافی کام کر رہے ہیں اور قادیان میں ظہور قدرتِ ثانیہ کی جو یادگار بنائی گئی ہے اُس میں بھی انہوں نے کام کیا ہے۔ انہی کا ڈیزائن تھا۔ مسجد اقصیٰ کی توسیع میں بھی انہوں نے نقشے میں مدد کی۔
بینن میں ٹیم نے پانی نکالنے کا جو کام کیا اس کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک جگہ ہم اپنا ٹرک لے کر گئے۔ نوجوان یہاں سے گئے ہوئے تھے انہوں نے کام شروع کیا۔وہاں سے پانی نہیں نکلتا تھا۔ ایک پرانا نلکا کہیں لگایا گیا تھا۔ وہاں جو پمپ تھا ختم ہو چکا تھا۔ تو کہتے ہیں ہم نے پرانا نلکا اکھیڑ کر نیا نصب کرنا چاہا تو زمین اتنی سخت ہو چکی تھی کہ پندرہ سال سے نلکا بند تھا اور نیچے سے زمین کی صورتِ حال بھی بدل گئی ہوئی تھی۔ ہم نے کمپریسر چلایا، عموماً کمپریسر جب چلاتے ہیں تو دو سے تین گھنٹے میں اچھا رزلٹ دے دیتا ہے۔ مگر یہاں چار گھنٹوں کے بعد بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ کہتے ہیں پانچ گھنٹے کی کوشش کے بعد بڑا بدبو دار، گندا کیچڑ نکلنا شروع ہوا اور اتنا بدبودار تھا کہ گاؤں والے بھی اُس کو سونگھ کر وہاں سے دوڑ گئے ۔لیکن ہماری ٹیم وہاں مستقل مزاجی سے کام کرتی رہی اور یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کرنی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کا نظارہ دکھایا کہ پانچ گھنٹے کے بعد مزید دو اور گھنٹے کمپریسر چلانے کا فیصلہ کیا اور کہتے ہیں سات گھنٹے مسلسل کمپریسر چلنے کے بعد یکایک صاف اور شفاف پانی زور کے ساتھ نکلنے لگا۔ اُس وقت ہماری تو کیا، عوام اہالیانِ گاؤں کی بھی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ہر بچہ اور بڑا چھلانگیں مار رہا تھا اور سارے گاؤں والے بالخصوص جماعت احمدیہ کا بہت زیادہ شکر ادا کر رہے تھے۔
کہتے ہیں آئیوری کوسٹ میں ایک گاؤں میںجماعت نے نیا پمپ لگایا تو اس دن گاؤں میں عید کا سا سماں تھا۔ ہر آنکھ فرطِ جذبات سے اشکبار تھی اور بار بار پُرنم آنکھوں سے جماعت کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ ایک بوڑھی عورت نے کہا کہ میں جب بھی اس پمپ کا صاف پانی پیتی ہوں تو جماعت کے لئے دعا کرتی ہوں۔ گاؤں کے چیف نے کہا کہ میری اور گاؤں والوں کی طرف سے اپنے خلیفہ کا شکریہ ادا کر دیں۔
اکتوبر 2008ء میں آڈوکرو (Adoukro)(یہ ایک چھوٹاسا گاؤں ہے)۔ یہاں جماعت نے پمپ مرمت کروایا اور لوگوں نے، گاؤں والوں نے بڑے جذباتی انداز میں شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح اور بہت سارے کام ہیں جو انہوں نے کئے۔ اسی طرح سولر سسٹم سے مختلف علاقوں میں روشنی آئی ہے۔اس وجہ سے وہاں کے لوگ انتہائی شکر گزار ہیں ۔
ہیومینٹی فرسٹ
ہیومینٹی فرسٹ بھی اللہ کے فضل سے خدمات انجام دے رہی ہے اور مختلف جگہوں پر بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔
امیر صاحب بورکینا فاسو بیان کرتے ہیں کہ اس سال اب تک چار آئی کیمپوں میں ہم نے 241 مریضوں کے موتیا کے مفت آپریشن کئے ہیں اور اب تک 1190 مریضوں کے مفت آپریشن کر چکے ہیں۔ جب ان مریضوںکی نظریں بحال ہوتی ہیں تو شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے۔ اور اس کی وجہ سے وہاں ملک میںجماعت کا بڑا نام پیدا ہو رہا ہے ۔ نائیجیریا میں بھی آنکھوں کے آپریشن کئے گئے۔
نادار، ضرورتمندوں اور یتیموں کی امداد
نادار اور ضرورتمندوں کی اور یتیموں کی امداد کی جاتی ہے، اس میں بھی کافی بڑی رقم دی گئی۔
قیدیوں سے رابطہ اور اُن کی خبر گیری
قیدیوں سے رابطہ اور اُن کی خبر گیری کا کام کیا گیا۔
نصرت جہاں سکیم
نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں 36 ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں جن میں ہمارے 38 ڈاکٹر خدمات میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ بارہ ممالک میں ہمارے 521 ہائر سکینڈری سکول ہیں، جونیئر سیکنڈری سکول ہیں، پرائمری اور نرسری سکول ہیں۔ دورانِ سال کینیا میں شیانڈا کے مقام پر ہمارے نئے ہسپتال نے باقاعدہ کام شروع کیا اور یہ ہسپتال اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ 20بستروں پر مشتمل وارڈز ہیں اور وہاںحکومتی حلقوں میں اس کوبڑا سراہا گیا۔ اسی طرح پاراکو(بینن) میں نئے تعمیر ہونے والے ہسپتال کا افتتاح ہوا جو60 بیڈز پر مشتمل ہے۔ اس طرح اور بہت سارے ممالک میں کام ہو رہے ہیں۔ اور میڈیکل جو کلینک ہیں اور hospitals ہیں ان کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف جگہوں پرجماعت کی بڑی نیک نامی ہو رہی ہے اور لوگ اور حکومتیں بھی بڑے شکر گزار ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سے مَیںایک تو احمدی ڈاکٹروں کو جو پاکستان میں بھی ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں یہ تحریک بھی کرنا چاہتا ہوںکہ اگر جو آسانی سے وقت دے سکتے ہیں بلکہ اگر نہیں بھی دے سکتے تو قربانی کے جذبے کے تحت کچھ عرصہ کے لئے اپنے آپ کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے پیش کریں۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہا ہے ربوہ میں اور ارد گرد کے علاقے میں احمدیوں، غیر احمدیوں میں اس کی بڑی ساکھ ہے، بلکہ ایسے ایسے معجزانہ کیسز اُن کے ہوتے ہیں کہ ہمارے ڈاکٹر نوری صاحب مختلف سیمینارز میںجو اپنی رپورٹس پیش کرتے ہیں تو ڈاکٹر حیران ہوتے ہیں کہ اتنے اچھے رزلٹ تو آ ہی نہیں سکتے۔ جب سے یہ شروع ہوا ہے اٹھارہ ماہ کے عرصہ میں پینسٹھ ہزار(65,000) مریض اُن کے پاس آئے اور سات ہزار پانچ سو(7,500) ان کے مختلف سپیشل پروسیجر ہوئے ہیں۔ انٹرنیشنل(International) پروسیجر جو ہوئے ہیں 1750، اینجو پلاسٹی 500، بائی پاس آپریشن 125۔ تو یہ اچھا کام کر رہی ہے لیکن ڈاکٹروں کی اور پیرامیڈیکل سٹاف کی وہاں بہت کمی ہے۔ گو پیرامیڈیکل سٹاف کی کمی تو کسی نہ کسی طریقے سے ٹریننگ دے کے شارٹ کورسز کرا کے اُن کو پوری کر رہے ہیں۔لیکن ڈاکٹروں کو مَیں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ مغربی ممالک سے تو چاہے وہ تین تین مہینہ کے لئے جائیں، plan کر کے وہاںجایا کریں اور پاکستان کے ڈاکٹرز جو ہیں وہ کم از کم تین سال سے چھ سال تک کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں۔ اور اتنا زیادہ بوجھ ہے کہ جو چودہ پندرہ ڈاکٹرز کا موجودہ سٹاف ہے، اُن کو بعض دفعہ صبح سے لے کے عام حالات میں بھی رات سات آٹھ بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ اور جب پروسیجر ہو رہے ہوں تو بعض دفعہ ڈاکٹر صاحبان جو سپیشلسٹ ہیں، وہ رات کے دو دو بجے تک کام کرتے رہتے ہیں۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا فضل ہے جو ربوہ میں یہ ہسپتال شروع کیا گیا ہے، ربوہ کی آبادی کے لئے اور ارد گرد کے علاقے کے لئے بھی۔تو جیسا کہ مَیں نے کہا علاوہ اپنے پروفیشن میں تجربہ حاصل کرنے کے ایسے ایسے اللہ تعالیٰ شفا کے کیسز عطا فرما رہا ہے کہ بڑے بڑے سپیشلسٹ کو بھی ایسے کیسز سن کر حیرت ہوتی ہے۔ تو ایک تو اپنے پروفیشن میں آپ کی ترقی بھی ہو گی، یہ نہیں کہ اُس میں کمی ہو۔ اور دوسرے خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت جس کے لئے اس پروفیشن کو احمدی ڈاکٹروں کو اختیار کرنا چاہئے، اُس کو بھی آپ پورا کرنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی ہوں گے۔ اس لئے احمدی ڈاکٹرز خاص طور پر کارڈیالوجسٹ اور ہارٹ سرجن اور انستھیزیا (Anesthesia)والے اپنے آپ کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے پیش کریں۔
نومبائعین سے رابطے
نومبائعین سے رابطے کا جہاں تک سوال ہے، مَیں نے کہا تھا کہ 70فیصد سے رابطہ کریں۔ بیعتیں کروانے کے بعد رابطے نہ کرنے کی وجہ سے اُن کو چھوڑ دیا گیا جو بہت سارے لوگ ضائع ہو گئے یا اُن سے رابطے نہیں رہے، گم گئے۔تو ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے گھانا سرِ فہرست ہے۔ہر سال ہزاروں کی تعداد میں رابطے کرتے ہیں، اس سال بھی گھانا نے اکاون ہزار نومبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے۔ اور اب تک گھانا اس مہم کے تحت گزشتہ پانچ سال میں آٹھ لاکھ اٹھارہ ہزار نومبائعین سے رابطہ کر چکا ہے۔ نائیجیریا نے بھی امسال پچانوے ہزار ایک سو اٹھارہ نومبائعین سے رابطہ کیا ہے اور یہ بھی اب تک چار لاکھ چھیاسی ہزار لوگوں سے رابطہ کر چکے ہیں اور جماعت کا حصہ بنا گئے ہیں۔ اسی طرح بورکینا فاسو میں سولہ ہزار سے رابطہ ہوا۔ آئیوری کوسٹ ہے، سیرالیون ہے۔ اب ان رابطوں کی وجہ سے جو پرانی بیعتیں جنہوں نے کی تھیں اور رابطے ختم تھے، لاکھوں کی تعداد میں وہی لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے شامل ہو رہے ہیں اور جماعت وہاں قائم ہو رہی ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑی ہو رہی ہے۔
بیعتیں
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال بیعتوں کی تعداد جو ہے وہ چار لاکھ سولہ ہزار دس(4,16,010) ہے۔ اور ایک سو گیارہ (111)ممالک سے تین سو چھیاسٹھ (366)قومیں احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔
مَیں ہر سال متعلقہ جماعتوں کو کہا کرتا ہوں کہ یہ جو بیعتیں ہوئی ہیں ان کو ضائع نہیں کرنا، ان سے مسلسل رابطہ ہونا چاہئے اور ان کو جماعت کا فعال حصہ بنانا چاہئے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا۔ گزشتہ سال سے یہ زائد ہے اور اچھی خاصی تعداد زائد ہے۔ جماعت نائیجیریا کی بیعتوں کی مجموعی تعداد اس سال ایک لاکھ پینتالیس ہزار(1,45,000) ہے اور اڑتالیس(48) نئی جماعتیں وہاں قائم ہوئی ہیں اور انہتر(69) مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ غانا کو بھی اس سال اڑتیس ہزار نو سو (38,900)بیعتوں کی حصول کی توفیق ملی، سولہ (16)مقامات پر جماعتیں قائم کی گئیں۔ مالی میں چھہتر ہزار نو سو نوے (76,990)بیعتیں ہوئیں۔ 135 نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا۔ ستاون (57)نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ برکینا فاسو میں چھبیس ہزار (26,000)لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ چھ (6)نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا۔ آئیوری کوسٹ میں بھی اللہ کے فضل سے بیس ہزار سینتالیس (20,047)بیعتیں ہوئیں، ساٹھ(60) مقامات پر پہلی بار احمدیت کا نفوذ ہوا۔بینن کو امسال چودہ ہزار ایک سو پینسٹھ(14,165) بیعتوں کی توفیق ملی۔ یوگنڈا میں بیعتوں کی تعداد چار ہزار (4000)ہے۔ کینیا میں دو ہزار چھ سو چون(2,654) بیعتوں اور اپنے سپرد ملک صومالیہ میں ایک سو تراسی (183)کے حصول کی توفیق ملی۔ ایتھوپیا میں ایک ہزار تریسٹھ(1,063) بیعتیں عطا ہوئیں۔ سیرالیون کو چھتیس ہزار ایک سو اٹھہتر (36,178)بیعتوں کے حصول کی توفیق ملی۔ سینتالیس(47) نئی جماعتیں بنیں، 82امام اور چیف احمدی ہوئے اور ہندوستان کی اس سال کی بیعتوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو ہزار تین سو ستاون (2,357)ہے۔
رؤیائے صادقہ کے ذریعہ قبول احمدیت کے واقعات
رفیع احمد صاحب مبلغ یوگنڈا لکھتے ہیں کہ ایک ساؤتھ انڈین دوست گزشتہ نو ماہ سے زیرِ تبلیغ تھے۔ وفاتِ مسیح، ختم نبوت اور مسیح کی آمدِ ثانی سے متعلق جب اُن کے تمام سوالات کے جوابات اُنہیں مل گئے تو خاکسا رسے کہنے لگے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی واضح نشان دکھایا جائے۔ خاکسار نے اُنہیں کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعاکریں، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ کہتے ہیں کچھ عرصے بعد وہ بیعت کے لئے تیار ہو گئے اور پوچھنے پر کہنے لگے کہ مَیں نے خواب میں اپنے دادا کو دیکھا ہے جو فوت ہو چکے ہیں اور اُن کی میز پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر ہے اور دوسری خواب یہ دیکھی کہ کسی اجنبی جگہ پر جا رہا ہوں، ایک عورت ملتی ہے اُس سے پوچھا کہ مَیں نے مسجد جانا ہے وہ عورت مجھے مسجد لے کر جاتی ہے۔ ایک جگہ مسجد آتی ہے وہ اس میں نہیں جاتی۔ تھوڑے فاصلے پر ایک اور مسجد ہے، وہاں لے کر جاتی ہے۔ جب مَیں اُس مسجد میں داخل ہونے لگتا ہوں تو وہاں Ahmadiyya Muslim Mosque لکھا ہوا ہے۔ ان دونوں خوابوں کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔
مبلغ سلسلہ فرانس لکھتے ہیں کہ عزّالدین اکوش کے بیٹے نور الاسلام کو گزشتہ سال جبکہ اُس کی عمر ساڑھے بارہ سال تھی، خواب آئی کہ وہ گھر سے باہر نکلا ہے اور دیکھتا ہے کہ آسمان سے عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو رہے ہیں۔ اُن کے گرد نور ہے۔ صبح اپنے والد کو خواب بتائی۔ اُس پر اُن کی توجہ احمدیت کی طرف ہوئی۔ انہوں نے انٹرنیٹ اور ایم ٹی اے سے معلومات لینی شروع کیں۔ ایک دن باپ بیٹا انٹرنیٹ دیکھ رہے تھے اور سکرین پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر تھی۔ اچانک بیٹے کی نظر پڑی تو بول اُٹھا کہ اسی شخص کو مَیں نے آسمان سے اترتے دیکھا تھا۔ اُس کے بعد اُن کی طرف سے بیعت کا خط آ گیا۔
اسی طرح اور بہت سارے واقعات ہیں۔ بوبو جلاسو سے پارے نوفو(Pare Noufo) صاحب ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں خدا سے دعا کرتا تھا کہ اسلام کے اتنے فرقے ہیں، تُو ہی مجھے بتا کہ کس فرقے کی پیروی کروں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن مَیں نے خواب دیکھا کہ احمدیہ مشن ہاؤس میں جاتا ہوں اور وہاں ایک بزرگ نماز پڑھا رہے ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ یہ خدا کے خلیفہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں بھی اُن کے پیچھے ہو لیا اور نمازادا کی۔ جب میری آنکھ کھلی تومَیں نے فوری طور پر احمدیہ مشن حاضر ہو کر بیعت کر لی۔
ایک سوئس باشندے کو خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ 1987ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زیورخ یونیورسٹی میںRevelation والے خطاب میں شامل ہوئے تھے۔ خطاب کے فوراً بعد کے عرصے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس شخص کو خواب میں ملے اور اپنی طرف بلایا جس سے اُن کی توجہ احمدیت کی طرف پیدا ہوئی۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ رابطہ میں کمی آ گئی۔ دورانِ سال یہ صاحب مسجد آئے اور بتایا کہ اب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کثرت سے اُنہیں خواب میں ملے ہیں اور اپنی طرف بلایا ہے۔ اس کثرت سے زیارت ہوئی ہے کہ مسجد آئے بغیر چارہ نہ تھا۔ بتانے لگے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مرید ہوں، آپ سے محبت کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی کتب کے بارے میں انٹرنیٹ سے حاصل کردہ بعض معلومات اُن کے پاس کاغذات کی صورت میں تھیں۔ اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں اور احمدیت کے بارے میں بھی بعض کتب دی گئیں۔ اب بیعت کرکے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔
پھر بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں، ایسی بیعتیں بھی آ رہی ہیں جو احبابِ جماعت کے اخلاق کو دیکھ کر جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر مخالفین کی مخالفانہ کوششیں جو ہیں، وہ بھی جماعت کے نومبائعین کی ایمان میں مضبوطی کا باعث بن رہی ہیں اور اُس کے بھی بہت سارے واقعات ہیں۔ پھر قبولیتِ دعا کے، تائیدِ الٰہی کے بعض واقعات ہیں۔
امیر صاحب کونگو کنشاسا لکھتے ہیں کہ لوبو مباشی کے ایک نو مبائع داعی الی اللہ مکرم عیسیٰ صاحب ایک دن تبلیغ کے لئے نکلے۔ شہر میں ہی تھے لیکن اپنے گھر سے دور تھے، تبلیغ کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور رات کے نو بج گئے۔ اُن کی بیوی اور ایک بچی بعمر ایک سال بھی ساتھ تھیں۔ تبلیغ سے فارغ ہو کر گھر جانے لگے تو تیز بارش شروع ہو گئی۔ ایک ٹیکسی ملی جو راستے میں خراب ہو گئی۔ مجبوراً اترے، بچی کو ڈھانپنے کے لئے کوئی خاص کپڑا یا چھتری وغیرہ بھی نہ تھی اور گھر خاصّہ دور تھا۔ چنانچہ دعا کرنے لگے۔ بتاتے ہیں کہ جیسے جیسے دعا کرتا جاتا تھا بارش کم ہونے کی بجائے اور تیز ہو رہی تھی۔ پیدل چلنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سڑک پر کوئی ٹیکسی نہ تھی۔ چنانچہ پیدل چلے جا رہے تھے کہ پیچھے سے گاڑی آئی اُس میں دو تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے،۔انہوں نے کہا اس وقت تم لوگ کہاں پھر رہے ہو۔ چلو گاڑی میں بیٹھو۔ چنانچہ یہ اپنی اہلیہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے صرف یہ پوچھا کہ کس علاقے میں رہتے ہو۔ راستے میں ایک جگہ گاڑی روک کر کہنے لگے کہ سردی ہو رہی ہے اور تم لوگ بھیگ بھی گئے ہو۔ اتر کر چائے کے لئے چینی وغیرہ لے لو۔ چنانچہ چینی لے کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ آگے ایک جگہ پانی تیز رفتاری سے سڑک کے اوپر سے بہ رہا تھا اور تمام گاڑیاں کھڑی تھیں، کوئی وہاں سے گزر نہیں رہا تھا۔ اُن لوگوں نے گاڑی وہاں سے گزاری اور گھر تک انہیں چھوڑا۔ نہ راستے میں انہوں نے کوئی بات کی اور نہ کچھ پوچھا۔ عیسیٰ صاحب بتاتے ہیں کہ نہ مَیں نے اُنہیں پہچانا اور نہ ہی انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور نہ ہی گاڑی کو پہچان سکا۔ اور کہتے ہیں کہ اس روز میرے گھر میں چینی بھی نہیں تھی، چائے بھی نہیں تھی، یہ سب باتیں اُن کو کس طرح پتہ لگیں۔
پھر اس طرح بڑی جگہوں کے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے بہت سارے واقعات ہیں۔
البانیہ جماعت کے ایک نو احمدی مڑکیلیان شپاڑتی(Markelian Shparthi) اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ (میرا لکھا ہے )انہوں نے کہا کہ سونے سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو میں ہر رات باقاعدگی سے درود پڑھتا رہا۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑا اجر مجھے عطا ہوا۔ ابتدا فروری کی ایک رات جب مَیں اپنے کالج کی تعلیم کے لحاظ سے روحانی لحاظ سے بھی بہت پریشان تھا میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے بہت حیران کیا اور ساتھ ہی بہت خوشی حاصل ہوئی۔ مَیں نے ایک خواب دیکھا جس میں مَیں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مجاہدین اور اصحاب میں سے پایا۔ دیکھا کہ ایک جنگ ہو رہی ہے اور اس موقع پر دشمن اپنے گھوڑوں پر ایک پہاڑی کے پیچھے واپس بھاگ رہا ہے۔ ہم اس بات سے بہت خوش ہوئے اور چونکہ ہم اُس وقت تھکے ہوئے تھے، وہاں پر ایک کمرے میں بیٹھ گئے جو کہ سبز اور سفید رنگ سے رنگا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ مَیں باورچی خانے میں جا کر پتہ کروں کہ دوپہر کا کھانا تیار ہو گیا ہے کہ نہیں؟ مَیں نے کچن مَیں جا کر وہاں موجود ایک خاتون سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ ابھی کھانا تیار نہیں ہوا۔ لیکن صرف میکرونی کھانے کے لئے ہے۔ پھر مَیں اسی کمرے میں واپس آیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ وہاں پر میرے والد صاحب، میرے کزن اور کچھ لوگ ایک لمبی چورس میز کے ارد گرد بیٹھے تھے جس کی لکڑی ہلکے پیلے رنگ کی تھی۔ مَیں نے آنحضرت صلی علیہ وسلم سے عرض کی کہ کھانا ابھی تیار نہیں اور صرف میکرونی کھانے کے لئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا وہی کھا لیتے ہیں۔ تو میں اس وقت اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے بہت بلند مرتبت محسوس کر رہا تھا جیسے میرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ اگرچہ ابھی تک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تھا لیکن آپ کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا اور اُس وقت جب چہرے کی طرف توجہ ہوئی تو دیکھا کہ خلیفۃ المسیح کا چہرہ ہے۔
دعوت الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کا انجام
پھر اسی طرح دعوتِ الی اللہ میں روکیں ڈالنے والوں کے انجام ہیں اُس کے بہت سارے واقعات ہیں۔
امیر صاحب صوبہ آسام و بنگال لکھتے ہیں کہ علمائے ہند نے ہماری جماعت کے پریم پور مشن سے کچھ میل دور پچاس ساٹھ ہزار افراد کی تعداد میں جلسہ کیا جس میں جماعت کے خلاف لٹریچر تقسیم کیا اور جماعت احمدیہ کے خلاف گالی گلوچ کی۔ اسی دوران خدا تعالیٰ نے طوفان کے ذریعہ اُن شر پسندوں کو سزا دی اور جلسہ کا سٹیج نیچے دھنس گیا۔ تین آدمی موقع پر ہلاک ہو گئے اور دو کی ہسپتال میں موت واقع ہو گئی۔
امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ داسا ریجن میں جماعت کی شدید مخالفت ہے۔ یہاں سعیدُوساکا نامی ایک شخص مخالفین مُلّاں کا سرغنہ تھا۔ اُس نے ایک پلان بنایا کہ تمام اماموں کی داسا میں میٹنگ کرے اور فیصلہ کر کے احمدیت اس علاقے میں جڑ سے اُکھاڑ دی جائے۔ چنانچہ یہ گاؤں گاؤں جا کر احمدیوں کو دھمکانے لگا اور غیر احمدیوں کو اس میٹنگ میں شامل ہونے کے لئے تیار کرنے لگا۔ اور اُنہیں بھی یہی دھمکی دیتا کہ اگر کوئی اس اہم میٹنگ میں نہ شامل ہوا تو اُس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ اس علاقے کے احمدی احباب بھی پریشان تھے کہ ایک اور بڑا فساد اُٹھنے والا ہے اور اکثر گاؤں تو ایک دو سال پہلے کے نومبائعین پر مشتمل ہیں۔ یہاں انہوں نے مجھے صورتحال لکھی اور دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہوئی اور جس دن میٹنگ تھی، اُس سے ایک دن قبل یہی سرغنہ سعید اوساکا سڑک پر کھڑا تھا کہ گزرتی ہوئی ایک تیز رفتار گاڑی سے اس کی ٹکر ہوئی اور ٹانگ ٹوٹ گئی اور تین ماہ کے لئے پلستر لگ گیا اور وہ میٹنگ ختم ہو گئی۔ اور اس واقعہ کی خبر ملتے ہی تمام احمدی، غیر احمدی سارے یہ کہنے لگے کہ یہ احمدیت کی مخالفت کا نتیجہ ہے۔
اسی طرح اور بہت سارے واقعات ہیں۔
نامساعد حالات میں رؤیا کے ذریعہ تسکین قلب
بعضوں کو اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ سے تسلی بھی دلاتا ہے۔
اَلَغ بیگ صاحب رشیا کی ایک سٹیٹ کے ہیں۔ خواب بیان کرتے ہیں کہ خواب میں کوئی شخص جس کا چہرہ مجھے دکھائی نہیں دیا، مربع نما ایک کالا پتھر مجھے دیتا ہے جس کے اوپر عربی میں اللہ کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ اُس نے کہا کہ یہ بہت ہی قیمتی پتھر ہے اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے تحفہ ہے۔ اُس کو محفوظ کر لو۔ اللہ کی طرف سے تم کو سلام ہو اور حضرتِ مسرور کی طرف سے تم کو سلام ہو اور پھر تین چار دفعہ یہ الفاظ دہرائے گئے۔
ارشد محمود صاحب قرغزستان سے لکھتے ہیں کہ ڈیڑھ سال قبل جب قرغزستان میں جماعت کی رجسٹریشن اور ویزا کا مسئلہ چل رہا تھا اور جماعت کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں تو اُن کو بھی ملک سے نکل جانے کے لئے کہا گیا۔ اُنہی ایام میں ایک رات خواب میں دیکھا کہ مَیں نے بائیں ہاتھ میں بلا خوف دو چھوٹے چھوٹے سانپ پکڑے ہوئے ہیں اور دائیں ہاتھ میں شیشے کے گلاس میں کوئی پانی نما محلول ہے اور خواب میں ہی مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر یہ سانپ کاٹ لیں تو انگلی اس محلول میں ڈبونے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر فائدہ نہ ہوا تو میراکہا کہ اُن کے پاس مرہم ہے جو ہر قسم کے سانپ کے کاٹے کا علاج ہے۔ کہتے ہیں کہ الحمد للہ خواب دیکھنے کے بعد پریشانی اطمینان میں بدل گئی اور خاکسار نے خواب سے یہی سمجھا کہ پانی نما محلول یہ دنیاوی چارہ جوئی ہے اور خلافت ہمارے پاس مرہم ہے جس کی دعا سے ٹھیک ہو جائے گا۔ تو اللہ کے فضل و کرم سے اُس کے بعد سے آج تک بیشمار مواقع پر اس مرہم کا استعمال کیا اور فائدہ ہوا ہے۔ اور اس کے بعدبھی دقتیں پیش آئی تھیں لیکن فوراً اللہ تعالیٰ نے ویزا کے سامان پیدا کردئیے۔ اس طرح کے اور واقعات ہیں۔
پھر خوابوں کے نتیجہ میں دشمنوں کے منصوبے بھی خاک میں ملے۔
انڈیا سے مبلغ انچارج راجوری لکھتے ہیں کہ احمدیہ مسجد راجوری کا کام ہو رہا تھا۔ مخالفینِ احمدیت کو جب اس کا علم ہوا تو مسجد کو مسمار کرنے کا پروگرام بنایا۔ سب لوگ اکٹھے ہوئے۔ اتفاق رائے کے لئے جب ہاتھ اُٹھائے گئے تو خدا کی تقدیر یوں ظاہر ہوئی کہ جبار نامی ایک شخص اُٹھا اور کہنے لگا کہ جب احمدی ہمیں کچھ نہیں کہتے تو ہم ان کی مسجد کیوں مسمار کریں۔ اس طرح یہ آپس میں اختلافات میں الجھ گئے اور جماعتی مخالفت بھول گئے اور ان کی مسجد مسمار کرنے کا پروگرام دھرا رہ گیا۔
اسی طرح انڈیا کے اور واقعات ہیں۔
ڈائمنڈ ہاربر انڈیا کا ایک اور واقعہ ہے کہ علاقہ سندر بن میں جماعت کی شدید مخالفت ہو رہی تھی۔ انہوں نے دعا کے لئے مجھے بھی لکھا اور میرا جواب اُن کوگیا کہ اللہ تعالیٰ مخالفین کے شر اُنہی پر اُلٹا دے۔ اسی سال مخالفین کی آپس میں کسی بات پر لڑائی ہوئی اور سترہ شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال میں داخل ہوئے۔ یوں مخالفت کا زور ٹوٹ گیا۔
امیر صاحب لائبیریا لکھتے ہیں کہ گزشتہ برس منروویا کے ایک اہم علاقے میں سکول کے لئے جگہ خریدی جس کی قیمت پچاس ہزار امریکن ڈالر تھی۔ وکیل کے توسط سے ساری کارروائی ہوئی اور جگہ جماعت کے نام رجسٹر ہوئی۔ چند روز کے بعد کورٹ سے سمن موصول ہوا جس کی بنیاد اس پر تھی کہ جس شخص نے یہ جگہ ہمیں دی ہے، وہ اس بات کا مجاز نہیں ہے اور اس فیملی کے دوسرے افراد نے اس کے خلاف مقدمہ جاری کروایا ہے۔ بڑی پریشانی ہوئی کہ جماعت کی اتنی بڑی رقم لگی ہے اور ہمارا سکول ایک لمبے عرصے کے بعد اپنی ذاتی جگہ پر منتقل ہوا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ جس جج کے پاس مقدمہ تھا اُس کو مخالف پارٹی نے بڑی رقم دے کر خرید لیا ہے۔ انہوں نے یہاں مجھے بھی ساری صورتحال لکھی اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ جج بدل گیا اور نیا جج جو آیا وہ ایک دن بیمار ہو کر ہمارے کلینک میں آیا۔ اُس نے ڈاکٹر صاحب سے ذکر کیا کہ میری ٹیبل پر آپ کے مشن کی ایک فائل ہے جو مَیں نے پڑھی ہے۔ خواہ مخواہ آپ کو پریشان کیا جا رہا ہے آپ وکیل سے کہیں کہ کیس فالو اَپ کرے۔مَیں عارضی طور پر اس کورٹ میں ہوں۔ ایک روز مخالف پارٹی کے کچھ افراد خاکسار کے پاس مشن ہاؤس میں آئے جو ایک مصیبت میں گرفتار تھے۔ مجھے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ ہم مشن کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے خود عدالت میں بیان دیا کہ وہ یہ مقدمہ واپس لے رہے ہیں اور آئندہ کبھی اس پراپرٹی کے بارے میں جماعت سے کوئی تنازعہ نہیں کریں گے۔
امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ جیجنی ریجن کا واقعہ ہے کہ ایک خادم سَونگالُو تراَوْرے جو احمدی تو تھا مگر اس کو خاص اخلاص اور توجہ نہیں تھی۔ کچھ عرصہ قبل اُس کی بیٹی حوّا جو ایک سال کی تھی بیمار ہوئی اور اس قدر بیمار ہوئی کہ تمام علاج معالجہ ختم ہو گیا۔ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ گھر آ کر پریشانی کے عالم میں تھے۔ خیال آیا کہ مربی صاحب نے جب تقریر کی تھی تو کہا تھا کہ خلیفۃ المسیح کی دعائیں اللہ سنتا ہے، میں فوراً تو ان تک پیغام نہیں بھیج سکتا لیکن اے اللہ! تُو کوئی نشان دکھا کہ مَیں اس بات پر تسلی پا جاؤں۔ کہتے ہیں اسی اثناء میں مَیں سو گیا تو مَیں اُن کی خواب میں آیا اور اُن کو لوکل زبان میں وہاں کے ایک درخت گابا بلے(Gaba Bley)، ( یہ درخت جو صرف اُسی علاقے میں پایا جاتا ہے)اُس کے متعلق کہا کہ اُس کے پتے توڑ لاؤ اور ابال کر اُس کے پانی سے لڑکی کو نہلاؤ اور بعد میں پھر اُس کو پلاؤ۔ تو کہتے ہیں یہ عجیب خواب دیکھ کر وہ جاگ گئے اور فوراً اُس درخت سے پتے توڑ کر لڑکی کا علاج کیا۔ خدا کی عجیب شان ہے کہ اُسی روزرات آنے سے قبل لڑکی رُو بہ صحت ہو گئی اور آج تک تندرست و توانا ہے۔
اسی طرح بورکینا فاسو کے امیر صاحب نے ایک شخص کا واقعہ لکھا ہے۔ مالین دوست تھے۔ کہتے ہیں کہ پولیس نے مجھے پکڑ لیا اور انہوں نے کہا یہ دہشتگرد ہے اس کو شُوٹ(shoot) کر دو۔ سعیدُو صاحب کہتے ہیں کہ مجھے کھڑا رکھا اور گو مجھے یقین ہو گیا کہ پولیس والے مجھے شوٹ(shoot) کر دیں گے۔ اس پرمَیں نے دعا کی کہ یا اللہ! اگر میرے خلیفہ تیری طرف سے ہیں تو آپ اُن کی بدولت میری جان ان پولیس والوں سے چھڑا دے۔ اس اثناء میں ایک پولیس والا میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ آدمی شکل سے دہشتگرد نہیں لگتا، اس کو واپس بھیج دو۔
ایک خاتون جو مذہباً عیسائی ہیں، ریڈیو پر ہمارے پروگرام بڑے شوق سے سنتی ہیں۔ اور جب کبھی خلیفۃالمسیح کا ذکر ہوتا ہے تو کہتی ہیں کہ یہ اللہ کا بندہ ہے جس کی خدا سنتا ہے۔ اس کا ایک بیٹا جو سترہ سال کا ہے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا اور شدید زخمی ہو گیا۔ اُس کو کِدگُو شہر کے ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ جب اس خاتون کو اطلاع ملی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے جماعت اور خلافت کے حوالے سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اُس کے بچے کو شفا دے دی۔
اسی طرح اور بہت سارے واقعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر بھی ظاہر کرنے کے لئے کہ جماعت احمدیہ میں جو خلافت کا قیام ہے وہ سچا ہے اور یہی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی پسندیدہ ہے دوسروں کو بھی نظارے دکھاتا ہے۔
یہ ایک واقعہ لکھا ہے انہوں نے کہ گنی بسائو میں جماعت کا ایک شدید مخالف بھرے مجمع میں جماعت کے حق میں تقریر کر گیا اور اُس سے اُس علاقے میں جماعت کو بڑا فائدہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جبکہ ساری دنیا میں بحران چلا آ رہا ہے جماعت احمدیہ مالی قربانی میں پہلے سے بڑھ رہی ہے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی طور پر بڑھ کر قربانی جماعت نے پیش کی ہے۔ اس کے بھی مختلف واقعات ہیں۔
نظام وصیت
نظامِ وصیت میں شامل ہونے والوں کی تعداد 2004ء میں اڑتیس ہزار ایک سو تراسی(38,183) تھی۔ آخری مسل کا نمبر اڑتیس ہزار ایک سو تراسی(38.183) تھا۔ اور ایک لاکھ کی جو مَیں نے خواہش ظاہر کی تھی، اُس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اب ایک لاکھ پانچ ہزار تین سو ستتر (1,05,377)ہوچکی ہے۔ آج امام صاحب بھی اپنی تقریر میں ذکر کر رہے تھے اُس میں قادیان کا نمبر غلط تھا، ایک لاکھ چھ ہزار(1,6000) نہیں، ایک لاکھ پانچ ہزار (1,5000) ہے۔
اس وقت تک بفضلِ خدا اٹھانوے(98) ممالک میں نظامِ وصیت قائم ہو چکا ہے اور ان میں سرِ فہرست تو پاکستان ہے۔ دوسرے نمبر پر جرمنی۔ پھر انڈونیشیا ہے۔ چوتھے نمبر پر کینیڈا ہے اور پانچویں نمبر پر برطانیہ ہے۔
جاوید اقبال ناصر صاحب مبلغ کوسوو لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت میں ایک دوست رجب حاسانی ہیں، جو اَب موصی بھی ہیں اور اس سلسلے میں سیکرٹری مال کی ذمہ داری ان کے پاس ہے۔ ایک ہسپتال میں کام کرتے تھے اور کسی اچھی نوکری کی تلاش میں تھے۔ کافی عرصہ تلاش کرنے کے باوجود کسی اچھی جگہ نوکری نہ مل رہی تھی۔ انہوں نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا اور وصیت فارم پُر بھی نہ کیا تھا بلکہ صرف چندہ وصیت ہی دینا شروع کیا تھا کہ فوراً ان کو شہر میں ان کی خواہش کے مطابق سروس مل گئی۔ انہوں نے کئی بار اس کا ذکر کیا کہ یہ صرف وصیت کی برکت اور خلیفہ وقت کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ایک خاص بات جس کا انہوں نے ذکر کیا وہ یہ ہے کہ وصیت کرنے سے قبل تنخواہ لینے جب بنک جاتا تھا تو اکثر اکاؤنٹ خالی ہوتا تھا ۔لیکن اب جب سے وصیت کی ہے کبھی بھی اس کا اکاؤنٹ خالی نہیں ہوتا۔
پس یہ قربانیاں ہیں جو جماعت دے رہی ہے اور اس حقیقت کو سمجھ رہی ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے سے ہی اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے اور دینی اور دنیاوی ترقیات بھی ملتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: براہینِ احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ ’’یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَاللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ(الصف:9)‘‘ یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نورِ خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بھجا دیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گااگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں۔ یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے حسبِ بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا۔ تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہلِ مکہ کے پاس خلافِ واقعہ باتیں کر کے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا۔ قتل کے فتوے دئیے گئے۔ حکام کو اکسایا گیا۔ عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرح سے میرے نابودکرنے کی کوشش کی گئی مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور اُن کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نامراد اور ناکام رہے۔ افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں۔ ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانے کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں۔ کیا بجز خدا تعالیٰ کے کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو۔ نہیں سوچتے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نامراد نہ رہتے۔ کس نے ان کو نامراد رکھا؟ اُسی خدا نے جو میرے پاس ہے‘‘۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 242-241)
اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں جماعت کی ترقیات دکھاتا چلا جائے اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ اٰمین۔
٭٭٭٭