جماعت احمدیہ بینن کی ترقیات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 2004ء میں مکرم مرزا انوار الحق صاحب مربی سلسلہ نے اپنے مضمون میں بینن میں عظیم الشان ترقیات کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ وہاں انقلابی کامیابیاں تو دراصل حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی فرنچ سپیکنگ ممالک میں جماعتی ترقی سے متعلق رؤیا اور آپ کی خاص ذاتی دلچسپی کی مرہون منت ہیں۔ 1996ء تک بینن میں صرف ایک ہزار افراد جماعت احمدیہ سے وابستہ تھے جو کہ کُل 25 گاؤں اور شہروں میں رہائش پذیر تھے۔ اسی طرح کُل آٹھ چھوٹی بڑی احمدیہ مساجد تھیں۔
1997ء میں مرکزنے مکرم حافظ احسان سکندر صاحب کو بینن بھجوایا اور کچھ عرصہ کے بعد آپ کو امیر ومشنری انچارج مقرر کر دیا گیا۔ آپ نے مختلف علاقوں سے دینی علم کا شوق اور دعوت الی اللہ کی لگن رکھنے والے افراد کیلئے ایک تربیتی کلاس لگاکر مختلف زبانیں جاننے والے لوکل معلمین تیار کئے۔ مکرم علی حسینی صاحب جو مراکش سے دینی تعلیم حاصل کر چکے ہیں، کلاس ٹیچر مقرر ہوئے ۔ ایک سال تک یہ کلاس جاری رہی اور سولہ احباب نے کامیابی سے یہ کورس مکمل کیا۔
اُس سال کا ایک ہزار بیعتوں کا ٹارگٹ اس ٹیم کے ذریعہ پورا ہو گیا۔ آئندہ سال یہ ٹارگٹ دس گنا کر دیا گیا جو اللہ تعالیٰ نے اس ٹیم کو پورا کرنے کی توفیق دی۔ تیسرے سال بینن، ٹوگو اور نائیجر کا مجموعی ٹارگٹ آٹھ لاکھ پچاس ہزار کردیا گیا جو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا ہوا۔ الحمدللہ۔
آج بینن میں کوئی ایسا شخص نہیں جو جماعت احمدیہ کے نام ، عقائد اور خدمات سے واقف نہ ہو۔ اب جماعتوں کی تعداد چار سو تک پہنچ گئی ہے۔ دس مراکز ہیں اور 21 لوکل معلمین سرگرم عمل ہیں۔ نئی جماعتوں میں نظام جماعت کے ساتھ ساتھ ذیلی تنظیموں کو بھی منظم کیا جا رہا ہے۔ اس قوم کی خصوصیت یہ ہے علمی مجالس خواہ دس گھنٹے کی ہوں، غور سے سنتے ہیں۔ لاکھوں نو مبائعین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک سو نئی مساجد کا منصوبہ حضورؒ نے عطافرمایا تو تقریباً ہر جگہ مسجد کے لئے زمین اسی گاؤں یا شہر نے تحفۃً پیش کی۔ اس منصوبہ کے تحت 29 مساجد تعمیر ہو چکی ہیں اور چھ زیر تعمیر ہیں۔ نیز 311 مساجد اپنے اماموں اور مقتدیوں سمیت جماعت کو عطا ہوئی ہیں۔ الحمدللہ
حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ بینن میں ایک دفعہ پھر پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی ہے۔ اس وقت تک بینن میں 70کے قریب بادشاہ احمدی ہوچکے ہیں جن میں سے سب سے بڑے یعنی ’’کنگ آف پاراکو‘‘ (بادشاہوں کی ایسوسی ایشن کے صدر) ہیں جبکہ ان کے سیکرٹری ’’کنگ آف الاڈا‘‘ بھی احمدی ہیں۔ اسی طرح ’’کنگ آف داسا‘‘ جو کہ ایسوسی ایشن کے مینیجر اور بہت بڑے علاقہ کے سردار ہیں، وہ بھی گزشتہ سال احمدی ہوئے ہیں۔ دونوں بڑے بادشاہوں کوحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بابرکت کپڑے کا ٹکڑا عطا فرمایا تھا۔ یہ بادشاہ کثیر تعداد میں اپنی رعیت کے مالک ہیں اور اپنے اپنے علاقہ میں معزز مقام رکھتے ہیں۔ صدر مملکت سمیت اعلیٰ سرکاری عہدیداران بھی ان کے عقیدت مند ہیں۔ ان میں سے چند بادشاہ پہلے سے مسلمان تھے باقی عیسائی تھے یا بت پرست۔
احمدیت کے لئے ان بادشاہوں کے اتحاد کا نظارہ اس وقت سامنے آیا جب گنی بساؤ میں احمدیت کے خلاف کارروائی کی گئی تو مکرم امیر صاحب نے ’’کنگ آف پاراکو‘‘ سے پوچھا کہ اگر جماعت کے خلاف یہاں بینن میں کارروائی کی گئی تو آپ کیا کریں گے۔ اس پر انہوں نے بادشاہوں کی ایسوسی ایشن کی ایک اجلاس بلایا اور یہی سوال ان سے پوچھا۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ’’ احمدیت کے خلاف بینن میں اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا جب تک ہم زندہ ہیں۔ کیونکہ احمدیت نے ہم کو امن دیا اور ایمان دیا ہے جو کہ ہم سب کو اور ہماری عوام کو پسند ہے‘‘۔ چنانچہ کنگ آف پاراکو نے کہا کہ میں احمدیت کو اس علاقے میں لے کر آیا ہوں اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ انشاء اللہ العزیز میرے جیتے جی احمدیت کے لئے کوئی بُرا نہیں سوچ سکتا۔ اسی طرح ایک موقع پر انہوں نے مخالفِ احمدیت شرپسند ملاؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے ریڈیو پر تقریر کی اور کہا کہ جو بھی احمدیت کے متعلق حقیقی علم اور صحیح معلومات لینا چاہتا ہے وہ مجھ سے آکر لے کیونکہ میں بڑی تحقیق اور مطالعہ کے بعد احمدی ہوا ہوں اور خود خلیفہ وقت سے مل بھی چکا ہوں اور احمدیت کی تمام سرگرمیوں سے واقف ہوں۔
بینن میں جلسہ سالانہ چند افراد سے شروع ہوا تھا پھر 1999ء میں 16ویں جلسہ سالانہ میں ڈیڑھ ہزار افراد شامل ہوئے۔ 2000ء میں یہ تعداد چار ہزارہو گئی۔ اس پر حضورؒ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جلسہ بینن پچاس ہزار نفوس کا ہو۔خدا تعالیٰ کے فضل سے 2002ء میں ہونے والے 18 ویں جلسہ سالانہ کی حاضری حیرت انگیز طور پر 50 ہزار نفوس سے زائد تھی۔ اس میں ڈیڑھ ہزار غیراز جماعت اور کثرت سے نو مبائعین موجود تھے۔ بینن کی421 ، ٹوگو سے 26 اور نائیجر سے 14جماعتوں کی نمائندگی ہوئی۔ کل ستر بادشاہان نے شرکت کی۔ نائیجر کے بڑے سلطان گیارہ افراد کے ساتھ 3 ہزار کلومیٹر کا سفر کر کے تشریف لائے۔ 9 دیگر ممالک سے بھی وفود آئے جن میں برطانیہ، ماریشس ، گھانا، نائیجیریا، بورکینافاسو، ٹوگو، ساؤٹومے، گیبون اور نائیجر شامل تھے۔ جلسہ میں شمولیت کے لئے ’’کنگ آف پاراکو‘‘ 14 بادشاہوں کے ہمراہ گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے۔
مورخہ 8 جون 2000ء کو صدر مملکت جناب عزت مآب ’’ماتھیو کریکو‘‘ نے جماعت احمدیہ کے وفد کو خصوصی ملاقات کے لئے مدعو کیا۔یہ ملاقات نصف گھنٹہ جاری رہی جس میں صدر مملکت کو احمدیہ عقائد کا تعارف پیش کیا گیا اور بینن میں کئے جانے والے فلاحی پروگراموں سے آگاہ کیا گیا۔ صدر مملکت نے جماعت احمدیہ کے کاموں پر خوشنودی کا ظہار کیا اور بتایا کہ وہ جماعت کی طرف سے بینن میں ہونے والے فلاحی کاموں سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے اس ملاقات میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا بھی شکریہ ادا کیا۔