جماعت احمدیہ- مالی قربانیوں کے میدان میں

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے ملینئم نمبر 2000ء میں جماعت احمدیہ کی مالی قربانیوں کے بارہ میں مکرم خورشید احمد صاحب انور کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں آپ نے جماعت کی تاریخ کے حوالہ سے انفرادی اور اجتماعی مالی قربانیوں کو اختصار سے بیان کیا ہے۔
حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کا حضرت مسیح موعودؑ کے نام یہ خط ملاحظہ کیجئے: ’’…مَیں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے، میرا نہیں آپؑ کا ہے۔ حضرت پیرومُرشد! مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہوجائے تو مَیں مراد کو پہنچ گیا‘‘۔
ایک دفعہ حضورؑ کو ایک اشتہار کی اشاعت کیلئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی۔ حضورؑ نے حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی سے پوچھا کہ اُن کی جماعت اس رقم کا انتظام کرسکے گی؟۔ حضرت منشی صاحبؓ نے عرض کیا: انشاء اللہ ضرور کرسکے گی۔ یہ کہہ کر آپؓ کپورتھلہ پہنچے اور اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کرکے رقم حضورؑ کی خدمت میں پیش کردی۔ کچھ عرصہ بعد یہ واقعہ حضورؑ کی زبانی حضرت منشی اروڑہ صاحبؓ کپورتھلوی کو معلوم ہوا تو وہ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ سے سخت ناراض ہوئے اور مسلسل چھ ماہ تک اس بات پر ناراض رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر تک نہیں کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے چند ماہ بعد حضرت منشی اروڑہ صاحبؓ نے قادیان آکر حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کو تین پاؤنڈ دیئے کہ یہ اماں جانؓ کو دیدیں، اور یہ کہتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئے۔ جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو بتانے لگے کہ مَیں غریب آدمی تھا مگر جب بھی چھٹی ملتی تو قادیان روانہ ہوجاتا۔ سفر کا بیشترحصہ پیدل ہی طے کرتا تاکہ سلسلہ کی خدمت کے لئے چند پیسے بچ جائیں۔ جب امراء کو سلسلہ کی خدمت کے لئے روپیہ خرچ کرتے ہوئے دیکھتا تو دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ مَیں بھی چاندی کی بجائے سونے کا کوئی تحفہ حضورؑ کی خدمت میں پیش کروں۔ آخر ہر ماہ بچت سے ایک ایک کرکے تین پاؤنڈ خرید لئے مگر جب دل کی آرزو پوری ہوئی توحضورؑ کی وفات ہوگئی۔
حضرت منشی اروڑہ صاحبؓ تحصیلدار کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تو اپنے گھر بار اور اہل و عیال کو خیرباد کہہ کر مستقل طور پر قادیان آگئے اور ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں دھونی رماکر بیٹھ گئے۔ اگرچہ پچاس روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی مگر معمولی سی رقم اپنے پاس رکھ کر باقی ساری رقم چندہ میں دیدیتے۔
حضرت چودھری رستم علی صاحبؓ ترقی پاکر انسپکٹر بن گئے اور آپؓ کی تنخواہ 80 روپے سے بڑھ کر 180 روپے ہوگئی تو آپؓ نے حضورؑ کو لکھا کہ میری تخواہ میں اضافہ محض خدمت دین کی خاطر ہوا ہے اس لئے اُس چندہ کے علاوہ جو پہلے سے ادا کرتا آرہا ہوں، ایک سو روپے کی اضافی رقم بھی آئندہ ہر ماہ حضورؑ کی خدمت میں بھجواتا رہوں گا۔
جب مینارۃالمسیح کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تو حضرت منشی شادی خان صاحبؓ نے چارپائیوں کے علاوہ گھر کا سارا سامان فروخت کرکے تین سو روپیہ حضورؑ کی خدمت میں پیش کردیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ منشی صاحب نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسا نمونہ دکھایا ہے اور سوائے اللہ کے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا۔ یہ سُن کر حضرت منشی صاحبؓ نے گھر کی چارپائیاں بھی فروخت کردیںا ور رقم حضورؑ کی خدمت میں پیش کردی۔
ایک بار جب جلسہ سالانہ کے دنوں میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے عرض کی کہ مہمانوں کے کھانے کے لئے رقم کی ضرورت ہے تو حضورؑ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر فروخت کردیں۔ دو دن کے بعد جب میر صاحبؓ نے دوبارہ عرض کیا کہ اگلے روز پھر رقم کی ضرورت ہوگی تو حضورؑ نے فرمایا کہ جس کے مہمان ہیں وہ خود انتظام کرے گا۔ اگلے دن کی ڈاک میں سو سو پچاس پچاس روپے کے دس پندرہ منی آرڈر موصول ہوگئے تو حضورؑ نے حاضرین کے سامنے توکل کے مضمون پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسا ایک دنیادار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا لے لوں گا، اُس سے زیادہ یقین متوکلین کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے، خدا تعالیٰ بھیج دیتا ہے۔
ایک روز حضورؑ نے حضرت امّ المومنینؓ سے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ کسی سے قرض لیا جائے کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپؑ نماز ظہر سے واپس آئے تو مسکرارہے تھے۔ فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالیٰ کے متواتر نشان دیکھنے کے بعض دفعہ بدظنی سے کام لیتا ہے۔ جب مَیں نماز کے لئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے آگے بڑھا اور ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دیدی۔ مَیں سمجھا کہ کچھ پیسے ہوں گے مگر اس میں سے کئی سو روپیہ نکلا ہے۔
مالی خدمات کا یہ سلسلہ تابعین اصحاب احمد میں بھی اسی طرح جاری رہا چنانچہ حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب قاعدہ یسرناالقرآن کے موجد تھے جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آپ کی آمد سینکڑوں روپیہ ماہوار تھی۔ آپ محض تیس روپے اپنے پاس رکھتے اور باقی اشاعت دین کے لئے پیش کردیتے۔ جب گرانی بہت زیادہ ہوگئی تو پھر چالیس روپے رکھنے شروع کردیا۔ 1940ء میں آپ نے دس ہزار روپیہ خدمت دین کے لئے پیش کیا۔
حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الہ دین صاحب آف سکندرآباد کو قبول احمدیت کے بعد 1952ء تک 37 سال میں گیارہ لاکھ روپے سے زائد خدمت دین کے لئے پیش کرنے کی توفیق ملی۔ چنانچہ 1933ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ’’وہ اتنا وقت اور اتنا روپیہ تبلیغ احمدیت کے لئے صرف کرتے ہیں کہ کوئی اَور فرد نہیں کرسکتا‘‘۔
اسی طرح محترم سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب آف کلکتہ نے قربانی و ایثار کے باب میں شاندار مثالیں قائم کیں۔ مسجد اقصیٰ ربوہ کا ابتدائی تخمینہ دو لاکھ روپے تھا جو آپ نے اپنی طرف سے ادا کرنے کی مخلصانہ پیشکش کی جو قبول کرلی گئی۔ تعمیر کا کام مکمل ہونے تک یہ اخراجات پندرہ لاکھ روپے تک پہنچ گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے چاہا کہ جماعت کے دوسرے مخیّر احباب کو بھی اس سعادت میں شامل کرلیا جائے لیکن جب محترم سیٹھ صاحب کو حضورؒ کے اس ارادہ کا علم ہوا تو کمال عاجزی کے ساتھ دوبارہ عرض کی کہ خادم نے مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ چنانچہ آپ نے سارا خرچ پوری بشاشت اور اِنشراح صدر کے ساتھ ادا کیا۔
قربانی و ایثار کے باب میں مردوں کے دوش بدوش احمدی مستورات نے بھی کئی اہم سنگ میل نصب کئے ہیں۔ مسجد فضل لندن، مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) اور مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی تعمیر کے تمام تر اخراجات خواتین نے ہی برداشت کئے ہیں۔ جبکہ نائیجیریا میں چار مساجد احمدی مستورات کے چندوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ نیز بشمول جرمن، دو زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت بھی خواتین کے چندہ سے کی گئی ہے۔
جب حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد فضل لندن کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی تو کئی خواتین نے اپنا تمام تر زیور بلاجھجھک حضورؓ کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ ایک مخلص خاتون محترمہ کریم بی بی صاحبہ زوجہ محترم منشی امام الدین صاحب پٹواری نے اپنی والدہ کی نشانی کے طور پر صرف ایک زیور اپنے پاس رکھ کر باقی سارا زیور پیش کردیا جو ترازو میں سیروں کے حساب سے تولا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں